عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں
سسکتی پیاس لبوں پر فرات آنکھوں میں
پھر اس کو دامنِ دِل میں کہاں کہاں رکھیں
سمیٹ سکتے ہیں جو کائنات آنکھوں میں
تمہیں تو گردشِ دوراں نے روند ڈالا ہے
رہی نہ کوئی بھی پہلی سی بات آنکھوں میں
قطار وار ستاروں کی جگمگاہٹ سے
سجا کے لائے ہیں غم کی برات آنکھوں میں
وہ بے وفا کبھی اتنا بھی کب تھا بے گانہ
نہ بے رُخی‘ نہ کوئی التفات آنکھوں میں
بکھر گئے ہیں مِلن کے تمام دن حیدرؔ
ٹھہر گئی ہے جدائی کی رات آنکھوں میں
٭٭٭