لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں
سارے منظر آئنوں سے خود مٹا کر آئے ہیں
ایک لمحے میں کئی برسوں کے ناطے توڑ کر
سوچتے ہیں‘ اپنے ہاتھوں سے یہ کیا کر آئے ہیں
راستے تو کھو چکے تھے اپنی ہر پہچان تک
ہم جنازے منزلوں کے خود اُٹھا کر آئے ہیں
سارے رشتے جھوٹ ہیں‘ سارے تعلق پُر فریب
پھر بھی سب قائم رہیں یہ بد دعا کر آئے ہیں
ہر چھلکتے اشک میں تصویر جھلکے گی تِری
نقش پانی پر تِرا اَن مِٹ بنا کر آئے ہیں
موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب
زندگی! جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں
سارے شکوے بھول کر آؤ ملیں حیدرؔ اُنھیں
وہ گئے لمحوں کو پھر واپس بُلا کر آئے ہیں
٭٭٭