مجھ سے تیری یاد کے سائے بھی کترانے لگے
پھول تیری چاہتوں کے اب تو مُرجھانے لگے
لمحہ لمحہ ٹوٹ کر خود سے بچھڑتا ہی رہے
یوں نہ ہو تو وقت کا پھر سانس رُک جانے لگے
انتہائے اجنبیت میں وہ آیا ہے مقام
اجنبی سارے کے سارے جانے پہچانے لگے
سوچ کے پھیلے ہوئے صحرا میں تنہا دیکھ کر
پھر سرابوں کے حقائق مجھ کو بہکانے لگے
کس کی سازش تھی کہ سائے رُخ بدلنے لگ گئے
ہم جہاں بھی چند گھڑیاں رُک کے سستانے لگے
٭٭٭