"کیا ہو رہا ہے میم ؟؟"۔ احمد کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا ہادیہ نے چونک کر ناگواری سے اسے دیکھا اور خاموش رہی۔ احمد نے ٹائی کی نٹ ڈھیلی کرتے ہوئے بغور اسے دیکھا۔ جو گہری سوچ میں گم تھی ۔
"ہادیہ کیا ہوا کوئی پریشانی ہے ؟؟"۔ وہ فکر مندی سے بولا.
طبیعت تو ٹھیک ہے نا آج گرج چمک نہیں ہو رہی ؟؟ اگر میرے لیٹ آنے کا غصہ ہے تو سوری یار ایکچولی ایک میٹنگ تھی اسی لیے لیٹ ہو گیا "۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔اس کی مسکراتی آواز ہادیہ کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی ۔
"چلو باہر چلتے ہیں کھانا کھانے واپسی پہ یوسف انکل سے بھی مل لے گے ..... جلدی سے تیار ہو جاؤ !!"۔ وہ اس کا موڈ بدلنے کی خاطر بولا۔
ہادیہ ویسے ہی بیٹھی رہی جیسے احمد اس سے نہیں کسی اور سے مخاطب ہو !!
"ہادیہ میں تم سے کہہ رہا ہوں اٹھو , کتنے دن سے ہم باہر نہیں گئے تم ........"۔ وہ احمد کا ہاتھ جھٹک کر چیخ کر بولی۔
"مجھے کہیں نہیں جانا برائے مہربانی مجھے اکیلا چھوڑ دیجیے , کیوں بار بار میرے سامنے آ جاتے ہیں مجھے اذیت دینے کے لیے ....... میں تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی ....... ہر وقت کیوں میرے سر پر سوار رہتے ہو ؟؟؟ ......... کھانا کھایا , کیسی ہو , کیا کیا سارا دن مجھے ایسے سوالوں سے شدید نفرت ہے , میں کچھ کروں , نا کروں تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے ؟؟؟ ........ دو مہینے کا لاوا تھا جو نکل رہا تھا اس کا چہرہ سرخ رہا تھا آنسو اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔
احمد شدید حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا اس کے لب بینچے ہوئے تھے ۔ اس کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ بس ہادیہ خوش رہے ...... اس گھر میں وہ خود کو اکیلا نا سمجھے ......... صدف اور بلال کے جانے کے بعد وہ اس کا اور زیادہ خیال رکھتا تھا ..... آفس جانے کے بعد وہ وقفے وقفے سے فون کر کے اس کی خیریت ضرور پوچھتا تھا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی دو مہینے کی محنت کو وہ ایک جھٹکے میں زمین بوس کر دے گی......
اس کی ہر بات ہادیہ کو اذیت میں مبتلا کرتی تھی ........ اس کی فکر کرنا اسے برا لگتا تھا , وہ نفرت کرتی تھی .......
مجھے تمہارے آنے نا آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ...... مجھے یہ ہمدردی , یہ ترس نہیں چاہیے , میرے گھر والوں نے مجھے تمہارے رحم و کرم پر تو چھوڑ ہی دیا ہے اور کیا چاہتے ہو تم ؟؟ یہ سب میری برداشت سے بہت زیادہ ہے خدا کے لیے میری برداشت کو بار بار نا آزماؤ "۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"تمہیں اکیلا چھوڑ دیتا اگر ماما یہاں ہوتی ان کے آنے تک کا انتظار کر لو پھر تمہیں کبھی میری شکل نہیں دیکھنی پڑے گی مجھے نہیں تھا پتا کہ تمہارے دل میں میرے لیے اتنی نفرت ہے "۔ احمد سرد آواز میں بولا۔
ہادیہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
احمد زور دار آواز میں دروازہ بند کر کے باہر نکل گیا کچھ دیر میں گاڑی سٹارٹ کرنے کی آواز آئی ٹائروں کی چڑچڑاہٹ اس کے خراب موڈ کا غماز تھی۔
**********
"مبارک ہو ؟؟"۔ زائر کی مسکراتی آواز پر مریم نے حیرت سے مڑ کر اسے دیکھا ۔
"کس بات کی مبارک باد دے رہے ہیں ؟؟"۔ مریم نے حیرت سے پوچھا۔
"ملیحہ کی شادی طے ہو گئی ہے "۔ وہ موبائل پر مصروف سا بولا۔
مریم نے ایک جھٹکے سے مڑ کر اسے دیکھا اور بغور اس کا چہرہ دیکھا ۔ زائر نارمل موڈ میں موبائل پر مصروف تھا۔
"اچھا "۔ وہ اندرونی خوشی چھپا کر عام سے انداز میں بولی۔
"چچ چچ پھر تو بہت دکھ ہو رہا ہو گا نا آپ کو ...... "۔ وہ کپڑے تہہ کر کے رکھتے ہوئے بولی۔
زائر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔
