قریب آکے حَسِیں واہموں میں چھوڑ گیا
عجیب عجیب سی خوش فہمیوں میں چھوڑ گیا
نظر سے دور ہے لیکن نظر میں ہے پھر بھی
کہ عکس اپنے مِرے آئنوں میں چھوڑ گیا
لکھی مسافتِ صحرائے آرزو جس نے
وہ میری آنکھوں کو کن پانیوں میں چھوڑ گیا
سماعتوں میں ابھی تک ہیں اُس کی چہکاریں
وہ ہم سفر جو مجھے راستوں میں چھوڑ گیا
وہ شہرِ خواب کا کوئی حَسیں مسافر تھا
جو عمر بھر کے لئے رَت جگوں میں چھوڑ گیا
قدم قدم پہ اُگائے بہار کے موسم
جو میرے دل کو خزاں موسموں میں چھوڑ گیا
ملا تھا گرچہ بچھڑنے کے واسطے حیدرؔ
وہ قربتوں کی مہک فاصلوں میں چھوڑ گیا
٭٭٭