ہادیہ لان میں بیٹھی غیر مرائی نقطے پر نظریں جمائی بیٹھی تھی۔ سورج غروب ہو رہا تھا ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی اور پھر سے غائب ہو گئی۔
"ہادیہ ایسے چپ چپ مت بیٹھا کرو تمہیں ایسے دیکھ کر دل کو کچھ ہوتا ہے "۔ اس نے چونک کر سامنے دیکھا جہاں مرسلین بیٹھ رہا تھا وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔
"مرسلین "۔ اس نے سرگوشی کی۔
"کیا اب نظر لگاؤ گی ؟؟"۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
ہادیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے مرسلین کا عکس جھلملانے لگا۔
"کیوں رو رہی ہو ہادیہ ؟؟؟ جانتی ہو نا کتنی تکلیف ہوتی ہے مجھے تمہارے ایک آنسو سے اور تم نے ........... " مرسلین نے سر جھٹکا۔
"دریا بہا دیئے ہیں آنسوؤں کے "۔ اس نے ہادیہ کے آنسو صاف کیے۔
"چار مہینوں میں اس گھر میں اتنا دیکھا ہے تمہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ ......... تم میری نظر کا دھوکا ہو یا سچ میں میرے پاس ہو "۔ آنسو لڑیوں کی صورت اس کی آنکھوں سے گر رہے تھے۔
مرسلین مسکرا رہا تھا۔
"میں تو ہر وقت تمہارے ساتھ رہتا ہوں ہادیہ "۔ وہ پھیکی سی مسکراہٹ لیے بولا۔
"کیوں کر رہے ہو ایسا وعدہ کرو کہ اب نہیں جاؤ گے "۔ اس نے جیسے تڑپ کر کہا۔ مرسلین نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
"مجھے جانا ہے ہادیہ مگر وعدہ کرو تم نہیں رو گی "۔ ہادیہ نے نفی میں سر ہلایا ۔
"مت جاؤ اتنے ظالم تو تم نہیں تھے مرسلین "۔ وہ سسکی۔
"ہادیہ ". سارا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ہادیہ نے تڑپ کر آنکھیں کھولی اس کا پورا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اُس نے پورے لان میں نظریں گھومائی جیسے کسی کو ڈھونڈھ رہی اور پھر سے آنکھیں موند لیں ۔ احمد نے بغور اس کی ایک ایک حرکت کو دیکھا اور لب بینچ کے اندر چلا گیا۔
"کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہو بیٹا , صبر کرو اللّٰہ انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ........ اس نے انسان کے اندر بہت طاقت رکھی ہے اسے رونے کی بجائے اس کے لیے دعا کیا کرو بیٹا ......... خود کو زندگی کی طرف لاؤ ابھی پہاڑ جیسی زندگی ہے تمہارے آگے اس طرح رو کر نہیں گزرے گی بیٹا مجھے دیکھو ایک ہی بیٹا تھا میرا اللّٰہ نے صبر دے ہی دیا شکر ہے اس کی ذات کا ........ چلو اٹھو شاباش منہ ہاتھ دھو اور کھانا کھاؤ اٹھو!!"۔ سارا نے سہارا دے کر اسے اٹھایا اور اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور اس کے آنسو پونچھے۔
ہادیہ نے بمشکل اپنی سسکیاں روکی۔
"کیسے بھولوں اس کو امی ؟؟؟ وہ بھولنے والا ہے کیا؟؟ کیسے صبر کروں امی ؟؟ اگر اس نے اتنی جلدی چلے جانا تھا تو میری زندگی میں ہی نا آتا ........ آہ مرسلین !! دیکھو کیا حال ہو گیا ہے ہمارا ؟؟"۔ وہ سارا کے ساتھ چلتے ہوئے سوچ رہی تھی ۔
لاؤنج میں احمد زارا سے باتیں کر رہا تھا اس نے آہستگی سے اسے سلام کیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
احمد خاموشی سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔
**********
زائر کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اسے اطلاع ملی تھی کہ ولید پولیس کی تحویل میں ہے . احمد کو ساتھ لے کر وہ اسی وقت پولیس سٹیشن گیا ۔ ایس پی کے آفس میں بیٹھ کر وہ بےچینی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ ایس ایچ او مجیب ابھی تک نہیں آیا تھا ۔ زائر نے وقت دیکھا ابھی آدھا گھنٹہ رہتا تھا اس کے آنے میں .......
