وہ دکھائیں نہ مجھے اپنی اداؤں کا فریب
مجھ پہ ظاہر ہے سبھی اُن کی وفاؤں کا فریب
جیسے خاموشی چٹخنے کی صدا آئی ہو
یوں گرا ٹوٹ کے اِن زرد خزاؤں کا فریب
لُٹ گیا آج مِرے دیس کے سورج کا شباب
کھا گیا دُھوپ کو اِن کالی گھٹاؤں کا فریب
لَوٹ کر پھر مِری آواز نہ آئی حیدرؔ
ڈوب کر رہ گیا صحرا میں صداؤں کا فریب
٭٭٭