ایک اَن دیکھے کی سوچوں میں گھرا رہتا ہوں میں
اُس کی آنکھیں، اُس کا چہرہ سوچتا رہتا ہوں میں
اُس کے ہونٹوں کا تبسم، اُس کے پیکر کی مہک
خود سے ہی کیا کیا نہ جانے پوچھتا رہتاہوں میں
کردیا ہے اُس نے کن خوش فہمیوں میں مبتلا
اُس کے خالی خط کے معنی ڈھونڈتا رہتا ہوں میں
وہ بھی اپنے آئینے میں دیکھتا ہوگا مجھے
جس کو اپنے آئینے میں دیکھتا رہتا ہوں میں
خواہشوں کی تتلیوں کے ساتھ اڑتا ہوں مگر
وسوسوں کے سامنے بے دست و پا رہتا ہوں میں
کون ہے جو رُوح میں میری سرایت کر گیا
رات دن کس کے خیالوں میں پڑا رہتا رہتا ہوں میں
دل کے دروازے پہ دستک دے کے چھپ جاتا ہے وہ
اور اپنے سامنے حیدرؔ کھڑا رہتا ہوں میں
٭٭٭