"ہاں یہ تو ہے مگر اب کیا ہو سکتا ہے ...... تین دن بعد اس کی شادی ہے "۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
"ہو تو سکتا ہے ابھی بھی!! عین وقت پر انٹری مار دیں ہو سکتا ہے آپ کا کام بن ہی جائے یہ نا ہو کہیں ساری زندگی پچھتاوا ہی رہے ...... " وہ تیکھی آواز میں بولی۔
"میں کیوں آصف بیچارے کی بد دعائیں لوں ..... کتنا صبر کرنا پڑا ہے اس بیچارے کو شادی کے لیے ........ "۔ وہ فون رکھ کر سیدھا ہوا ۔
"ہادیہ کی خیر خیریت پتا چلی میری تو کافی دن ہو گئے ہیں اس سے بات نہیں ہوئی , آنٹی سارا بھی نہیں آئی اتنے دن سے "۔
"ٹھیک ہے وہ دونوں پرسوں میں آفس گیا تھا احمد سے ملنے "۔
مریم نے سر ہلا دیا ۔
"میں سوچ رہا تھا کہ خالہ اور خالو کو اس گھر میں شفٹ کر دیتے ہیں وہ اکیلے ہوتے ہیں وہاں طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی خالو کی تو یہی بہتر ہے وہ ہمارے رہیں "۔ مریم نے نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اماں اور ابا کی طرف سے اسے سب سے زیادہ پریشانی تھی۔
"مگر اباّ نہیں مانے گے "۔
"ہاں انہیں منانا مشکل تو ہے میں نے بھی بات کی تھی مگر وہ نہیں مانے ...... آج شام کو جانا ہے میں نے تم بھی ساتھ آ جانا , ان کے لیے مشکل ہے اپنے گھر کو چھوڑنا شروع سے وہ اسی گھر میں رہے ہیں اس گھر سے محبت تو نیچرل سی بات ہے "۔
"تھینک یو سو مچ زائر "۔ زائر نے مسکراتے ہوئے اسے گھورا۔
"اب کہاں جا رہے ہیں ؟؟"۔ زائر کو بالوں میں برش کرتے دیکھ کر وہ بولی۔
"کسی کام سے باہر جا رہا ہوں پانچ بجے تک تیار رہنا خالہ کی طرف چلے گے اوکے "۔
"کہاں جا رہے ہیں اتنا تیار ہو کر ؟؟"۔ مریم نے مشکوک سے انداز میں پوچھا۔ زائر نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
"دبئی کی فلائٹ نہیں ہے میری سو بےفکر رہو "۔ زائر گھڑی پہنتے ہوئے بولا۔
"چچ چچ اتنی خوش فہمی !! پاسپورٹ ملے گا تو جائیں گے نا دبئی اب مجھے بتائیں کہاں کی تیاری ہے "۔ زائر نے اسے گھورا۔
"اس بات کا جواب میں تمہیں آ کر دوں گا "۔
"ایک دوست سے ملنے جا رہا ہوں کہتی ہو تو نہیں جاتا "۔
ہونہہ !! مریم نے اسے سر تا پیر تک گھورا ۔
"جاؤں ؟؟"۔
مریم نے ایک طرف ہٹ کر اسے راستہ دیا ۔
زائر مسکراہٹ دبائے آگے بڑھ گیا۔ جبکہ مریم فاطمہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
**********
"تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟ وہ بھی اس وقت ....... خیریت ہے نا ؟؟ "۔ زائر گھر سے سیدھا احمد کے اپارٹمنٹ آیا تھا ۔
اپارٹمنٹ کا حال دیکھ کر وہ چکرا کر رہ گیا تھا ہر چیز یہاں سے وہاں بکھری ہوئی تھی , قیمتی گلدان فرش پر ٹوٹے پڑے تھے , ڈریسنگ ٹیبل کا شیشہ بھی ٹوٹا ہوا تھا اس کی کرچیاں پورے کمرے میں بکھری ہوئی تھی , ہر جگہ سگریٹ کے ٹکڑے پڑے تھے , کشنز ٹیرس کے پاس پڑے تھے , اور وہ خود سرخ چہرے کے ساتھ راکینگ چیئر پر بیٹھا تھا بکھرے بال , سرخ چہرہ , اس کی آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھی جیسے وہ کئی راتوں سے سویا نا ہو , زائر کو دیکھ کر اس نے سگریٹ بجھا دیا ۔
زائر کے پوچھنے پر وہ خاموش رہا ۔
"اور یہ سب کیا ہے ؟؟ , اور سگریٹ کب سے پینا شروع کر دیا ہے تم نے ؟؟ کچھ پوچھ رہا ہوں میں تم سے کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے ؟؟"۔ زائر پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔
"کچھ نہیں یار "۔ وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر بولا۔
"کچھ نہیں ہے تو یہ حال ہے اگر کچھ ہو جاتا تو تم نے پتا نہیں کیا کر دینا تھا "۔ زائر نے اردگرد بکھری چیزوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
احمد خاموشی سے واش روم کی طرف بڑھ گیا زائر فکرمندی سے اسے دیکھ رہا تھا اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ دو تین سے ادھر ہے اور وہ ادھر تھا تو گھر پر کون ہے کیا ہادیہ اکیلی ........
