اب تو جذبے زبان مانگتے ہیں
پَر بَریدہ اُڑان مانگتے ہیں
عشق کی پڑھنا چاہتے ہیں نماز
اور اِذنِ اذان مانگتے ہیں
دور سے صرف دیکھتے ہی رہیں
کب یہ ہفت آسمان مانگتے ہیں
ہم تہی دست آبروئے فقر
سود دے کر زیان مانگتے ہیں
دل کی اک بات کہنا ہے لیکن
پہلے جاں کی امان مانگتے ہیں
یا تو کچھ بھی نہیں ہیں مانگتے، یا
تیرے سارے جہان مانگتے ہیں
ایسی عمروں کے پیار تو حیدرؔ
جسم و جاں سے لگان مانگتے ہیں
٭٭٭