اندر کی دنیائیں مِلا کے ایک نگر ہو جائیں
یا پھر آؤ مل کر ٹوٹیں اور کھنڈر ہو جائیں
ایک نماز پڑھیں یوں دونوں اور دعا یوں مانگیں
یا سجدے سے سرنہ اٹھیں یا لفظ اثر ہو جائیں
خیر اور شر کی آمیزش اور آویزش سے نکھریں
بھول اور توبہ کرتے سارے سانس بسر ہو جائیں
ہم ازلی آوارہ جن کا گھر ہی نہیں ہے کوئی
لیکن جن رستوں سے گزریں رستے گھر ہو جائیں
ایک گنہ جو فانی کرکے چھوڑ گیا دھرتی پر
وہی گنہ دوبارہ کرلیں اور اَمر ہوجائیں
صوفی، سادھو بن کر تیری کھوج میں ایسے نکلیں
خود ہی اپنا رستہ، منزل اور سفر ہوجائیں
رزق کی تنگی، عشق کا روگ اور لوگ منافق سارے
آؤ ایسے شہر سے حیدرؔ شہر بدر ہوجا
٭٭٭