اک یاد کا منظر سا خلاؤں پہ لکھا تھا
جب ٹوٹتے تاروں سے کوئی جھانک رہا تھا
ہر چہرے پہ تھی ثبت شناسائی کی تحریر
میں اجنبی لوگوں کے قبیلے میں گھِرا تھا
خوابوں کے جزیرے سے بلاتا ہی رہا وہ
میں اپنے کنارے سے اُتر بھی نہ سکا تھا
اب وہ بھی مجھے شعبدے لفظوں کے دکھائے
وہ جو مِری خاموش محبت کی صدا تھا
جو بخش گیا صدیوں کی مہکی ہوئی سوچیں
اک لمحۂ گزراں یا کوئی موجِ ہوا تھا
تُو جس کے لئے خود کو بھلا بیٹھا تھا حیدرؔ
کیا اُس نے بھی بُھولے سے تجھے یاد کیا تھا
٭٭٭