میرزا ادیب لاہور
حیدر قریشی مجھ سے دُور بھی ہیں اور قریب بھی ۔ دُور زمینی فاصلے کے لحاظ سے ، اور قریب اس محبت اور خلوص کی بنا پر جو وہ میری ذات کے لئے روار کھتے ہیں،مگر کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب وہ میرے بہت ہی قریب آجاتے ہیں ، یہ وہ لمحے ہو تے ہیں جب میں اُ ن کی کسی تڑپا دینے والے والی تخلیق کا مطالعہ کرتا ہوں ، یہ تخلیق بالعموم شعری صورت میں ہو تی ہے۔ حیدر قریشی نے اپنی ذہانت کا ثبوت کئی صورتوں میں دیا ہے ، وہ ایک شاعر بھی ہیں ، افسانہ نگار بھی ، اور ان کے علاوہ ایک مدیر بھی۔ مجھے ان کی ساری صلاحیتوں نے متاثر کیا ہے ، مگر میں جب معروضی انداز میں ان کا تجزیہ کر تا ہوں تو کہہ سکتا ہوںکہ میری نظروں میں ان کی غزل ان کے تخلیقی جو ہر کی خصو صی مظہر ہے ۔ ان کے بعض غزلیہ شعروں نے مجھے حزن و ملا ل کی کیفیت سے بھی دو چار کیا ہے مگر ایسی کیفیت کے اندر بھی اپنا ایک سر ور ہو تا ہے۔ یہ سروردر سر ور قسم کی کیفیت سے عبارت ہے۔ اس کی وضاحت نہیں ہو سکتی ۔ میں نے حیدر کے جب یہ شعر پڑھے تھے تو میری آنکھیں بے اختیار نم ناک ہو گئی تھیں:
حیدر قریشی مجھ سے دُور بھی ہیں اور قریب بھی ۔ دُور زمینی فاصلے کے لحاظ سے ، اور قریب اس محبت اور خلوص کی بنا پر جو وہ میری ذات کے لئے روار کھتے ہیں،مگر کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب وہ میرے بہت ہی قریب آجاتے ہیں ، یہ وہ لمحے ہو تے ہیں جب میں اُ ن کی کسی تڑپا دینے والے والی تخلیق کا مطالعہ کرتا ہوں ، یہ تخلیق بالعموم شعری صورت میں ہو تی ہے۔ حیدر قریشی نے اپنی ذہانت کا ثبوت کئی صورتوں میں دیا ہے ، وہ ایک شاعر بھی ہیں ، افسانہ نگار بھی ، اور ان کے علاوہ ایک مدیر بھی۔ مجھے ان کی ساری صلاحیتوں نے متاثر کیا ہے ، مگر میں جب معروضی انداز میں ان کا تجزیہ کر تا ہوں تو کہہ سکتا ہوںکہ میری نظروں میں ان کی غزل ان کے تخلیقی جو ہر کی خصو صی مظہر ہے ۔ ان کے بعض غزلیہ شعروں نے مجھے حزن و ملا ل کی کیفیت سے بھی دو چار کیا ہے مگر ایسی کیفیت کے اندر بھی اپنا ایک سر ور ہو تا ہے۔ یہ سروردر سر ور قسم کی کیفیت سے عبارت ہے۔ اس کی وضاحت نہیں ہو سکتی ۔ میں نے حیدر کے جب یہ شعر پڑھے تھے تو میری آنکھیں بے اختیار نم ناک ہو گئی تھیں:
یہ ساری روشنی حیدرؔ ہے ماں کے چہرے کی
کہا ں ہے شمس و قمر میں جو نور خاک میں ہے
عشق اور نوکری مل کر دونوں چوس گئے ہیں تجھ کو
تُو تو بس اب ایسے ہے جیسے گنے کا پھوگ
دوسرے شعر پر شاید کچھ اہل ذوق ناک بھول چڑھائیں ، لیکن میں سمجھتا ہو ں حیدر نے نچلے اور متوسط طبقے کی زندگی کے ایک عمومی پہلو کا اظہا ر دل میں اُ تر جانے والے انداز سے کر دیا ہے۔ گنے کا پھوگ ایک ایسی مثال ہے جو میں نے پہلی بار ایک شعر میں دیکھی ہے ۔ حیدر کے اور بھی کچھ اشعار ایسے ہیں جن کے متعلق میں پورے و ثو ق سے کہہ سکتا ہوں کہ انھیں گنگنا نے کو بے اختیار جی چاہا اور اکثر گنگنا تا رہا:
منزلوں نے تو مجھے ڈھونڈ لیا تھا حیدرؔ
پھر مرا شوق سفر مجھ کو چرا لایا تھا
خوشی حد سے زیادہ دے کے بھی بر باد کرتا ہے
انوکھے ہی ستم وہ صاحب ایجا د کرتا ہے
اور یہ شعر تو قیا مت کا شعر ہے:
غم تمہا را نہیں جا نا ں ہمیں دُکھ اپنا ہے
تم بچھڑتے ہو تو ہم خود سے بچھڑ جا تے ہیں
