اپنے اندر اتر رہا ہوں میں
اپنی پہچان کر رہا ہوں میں
میں اُبھرتا ہوں ڈوبنے کے لئے
ڈوب کر پھر اُبھر رہا ہوں میں
حُسن بن کر بگڑ گیا ہے وہ
عشق بن کر سنور رہا ہوں میں
اب تو اُس سے کوئی نہیں رشتہ
ہاں کبھی ہم سفر رہا ہوں میں
لوگ مرمر کے جی رہے ہیں آج
اور جی جی کے مر رہا ہوں میں
روشنی ہر طرف ہے جب حیدرؔ
کیوں اندھیرے سے ڈر رہا ہوں میں
٭٭٭