عذاب فاصلوں کا قربتوں کے رستے میں
یہ خواہشوں کے سفر خامشی کے سینے میں
میں دُھوپ بن کے جب آنگن میں اُس کے اُترا تھا
سمٹ گیا تھا وہ اپنی اَنا کے سائے میں
اُسے خبر ہی نہیں جس کی خوشبوؤں کے لئے
ٹھہر گئی تھیں کئی صدیاں ایک لمحے میں
کچھ ایسے آتے رہے اُس کے لمس کے جھونکے
دھنک اترتی گئی دل کے ذرّے ذرّے میں
وہ میرے خواب کوئی جوڑنے لگا حیدرؔ
وہ روشنی کوئی چمکی مِرے اندھیرے میں
٭٭٭