آ ج حیدر قریشی اپنا پہلا شعری مجموعہ دنیا ئے ادب کو دے رہے ہیں ، میں اُن کے اس مجموعے کا خیر مقدم کرنے والوں میں بصد مسرت شامل ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجروح سلطانپوری(بمبئی)
٭٭آپ کی کتاب (سلگتے خواب)پر لکھے ہوئے آراء سے مجھے پورے طور پر اتفاق ہے۔ آپ کی شاعری میں تازگی لانے کی سعیء جمیل کا پتہ چلتا ہے۔روایت میں درایت کا رویہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
حیدر قریشی تو آرائشی نقش ونگار پیدا کئے بغیر شعر کا داخلی اور خارجی حسن ابھارتا ہے۔ شاید اس کی سادگی ہی اس کا حسن ہے۔شاید اس کی خود روئیدگی ہی اس کا وقار ہے ۔ چنانچہ دیکھئے کہ اس کی پر اعتماد آواز قاری کا تعاقب کرتی ہے اور اسے دعوت دیتی ہے کہ وہ مڑکر دیکھے اور اس آواز پر لپک کر پتھر ہو جا ئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر حمیدی(اسلام آباد)
" سلگتے خواب" کی شاعری حیدر قریشی کے مزاج کی آئینہ دار ہے۔ اس شاعری کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ حیدرقریشی کا مسئلہ کیا ہے؟ اور وہ غزلیں کیوں کہہ رہا ہے؟ ان سوالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حیدر قریشی ایک ایسا شاعر ہے جس کی شاعری سچ بولتی ہے اور اپنے جذباتی مسائل کے حوالے سے اپنی پہچان کرواتی ہے۔۔ اس کے مسائل اس کے حقیقی مسائل ہیں اور ان مسائل کو شعری لباس پہنا کر اس نے جدید غزل میں اضافہ کیا ہے۔ یوں اس کا شمار آج کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ بے حد اور یجنل ہے۔ اس لئے اردو کی جدید غزل کو حیدر قریشی جیسے شاعروں کی بہت ضرورت ہے جو اپنے منفرد تجربوں اور نفسی وارداتوں کے ذریعے اس کے دامن پر جذبوں کے نئے نئے چاند سورج سجاتے جائیں!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر عباس نیر(لاہور)
حیدر قریشی کے ہاں ناموجود کو مس کرنے کی لگن ایک زندہ ارضی تجربے کی کوکھ سے پھوٹی ہے، اس لیے اس میں توازن اور اعتدال کی ایک دلاآویز کیفیت ہے۔ جدیدیت کے رسیا اکثر شعرا کے ہاں "نامعلوم کے اسرار"کے نام سے بے معنی ابہام اور بے کنا ر تجریدیت پائی جاتی ہے۔ قاری اس کا سامنا کر کے خوف ناک اجنبیت محسوس کرتا ہے اور بدکتا ہے ۔ حیدر قریشی کے لیے شعری تجربہ اہم ہے ۔ لہذا اس کے ہا ں نا موجود کے اسراریا مضامین نو ایک بالکل قدرتی اور متوازن انداز میں بتدریج ابھرتے چلے آئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ منصور(سرگودھا)
٭٭پوری کتاب(سلگتے خواب)مجھے اتنی اچھی لگی کہ میں نے اسے بار بار پڑھا اور ہربار ایک نیا پن محسوس کیا۔آپ کا ہر شعر قاری کو اپنی طرف اس طرح متوجہ کرتا ہے کہ نہ صرف وہ اسے پڑھتا ہے بلکہ دل میں اتار لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:سلگتے خواب کے پہلے ایڈیشن میں میرزا ادیب کی رائے کا مختصر اقتباس دیا گیا تھا۔ تاہم یہ رائے انہیں دنوں میںدو رسائل میں شائع ہو گئی تھی۔اب بھی یہاںمیرزا ادیب صاحب کی پوری رائے شامل کر دی گئی ہے۔سلگتے خواب کی اشاعت کے بعد ادیبوں نے مضامین اور تاثرات کی صورت جو کچھ لکھا تھا ان میں سے مجروح سلطانپوری،اکبر حمیدی،ناصر عباس نیرکے اقتباس اس انٹرنیٹ ایڈیشن میں شامل کر دئیے گئے ہیں۔(ح۔ق)
بھر کے آنکھوں میں سلگتے خواب اُس کی یاد
مجھ کو سوتے میں بھی حیدر ؔ جاگتا رکھا گیا