نیکی کی راہ میں کوئی بدنام مرگیا
قربِ خدا سے شاعرِ الہام مرگیا
دانائیوں کے زعم میں جاہل ہی وہ رہا
مشہور آدمی تھا سو بے نام مرگیا
اپنے لہو کی سُرخی اُفق پر اچھالتا
سورج کو کیا ہوا کہ سرِشام مرگیا
اچھا ہوا کہ ہم سے محبت نہیں تمہیں
اچھا ہوا کہ دل کا یہ ابہام مرگیا
حیدؔر شرافتوں کا جو الزام ہم پہ تھا
لو آج اپنی موت یہ الزام مرگیا
٭٭٭