بہت چالاک ہوتے جا رہے ہو
بڑے بے باک ہوتے جا رہے ہو
تجاوز مت کرو حدّ گماں سے
یقیں، ادراک ہوتے جا رہے ہو
دلوں کا خون کرنے لگ گئے ہو
بڑے سفّاک ہوتے جا رہے ہو
کہاں ہے وہ تمہاری خوش لباسی
گریباں چاک ہوتے جا رہے ہو
دُکھوں کی آگ میں جلتے رہو، اور
سمجھ لو پاک ہوتے جا رہے ہو
نہ آندھی ہے نہ کوئی سیل پھر بھی
خس و خاشاک ہوتے جا رہے ہو
کبھی تم چاند سے بڑھ کر تھے حیدرؔ
مگر اب خاک ہوتے جا رہے ہو
٭٭٭