پلکوں پہ تیری یاد کے منظر بکھر گئے
جیسے ستارے سینۂ شب میں اُتر گئے
بے خواب راستوں میں کوئی پوچھتا پھرا
خوابوں کے شہر کے وہ مسافر کدھر گئے
ہم تشنگی میں ڈوبے ہوئے دیکھتے رہے
ٹھنڈی ہوا سے کھیلتے بادل گزر گئے
گھر تو ہے اپنا ایک سو ایسے بچھڑ لئے
تم اپنے گھر کو چل پڑے، ہم اپنے گھر گئے
ٹکرائے آئینوں سے جو پتھر پلٹ گئے
لیکن صداؤں کے جو جنازے ٹھہر گئے!
٭٭٭