وجود میرا اگر اُس پہ منکشف ہو جائے
مجھے یقین ہے وہ خود سے منحرف ہو جائے
میں روشنی ہوں تو اُترا ہوں روح تک اُس کی
وہ آئنہ ہے تو پھر مجھ پہ منعطف ہو جائے
جو منہ سے بنتا ہے منکر مِرا اُسے کہہ دو
کہ حوصلہ ہے تو دل سے بھی منحرف ہو جائے
وہ یوں نہ ترکِ تعلق کا خط بھی لکھ پایا
کہ لکھتے وقت کہیں خط نہ مختلف ہو جائے
بھٹکتا پھرتا ہے پھر کیوں مِرے خیالوں میں
وہ خود پسند ہے تو خود میں معتکف ہو جائے
نہ اعتراف بھی حیدرؔ کبھی کریں دونوں
اور اپنے پیار کی دنیا بھی معترف ہو جائے
٭٭٭