بہت سارے سوالات تھے جو زائر کے ذہن میں گھوم رہے تھے اور ان سوالات کا جواب صرف احمد ہی دے سکتا تھا ۔
زائر نے اس کی طرف دیکھا جو تولیے سے منہ پونچھ رہا تھا اس نے تولیہ بیڈ پر پھینکا اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔
زائر کو اس کا انداز ہی حیرت میں مبتلا کر رہا تھا , اتنی بےترتیبی تو کبھی اس کی زندگی میں نہیں ہوئی تھی اب کیا وجہ تھی ؟؟؟۔
"تم کچھ بکو گے منہ سے ؟؟ کب سے میں بکواس کر رہا ہوں کیا ہوا ہے ؟؟ کب سے ہو یہاں ؟؟"۔ زائر نے اسے بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف موڑا ۔ اور اس کے چہرے کی طرف دیکھا مگر احمد کے تاثرات سپاٹ ہی رہے ۔
"تین دن سے ". وہ مختصر جواب دے کر پھر سے فریج کی جانب متوجہ ہو گیا۔
زائر نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا جو مختلف کیبن کھول کر دیکھ رہا تھا۔
"میں کھانا آرڈر کر دیتا ہوں "۔ زائر کے کہنے پر اس نے کسی قسم کا رد عمل نہیں دیا ۔ زائر فون کر کے اس کی طرف متوجہ ہوا جو پانی پی رہا تھا۔
گلاس رکھ کر وہ لاؤنج میں چلا گیا ۔
"احمد تم مجھے کچھ بتاؤ گے یا نہیں ؟؟ مجھے تو آج بھی پتا نہیں چلتا اگر میں نے یہاں سے فائل نا لینی ہوتی ........ تین دن سے تم یہاں ہو انکل آنٹی باہر ہیں اور اسے کس کے سہارے چھوڑ کر آئے ہو ؟؟"۔ احمد نے سرد نظروں سے اس کی طرف دیکھا ۔
"اسے کسی بھی سہارے کی ضرورت نہیں ہے تم فکر مت کرو ........ وہ اکیلی رہ سکتی ہے "۔ زائر نے شدید حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر سنبھل کر بولا۔
"تم پاگل ہو گئے ہو اور کوئی بات نہیں ہے , جھگڑا ہو جاتا ہے کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے اس طرح گھر چھوڑ دینا کہاں کی عقلمندی ہے , ہادیہ پریشان ہو رہی ہو گی چلو اٹھو گھر چلو !!"۔
"میں مر بھی جاؤں گا نا تو اسے پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا "۔ اس کے آواز میں آگ کی سی تپش تھی ۔
"بکواس مت کرو احمد " زائر نے بےاختیار اسے ٹوکا۔
بیل کی آواز پر وہ چونکا۔
زائر واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کھانے کے ڈبے تھے وہ سیدھا کچن میں گیا....... کھانا خاموشی سے کھایا گیا زائر نے اس سے کوئی بات نہیں مبادا وہ کھانا ہی نا چھوڑ دے ۔
کافی کا کپ اس کے سامنے رکھ کر زائر بھی وہی بیٹھ گیا۔
مجھے نہیں پتا تمہارا جھگڑا کس بات پر ہوا ہے احمد اور مجھے جاننا بھی نہیں ہے , میں صرف یہی کہنا چاہتا ہوں کہ جو بھی بات ہے اس بھول جاؤ اور گھر چلو کیوں پریشان کر رہے ہو ........ یہ وہی ہادیہ ہے جس سے شادی کرنے کے لیے تم نے کتنے پاپڑ بیلے تھے , کہاں گئی وہ محبت تمہاری ؟؟؟ تمہیں پتا تھا نا کہ تمہاری زندگی اس کے ساتھ آسان نہیں ہو گی اس کے باوجود تم نے اسے اپنایا اب کیا ہوا ؟؟ احمد شادی کے بعد بہت ساری چیزوں کو اگنور کرنا پڑتا ہے , لڑائی , جھگڑے تو معمولی بات ہیں ہوتے رہتے ہیں بہتر یہی ہے کہ جو بھی جھگڑا ہو اسے اپنے کمرے میں ہی سلجھا لیا کرو , تم سے مجھے یہ امید نہیں تھی یار !!!"۔ زائر نے بغور اس کا چہرہ دیکھا جو کافی پیتے ہوئے پتا نہیں اس کی بات سن بھی رہا تھا یا نہیں !!
