اگر ہم پر عنایت ہی، نہ کچھ اکرام ہونا تھا
ترے قہر وغضب ہی کا کوئی انعام ہونا تھا
تمہارا عشق بھی ہم سے ادھورا رہ گیا جاناں
جہاں میں ہم سے حالانکہ یہی اک کام ہونا تھا
ہرا سکتانہ تھا ویسے تو کوئی بھی مگر مجھ کو
کسی کی کامیابی کے لئے ناکام ہونا تھا
مشینوں کے اس عہدِ ناروا کا میں ہی یوسف ہوں
مجھے اس نوکری کی شکل میںنیلام ہونا تھا
کسی کا جھوٹ جب اِس عہد کی سچائی کہلایا
ہمارا سچ تو خود ہی موردِ الزام ہوناتھا
دلوں کے کھیل میں پانسا پلٹ کر رہ گیا کیسے
ہمیں بے نام ہونا تھا کسی کا نام ہونا تھا
جو اُس کے وصل کے حقدار ٹھہرے اور تھے حیدرؔ
ہمیں تو صرف اُس کے عشق میں بدنام ہونا تھا
٭٭٭