فاصلہ سا کچھ ہمارے درمیاں ہونے کو ہے
یعنی تھوڑا فائدہ، تھوڑا زیاں ہونے کو ہے
آج کل اُس کی ہوائیں اور فضائیں اور ہیں
ایسے لگتا ہے کہ دھرتی آسماں ہونے کو ہے
خود کو کیا سمجھاؤں اور لوگوں سے کیا بحثیں کروں
خود دلِ خوش فہم تجھ سے بدگماں ہونے کو ہے
کاروبارِ عشق سے مل جائیں گی پھر فرصتیں
چند برسوں تک مِرا بیٹا جواں ہونے کو ہے
دل ہی جب اُس شوخ کی چاہت سے اپنا بھرگیا
اب یہ سنتے ہیں وہ ہم پر مہرباں ہونے کو ہے
آتے آتے عقل بھی آخر ہمیں آنے لگی
ذہن و دل سے حُسن کا جادو دُھواں ہونے کو ہے
بیٹھے بیٹھے ہی جو اتنے شعر حیدرؔ ہوگئے
اس کا مطلب ہے، طبیعت پھر رواں ہونے کو ہے
٭٭٭