وہ پچھلی گھڑی شب کی، وہ خوف زدہ چہرہ
سوپایا نہ اک پَل بھی خوابوں سے ڈرا چہرہ
تسخیرِ خلا سے بھی مفہوم نہیں بدلا
پتھر ہے ترا دل تو، ہے چاند ترا چہرہ
یادوں کے جزیرے میں آیا تھا جو چپکے سے
اشکوں کے سمندر میں وہ ڈوب گیا چہرہ
بھولا ہی نہیں اب تک منظر وہ جدائی کا
وہ کھوئی ہوئی آنکھیں، وہ اُترا ہوا چہرہ
کہلاتا تھا جو خود کو معبود اُجالوں کا
دن کا ہی اُجالا تھا جب اُس کا بجھا چہرہ
میں جھیل کنارے پر بیٹھا تھا اکیلا ہی
جب جھیل کے پانی میں دیکھا تھا ترا چہرہ
یہ شہر ہے یا کوئی اوہام نگر حیدرؔ
ہر چہرہ یہاں پر ہے تشکیک زدہ چہر
٭٭٭