تم نے کبھی زخموں کے نگینے نہیں دیکھے
عشاق کے دہکے ہوئے سینے نہیں دیکھے
لہروں سے پتہ پوچھتے پھرتے تھے بھنور کا
دریا نے کبھی ایسے سفینے نہیں دیکھے
اُس نے تو دکھائے تھے کئی خواب کے منظر
نادان تھے ہم آپ ہمی نے نہیں دیکھے
ہے ماہِ شبِ ہجر بھی وہ ماہِ وصالاں
یوں جمع کبھی دونوں مہینے نہیں دیکھے
الزام سبھی تیرے سجا لیتے ہیں خود پر
ہم جیسے زمانے نے کمینے نہیں دیکھے
وہ بھید، وہ اَسرار کھُلے مجھ پہ بدن کے
دنیا میں ابھی تک جو کسی نے نہیں دیکھے
کیا دامنِ دل بھرتا کہ حیدرؔ کے جہاں پر
کشکول بھی آنکھوں کے سخی نے نہیں دیکھے
٭٭٭