اداس لمحوں کے ہونٹوں میں تازگی بھر دو
بجھے ہوئے مِرے چہرے میں روشنی بھر دو
میں اپنے ’’ہونے‘‘ کے احساس سے ہراساں ہوں
مِرے شعور میں کچھ کیفِ بے خودی بھردو
کنواری رات کے سینے سے کھینچ کر آنچل
اُفق کی زردیوں میں حُسنِ تِیرگی بھردو
وہ جب خلوص کی قیمت چُکانے آیا ہے
تو میرے ذہن میں بھی رنگِ تاجری بھر دو
چلو پھر آنکھیں کرو چار موت سے حیدرؔ
پھر آج موت کی آنکھوں میں زندگی بھر دو
٭٭٭