"چلو اٹھو گھر چلتے ہیں "۔ زائر اپنا کپ رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔
"میں تمہیں ساتھ لے کر ہی جاؤں گا اتنا یاد رکھنا خوشی سے نا سہی زبردستی سہی مگر میں تمہیں لے کر جاؤں گا "۔ احمد نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر پھر خاموش رہا اور خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ احمد باہر نکل گیا زائر دروازہ لاک کر کے اس پیچھے چل دیا۔
**********
گاڑی میں بھی اس کا چہرہ سپاٹ ہی رہا۔ زائر نے گاڑی ڈرائیو وے پر روکی اور اندر کی طرف بڑھ گیا احمد آہستہ قدموں سے لب بینچتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔
لاؤنج میں زائر ملازم سے بات کر رہا تھا احمد کو اندر آتے دیکھ کر اس نے سرد نظروں سے اس کی دیکھا ۔
"آپ لوگوں نے مجھے کیوں کال نہیں کی ؟؟ حد ہو گئی ہے اتنی پرواہی ....... ابھی کہاں ہے ہادیہ ؟؟"۔
"سوری سر !! آپ کا نمبر نہیں تھا اور احمد سر کا نمبر بند تھا "۔ احمد نے ملازم کی طرف دیکھا اور سر جھٹکا ۔
"وہ اوپر اپنے کمرے میں ہیں "۔ ملازم کے کہنے پر زائر تیزی سے اوپر کی طرف بڑھ گیا ملازم بھی اس کے پیچھے ہی تھا۔
یہاں صورتحال تو اس کی سوچ سے بھی زیادہ خراب تھی ہادیہ نڈھال سی بستر پر پڑی تھی , اس کی آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہوئے تھے , تین دن سے وہ بخار میں پھنک رہی تھی اسے پہلے احمد پر غصہ آیا اور پھر ملازم پر جس نے اسے نہیں بتایا تھا ۔
"چیک اپ کروایا تھا ؟؟"۔ اس نے پریشانی سے پوچھا ۔
زائر کی آواز پر ہادیہ نے آنکھیں کھولی اتنے دنوں بعد کسی اپنے کو دیکھا تھا اس کی آنکھیں بھر آئی ۔
"جی سر یہاں ڈاکٹر ہیں ڈاکٹر رضا انہوں نے چیک کیا تھا دوائی بھی دی تھی "۔
زائر اس کی طرف متوجہ جو روئی جا رہی تھی ۔
"تم جاؤ اور انہیں فون کرو کہو فوراً یہاں آئیں "۔
"جی سر "۔ ملازم تیزی سے باہر نکل گیا۔ ہادیہ سے کچھ بغیر ہی وہ باہر نکل گیا ۔ کچھ دیر بعد وہ احمد کا بازو پکڑے اندر داخل ہوا ۔ احمد کے لب سختی سے آپس میں جڑے ہوئے تھے ۔ زائر نے ایک جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا ۔
"دیکھو اس کی حالت اس وجہ سے لے کر آئے تھے اسے یہاں ہاں ؟؟ احمد کچھ شرم ہے تم میں یا نہیں ؟؟ میں اس وقت اُس کے سامنے کتنا شرمندہ ہو رہا ہوں تم سوچ بھی نہیں سکتے ....... مجھے افسوس ہو رہا ہے کیوں میں نے تمہیں سپورٹ کیا ....... اس دن کے لیے کہ وہ لاوارثوں کی طرح اس بستر پر پڑی مجھے نظر آئے ؟؟ , جھگڑا ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اسے مرنے کے لیے چھوڑ دو گے ........ میں نے اسے بہن کہا ہی نہیں مانا بھی ہے اور اگر میری بہن پر آنچ بھی آئی نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا سمجھے تم !!"۔ زائر سرد آواز میں بولا ۔
ہادیہ نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا جو سر جھکائے کھڑا تھا اور پھر زائر کو جو بری طرح اس پر برس رہا تھا اس نے پہلی دفعہ زائر کی اونچی آواز سنی تھی اس کا دل اندر ہی اندر کانپا۔
"ہونہہ محبت !! گو ٹو ہیل وڈ یور لّو ........ یہ محبت کرتے ہو اس سے ؟؟ یہ تھی تمہاری محبت جس کے لیے مر رہے تم ؟؟ اگر اس کی ذمہ داری اٹھا نہیں سکتے تھے تو اس ذمہ داری کو لیا ہی کیوں تھا ........ اتنا چھوٹا دل ہو گا تمہارا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا "۔ زائر سرخ چہرے کے ساتھ بول رہا تھا ۔
احمد سر جھکائے اس کو سن رہا تھا اس نے کسی قسم کا رد عمل نہیں دیا تھا اس کے چہرہ کے تاثرات بھی سپاٹ تھے ۔
ہادیہ نے بےاختیار اس کی طرف دیکھا وہ سوچ رہی تھی وہ اب بولے گا مگر اس کی خاموشی نے ہادیہ کو جیسے اور شرمندہ کیا تھا ۔ اسے بےاختیار احمد پر ترس آیا تھا ۔
وہ دعا کر رہی تھی کہ ڈاکٹر جلدی سے آ جائے اور کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر آ گیا اس نے بےاختیار شکر ادا کیا تھا ۔
ڈاکٹر کو دیکھ کر زائر خاموش ہو گیا ۔
"انہیں سٹریس کی وجہ سے بخار ہوا ہے میں نے انجیکشن لگا دیا ہے امید ہے کچھ گھنٹوں میں اتر جائے گا اور یہ میڈیسنز ہیں آپ لے آئیں اور کوشش کریں کہ انہیں کسی قسم کی ٹینشن نا ہو " ۔ ڈاکٹر کے ساتھ ہی احمد باہر نکل گیا ۔
کچھ دیر بعد وہ میڈیسن لے کر آیا زائر ہادیہ کو سمجھا رہا تھا وہ خاموشی سے اسے سن رہی تھی ۔
زائر نے پیار سے اس کا سر تھپتھپایا اور احمد کی جانب متوجہ ہوا ۔
"میں امید کرتا ہوں دوبارہ اس طرح نہیں ہو گا میں تم پر چیخا چلایا مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے میں جا رہا ہوں امید ہے تم اس کا خیال رکھو گے "۔ زائر سرد آواز میں کہہ کر ہادیہ کو خیال رکھنے کی تلقین کر کے احمد سے ملے بغیر ہی چلا گیا ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اسے احمد پر اب بھی کتنا غصہ ہے ۔
احمد لب بینچے وہی کھڑا تھا , ہادیہ نے ڈرتے ڈرتے ایک نظر اسے دیکھا جو گہری سوچ میں گم تھا اور پھر سے سر جھکا لیا ۔
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیسے بات شروع کرے !!
