نہ جانے کون سازشوں کا ہم شکار ہوگئے
کہ جتنے صاف دل تھے اُتنے داغ دار ہوگئے
بھرم بھی بے وفائی کا ہمِیں کو رکھنا پڑگیا
تمام بے وفا ہی جب وفا شعار ہوگئے
ہماری نیک نامیوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا
کہ نیکیوں سے تھک کے ہم گناہ گار ہوگئے
کسی کے گاؤں جاکے دل میں آبلے سے پڑگئے
گلاب جیسے لوگ تھے کہ خار خار ہوگئے
یہ سوچ لیجئے آئینہ ہے آئینے کے سامنے
جو ہم ہوئے تو آپ بھی بے اعتبار ہوگئے
خزاں کے سرد ہاتھ سے جنہیں بچا کے لائے تھے
بہار پر وہ بدنصیب پھول بار ہوگئے
کنارِ آب حیدرؔ اپنا منہ لئے کھڑے رہے
گھڑے کے بدلے کار میں وہ پُل سے پار ہوگئے
٭٭٭