خود اپنے ہونٹوں پہ صدیوں کی پیاس رکھتا ہے
وہ ایک شخص جو مجھ کو اُداس رکھتا ہے
نہیں وہ رنگ پہ رنگوں سا عکس ہے اُس کا
نہیں وہ پھول پہ پھولوں سی باس رکھتا ہے
یہ اور بات کہ اِقرار کر نہیں پاتا
مگر وہ دل تو محبت شناس رکھتا ہے
نہیں ہے کوئی بھی اُمید جس کے آنے کی
دل اُس کے آنے کے سوسو قیاس رکھتاہے
جو تجھ کو ملنے سے پہلے بچھڑگیا حیدرؔ
تُو کس طرح اُسے پانے کی آس رکھتا ہے
٭٭٭