احمد گہری سانس لے کر اس کی طرف دیکھے بغیر واش روم میں گھس گیا ۔
ملازم اس کا کھانا کمرے میں ہی لے آیا تھا ۔
"احمد کا کھانا ؟؟"۔ وہ آہستگی سے بولی۔
"میم سر نے منع کر دیا ہے کھانے سے "۔ ہادیہ کا بھی دل نا چاہا کھانے کا مگر مجبوری تھی اس نے تھوڑے سے نوالے کر کھانا واپس رکھ دیا جب احمد سر تولیے سے رگڑتے ہوئے باہر آیا ۔
احمد خاموشی سے آگے آیا میڈیسن نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی اور پلٹ کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا ۔
ہادیہ نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا ۔ پانی کا گلاس رکھنے کے بعد اس نے احمد کے چہرے کی طرف دیکھا جو ابھی بھی سپاٹ تھا ۔
کچھ کہنے کی خواہش دل میں لیے وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔
**********
"اللّٰہ کا شکر ہے ہماری بچی وہاں خوش ہے احمد اتنا خیال رکھتا ہے اس کا ........ اللّٰہ زندگی اور صحت دے بچے کو بہت اچھا ہے وہ ....... "۔ زارا نم آنکھوں سے کہہ رہی تھی ۔
"مرسلین کے بعد تو جیسے اس نے خود پر ہر خوشی حرام کر لی تھی , اللّٰہ کا حکم تھا , کتنی مشکلوں سے تو ہم سنبھلے تھے اس بیچاری کا بھی کیا قصور کیا تھا ...... احمد نا ہوتا تو اور کون تھا جو اسے ہتھیلی کا چھالہ بنا کر رکھتا , صبح فون آیا تھا اس کا کہہ رہا تھا طبیعت خراب ہے اس کی بخار ہو گیا ہے میں تو پریشان ہو گئی تھی کہتا ہے ملوانے لاؤں گا جلدی ہی اب تو بہت بہتر ہے"۔
"اللّٰہ خوش رکھے دونوں کو !! آمین "۔
"آمین "۔
"میں سوچ رہی تھی کہ کل انہیں کھانے پر بلا لیتے ہیں اور ساتھ میں فاطمہ لوگوں کو بھی..... کھانے کا تو بہانہ ہی ہے ہم بچی سے مل لیں گے "۔ زارا بولی۔
"کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں کافی دن ہو گئے ہیں ملے ہوئے بچی سے فاطمہ اور بچوں سے بھی مل لیں گے "۔ سارا نے بھی ان کی بات سے اتفاق کیا۔
"میں فون کر کے کہتی ہوں انہیں "۔ سارا انہیں فون کرنے کے لیے اٹھ گئی ۔
**********
سب ہی خوشگوار دن گزار کر گئے تھے کافی عرصے بعد سب لوگ نے مل بیٹھ کر باتیں کی تھی ۔ شائستہ اور رجب علی آئے ہوئے تھے ۔ مریم نے مومل کے ساتھ مل کر کھانا تیار کروایا تھا جبکہ ہادیہ طبعیت خرابی کے باعث ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ۔
رات کے دس بجے وہ لوگ گھر سے نکلے تھے احمد خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا کل سے اس نے ہادیہ سے کوئی بات نہیں کی تھی ۔ ہادیہ نے سر سیٹ سے ٹیکا دیا اور آنکھیں بند کر لی ۔
زائر نے آج بھی احمد سے بات نہیں کی تھی وہ سارا وقت یوسف صاحب سے باتوں میں مصروف رہا تھا ہادیہ دونوں کے تاثرات نوٹ کر رہی تھی ۔ احمد حیدر صاحب کی باتیں سن رہا تھا ان کے دوست آنے پر وہ اٹھ کر چلے گئے تب احمد خاموشی سے بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا ۔
ہادیہ کو خود پر غصہ آیا تھا کاش وہ احمد سے وہ سب نا کہتی , پتا نہیں کس بات کا غصہ تھا جو اس دن احمد پر نکلا تھا , احمد کے جانے کے بعد وہ کتنی ہی دیر بےیقینی سے بیٹھی رہی تھی وہ واقعی اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے ؟؟ پتا نہیں کیسا احساس تھا جس نے اس کے دل کو جکڑ لیا تھا , اسے خود پر غصہ آیا تھا کیوں بولا اس نے یہ سب احمد سے ؟؟؟؟ ......... وہ سارا دن اس کمرے میں بیٹھی اس کا انتظار کرتی رہی تھی مگر وہ واپس نہیں آیا .......... رات کے دو بجے وہ اپنی جگہ سے اٹھی اس کا جسم ایک ہی جگہ پر بیٹھے بیٹھے اکڑ گیا تھا وہ بمشکل فون تک آئی اس نے احمد کا نمبر ملایا مگر اس کا فون بند تھا , اس کی آنکھوں سے آنسو بےاختیار بہہ نکلے ۔
صبح سے وہ بخار میں پھنک رہی تھی اس نے ایک گھونٹ بھی پانی کا نہیں پیا تھا , وہ بار بار احمد کا نمبر ملا رہی تھی مگر اس کا فون مسلسل بند تھا .......
