جب آئے موسموں کی زد میں ساونوں کے بدن
ہوا میں بھیگ گئے ننگی بارشوں کے بدن
سُنائی دیتا ہے بہری سماعتوں کو شور
اُنہیں بُلاتے ہیں اَندھی بصارتوں کے بدن
عجیب حادثہ تھا آئینوں سے ٹکرا کر
خود اپنے خون میں ڈوبے تھے پتھروں کے بدن
ترے وصال کی یوں لذتیں اٹھاتا ہوں
کہ روز ملتے ہیں قدموں کی آہٹوں کے بدن
وہ سرد رات کی تنہائی اور یخ بستر
سلگ رہے تھے ہزاروں اداسیوں کے بدن
جو اپنی روح کے صحرا میں کھو گئے حیدرؔ
وہ ڈھونڈ لیں گے خود اپنے سمندروں کے بدن
٭٭٭