زائر کو دیکھ وہ رو پڑی تھی اور احمد کو دیکھ کا اس کا دل چاہا وہ بےاختیار اس سے معافی مانگ لے , پتا نہیں کیسے اس کے منہ سے وہ سب نکل گیا تھا ........
احمد کی خاموشی پر اس کا دل پاتال میں گر رہا تھا ۔ زائر کے سامنے بھی وہ ایک لفظ نہیں بولا تھا ۔ وہ کل سے اس کا بہت خیال رکھ رہا تھا مگر وہ اس سے بول نہیں رہا تھا .......
یہ چیز ہادیہ کو پریشان بھی کر رہی تھی اور شرمندہ بھی ........
ان تین دنوں کی اذیت سوچتے ہوئے دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے !!
احمد نے چونک کر اسے دیکھا اور لب بینچ لیے !!
ہادیہ نے آنسو پونچھ کر اس کی طرف دیکھا جو لب بینچے گاڑی چلا رہا تھا ۔
"میں ........ میں بہت شرمندہ ہوں احمد مجھے معاف کر دیں !!"۔ وہ کہتے ہوئے بےاختیار رو دی ۔ احمد کا پاؤں بریک پر پڑا گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی۔ اس نے چونکتے ہوئے ہادیہ کی طرف دیکھا ۔ اور بےساختہ اس کے ہاتھ تھام لیے ۔
وہ احمد کے ہاتھوں پر چہرہ رکھ کے رو دی ۔
"میرے ذہن میں ایسا کچھ نہیں تھا پتا نہیں کیسے وہ سب میرے منہ سے نکل گیا ....... مجھے معاف کر دیں .... "۔ احمد نے اس کے آنسو صاف کیے ۔
"اٹس اوکے ہادیہ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے "۔
وہ اس کے ہاتھوں پر چہرہ رکھے روتی جا رہی تھی ۔
"میں بہت بری ہوں نا ؟؟"۔ ہادیہ نے روتے روتے یک دم سر اٹھا کر اس سے پوچھا۔
احمد بےاختیار مسکرا دیا ۔
"تم بہت اچھی ہو ہادیہ آخر بیوی تو میری ہو نا ........ اب گاڑی چلا لوں میں ؟؟"۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
ہادیہ نے مسکرا کر چہرہ صاف کیا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
"تم بہت اچھے ہو "۔
"خیریت ہے نا آج میری بہت تعریف ہو رہی ہے کہیں محبت تو نہیں گئی مجھ غریب سے "۔ اس کے مسکراتے لہجے پر ہادیہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
"کبھی کبھی تعریف کر دینی چاہیے صحت کے لیے اچھی ہوتی ہے "۔ وہ شرارت سے بولی۔
احمد ہنس دیا۔
گھر پہنچنے پر ہادیہ کمرے کی طرف بڑھ گئی وہ چینج کر کے واپس آئی تو احمد صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔
"محترمہ آپ کے کمرے میں تھوڑی سی جگہ مل جائے گی نا مجھے؟؟"۔ اس کی بات پر وہ شرمندہ ہوئی۔
"میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا تھا اب بار بار مجھے شرمندہ تو مت کریں "۔
احمد نے مسکراہٹ دبائے اسے دیکھا ۔
"میں تو اجازت لے رہا تھا ........ "
"امی کب آ رہی ہیں ؟؟"۔ ہادیہ بات بدل کر بولی۔
احمد اس کے بات بدلنے پر مسکرا دیا۔
"آ جائیں گی وہ بھی ابھی اپنی اور میری بات کرو "۔ ہاتھوں کا تکیہ بنا کر وہ لیٹتے ہوئے بولا۔
ہادیہ ایک دم چپ ہو گئی۔
"میں انتظار کر رہا ہوں ہادیہ "۔ وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔
"احمد تنگ نا کرو مجھے "۔
"اس دن کا بہت انتظار کیا تھا میں نے ,اس گھر میں تمہیں اتنی دفعہ دیکھا تھا کہ اب ایک خواب سا لگتا ہے سب کچھ ........ "۔ وہ دل ہی دل میں بولا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔
ہادیہ کے ریکشن سے تو وہ پاگل ہی ہو گیا تھا وہ اس بات کو سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا کہ وہ ہادیہ کو خوش رکھنے میں ناکام رہا ہے ....... ہادیہ خوش نہیں ہے اس بات کو سوچ کر اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا ....... اس کے سارے دعوے , ساری محنت دھری کی دھری رہ گئی تھی ....... وہ اس سے نفرت کرتی ہے اسے اس کی باتوں سے الجھن ہوتی ہے , وہ اس کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی , احمد بےیقینی سے اسے دیکھ رہا تھا ....... وہ تو ہواؤں میں اُڑ رہا تھا اور ہادیہ نے اسے دو منٹ میں زمین پر گرا دیا تھا ایسے کہ وہ اٹھ بھی نہیں سکا تھا گھر سے جاتے ہوئے اس کا ذہن کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں تھا , تین دن اور تین راتیں اس نے یہی سوچتے گزارا تھا , پہلی دفعہ اس نے اتنے سگریٹ پھونکیں تھے ....... تین دن اس نے ایک لقمہ بھی نہیں لیا تھا , اس کے ذہن میں ایک ہی بات گھوم رہی تھی "جس سے وہ محبت کا دعوا کرتا ہے وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی "....... کیسا مذاق ہوا تھا اس کے ساتھ .......
وہ جانتا تھا ہادیہ کے لیے مرسلین کے بعد زندگی بہت مشکل تھی ....... اس نے جن حالات میں شادی کی تھی وہ بھی احمد کے سامنے تھے مگر اسے یقین تھا کہ شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے گی مگر اس دن اس کا یقین بھی ٹوٹا تھا .......
اس نے اپنا سارا غصہ اپنے کمرے پر اتارا تھا زائر کے سامنے وہ بھی کچھ نہیں بولا مگر گھر جا کر ہادیہ کی حالت دیکھ کر وہ نا چاہتے ہوئے بھی شرمندہ ہو گیا تھا ۔
زائر کی لعن طعن اس نے سر جھکا کر سنی تھی وہ خود سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا کیسے کر سکتا ہے وہ یہ سب ؟؟؟ ہادیہ نے کہا اور وہ واقعی اسے چھوڑ کر چلا گیا ؟؟؟ تف ہے تم پر احمد ؟؟ وہ خود سے بولا۔
ہادیہ کے معافی مانگنے پر اس نے بےیقینی سے اسے دیکھا تھا کل سے وہ اس سے شرمندہ پھر رہا تھا ....... وہ سوچ رہا تھا کہ کیسے اور کن الفاظ میں اس سے اپنے رویے کی معذرت کرے ...... ہادیہ کو ایسے دیکھ کر وہ ایک بار پھر سے شرمندہ ہو گیا تھا ۔
زندگی تو اسے ہادیہ کے ساتھ ہی گزارنی تھی , ہادیہ اس کی عزت کرتی ہے محبت بھی کبھی نا کبھی ہو جائے گی ...... اس وقت کا انتظار تھا اسے ...... وہ جانتا تھا ہادیہ کے لیے یہ مشکل ہو گا مگر ناممکن نہیں .......!!
"کافی "۔ ہادیہ کی آواز پر وہ چونک کر اپنے خیالات سے باہر آیا تھا ۔
"تھینک یو اور مجھ پر جتنا بھی غصہ ہے نا آج ہی کہہ کر اتار لو کل سے ہم کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کریں گے اچھے بچوں کی طرح رہے گے ...... پیار محبت سے , خوشی خوشی "۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
"ہاں غصہ تو مجھے بہت ہے کیسے تین دن باہر رہے اور فون بھی بند تھا شرم تو نہیں آئی ہو گی نا "۔
"وہ تو ایسے ہی بس موڈ خراب تھا نا آئندہ ایسا نہیں ہو گا "۔
"پکا ؟؟"۔
"بلکل "۔
"لڑائی صرف میں کر سکتی ہوں جب بھی کروں گی تمہیں چپ کر کے سننا ہو گا , بحث نہیں کرو گے میرے ساتھ ..... آں ..... ہاں اور میری ہر بات مانو گے , ........"
"اور ......."
"اور کبھی گھر سے نہیں جاؤ گے "۔ وہ گنواتی جا رہی تھی اور احمد مسکرا کر سر اثبات میں ہلا رہا تھا ۔
**********
رجب علی اور شائستہ فاطمہ کے گھر شفٹ ہو گئے تھے مشکل سے ہی سہی مگر وہ آنے کے لیے مان گئے تھے ۔ گھر میں رونق سی ہو گئی تھی ۔ فاطمہ اور شائستہ سارا دن بیٹھ کر باتیں کرتی تھی ۔ زائر ان دونوں کا بہت خیال رکھتا تھا.
"مریم بچہ کب سے آیا بیٹھا ہے اسے چائے دو جلدی ...... وہ سارا دن کام کر کے تھکا ہارا آتا ہے اس وقت اور تم کن کاموں میں لگ جاتی ہو "۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا زائر کے آنے کے بعد اور چھٹی والے دن وہ مریم کی دوڑیں لگاوا دیتی تھی زائر ان کے پاس بیٹھا مسکراہٹ دبائے اسے دیکھتا رہتا تھا ۔
"اماں لا رہی تھی چائے آپ کے لاڈلے کے لیے اب بنتے بنتے دیر تو لگ جاتی ہے نا "۔ زائر کے کچھ نا بولنے پر وہ اسے گھورتی اور پھر اماں کو اپنی صفائی دیتی تھی۔
"تو جب پتا ہے بچے کے آنے کا یہ وقت ہے تو پانچ منٹ پہلے چائے رکھ لیا کرو وہ تھکا ہارا بیٹھا رہے اب چائے کے انتظار میں !!". اماں جل کر بولی.
"بچہ تو دیکھیں ذرا ......". اس نے زائر کے مسکراتے چہرے کو گھورا۔
"خالہ آپ بتائیں دن کیسا گزرا اور اب گھٹنے کا درد کیسا ہے "۔ اسے شاید مریم پر ترس آ گیا تھا وہ خالہ کا دھیان بٹانے کے لیے بولا۔
"ہا... بیٹا ہم دونوں بہنیں مل بیٹھ کر سارا دنتھی مریم اب پہلے کی طرح جھنجھلاتی نہیں تھی بلکہ وہ مسکراتے ہوئے اماں کی ہر بات سنتی تھی .........
اپنے کام کرنے کا جذبہ آج بھی اس میں اسی طرح تھا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جذبے میں اضافہ ہوا تھا.......
اس کے جہاں دوست بہت تھے وہی گزرتے وقت کے ساتھ اس کے دشمنوں میں بھی اضافہ ہوا تھا مگر اس کے باوجود اس کے جذبے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا .........
مرسلین کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے اس نے ان سب کیسز پر کام کیا تھا جو مرسلین ادھورا چھوڑ گیا تھا , بہت سارے ملک دشمنوں اور اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے بہت سارے لوگوں کو بےنقاب کیا تھا .........
اس کا آدھا وقت چینل پر اور پھر مرسلین فاؤنڈیشن میں گزرتا تھا .......
زائر اور ایمن کو اندر آتے دیکھ کر مریم مسکرا دی , زائر بغور اس کی بات سن رہا تھا۔
"کیا باتیں ہو رہی ہیں باپ بیٹی میں ؟؟"۔
"ہماری پرسنل باتیں ہیں آپ کو کیوں بتائیں "۔ زائر مسکراتے ہوئے بولا۔
مریم نے مصنوعی خفگی سے اسے گھورا.
"دو دن بعد میری فلائٹ ہے دبئی کی "۔ زائر نے مسکراہٹ دبائے اسے دیکھا۔
مریم نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا ۔ وہ آج بھی دبئی کے نام سے چڑتی تھی ......
"فیصل کے ساتھ جا رہا ہوں , اب میں جس کیس پر کام کر رہا ہوں اس کی انویسٹی گیشن کے لیے دبئی جانا ہے "۔ زائر مسکراتے ہوئے بولا۔
"اچھا جانے سے پہلے اپنی بیٹی کو سمجھا کے جائیے گا آپ کو پتا ہے آپ ایک دن اسے نظر نا آئیں تو کتنا شور کرتی ہے "۔ مریم کے کہنے پر زائر نے مسکراتے ہوئے ایمن کو دیکھا جو کھیل رہی تھی ۔
"کل ہادیہ کی طرف جانا ہے اتنے دن ہو گئے ہیں ہم ملے نہیں اور عون سے بھی ........"۔
"بابا ہم احمد چاچو کی طرف جائیں گے "۔ ایمن مریم کی بات کاٹ کر کھلکھلا کر بولی۔
زائر اور مریم ہنس دئیے ۔
"جی بیٹا احمد چاچو کے گھر جائیں گے ". زائر ہنس کر بولا.
اب وہ مسکراتے ہوئے عون کی باتیں زائر سے کر رہی تھی . مریم اس کے لیے کافی لینے چلی گئی زائر کو تو اب یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ اس نے کافی بھی پینی ہے .........
مریم نے مسکراتے ہوئے ایمن کو دیکھا جو زائر کے پاس سو رہی تھی زائر کو کپ پکڑا کر اس نے ایمن پر کمبل ٹھیک کیا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
"دبئی چلو گی ؟؟"۔ زائر ٹی وی پر نظریں جمائے اس سے بولا۔
مریم نے کچھ دیر سوچا اور پھر مسکرا کر سر اثبات میں ہلا دیا ۔
"بلکل میں جاؤں گی اب آپ کو اکیلا تو نہیں چھوڑوں گی نا "۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
زائر نے اسے گھورا۔
"تم نہیں بدلو گی مریم "۔
"آپ کے معاملے میں تو کبھی نہیں بدلوں گی "۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔
زائر بھی ہنس دیا۔
زندگی بہت حسین ہو گئی تھی , ہر روز ان کی نوک جھوک ہوتی تھی یہی نوک جھوک ان کے رشتے کی خوبصورتی کو بڑھاتی تھی ...
#ختم شد