"آج تو ٹائم ہی نہیں گزر رہا کیا مصیبت ہے "۔ زائر نے جھنجھلا کر کہا۔
"ریلیکس یار آ جاتا ہے وہ ...... اتنا انتظار کیا ہے آدھا گھنٹہ اور سہی "۔ احمد اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ زائر نے سر ہلا دیا۔
"آدھے گھنٹے کی بجائے وہ ایک گھنٹے میں آیا تھا۔
آئی ایم رئیلی سوری , آفیشل کام کا کچھ پتا نہیں چلتا کب نازل ہو جائے اسی لیے مجھے دیر ہو گئی"۔ وہ معذرت خواہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
"اٹس اوکے "۔ احمد بولا ۔
"آپ ہمیں تفصیل سے بتائیں کیسے پکڑا اسے اور کہاں سے ؟؟"۔ زائر تیزی سے بولا۔
"اسے ایس پی ہادی کے فارم ہاؤس سے پکڑا ہے اور کیسے ؟؟" وہ مسکرایا ۔
"زائر صاحب آپ کو جو کال آئی تھی اس کے زریعے , ہم نے ٹریس کر لیا اسے ...... ولید کا اپنا نمبر تو تب سے ہی بند تھا اس نے نیو نمبر سے کیا تھا اور ہماری لک تھی کہ ہم نے اسے پکڑ لیا ورنہ ایسے لوگ ہاتھ بہت کم آتے ہیں ........ اس کے تین گارڈز پکڑے گئے تھے جنہوں نے اعتراف جرم کر لیا مگر اپنے مالک کا نام نہیں آنے دیا "۔
"تو کیسے پکڑا اسے مطلب پھر یہ سب ......"۔ احمد بےچینی سے بولا۔ ایس ایچ او مسکرایا۔
"گن سے ....... مرسلین صاحب کی گردن پر اور کندھے پر جو گولیاں چلی وہ گن ولید کے نام پر ہے ........ اس نے کہا ہے کہ میری گن چوری ہو گئی ہے مگر ہمیں کوئی ایف آئی آر نہیں ملی اس بارے میں ........ مزید یہ کہ ہم پرسوں کورٹ میں پیش کریں گے "۔
"تھینک یو سو مچ آپ نے ہماری بہت ہیلپ کی "۔ زائر خود کو سنبھال کر بولا۔
"شکریہ کی ضرورت نہیں ہے یہ تو ہمارا فرض ہے ہماری پوری کوشش ہو گی کہ یہ باہر نا آئے ....... تین قتل جو کیے تھے اس نے وہ کیس بھی ری اوپن ہو گا اب انشااللّٰہ یہ اپنے انجام کو پہنچے گا "۔
"انشااللّٰہ!!"۔ وہ دونوں الواداعی کلمات کہنے کے بعد باہر آ گئے۔
احمد نے گہری سانس لے کر اس کی جانب دیکھا ۔
"انکل یوسف کے گھر چلیں ؟؟"۔
زائر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ ان کے ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے اور جیسے الفاظ جوڑ رہے تھے ۔
"کیا ہوا بیٹا ؟؟؟ "۔حیدر صاحب نے ان دونوں سے پوچھا۔
زائر نے گہری سانس لے کر سب گھر والوں کو ایک نظر دیکھا ۔
"ملک ولید جس کے خلاف مرسلین نے آخری شو کیا تھا اور جس نے مرسلین کو ...... قتل کروایا تھا ......... وہ پکڑا گیا ہے اس وقت وہ پولیس کی تحویل میں ہے "۔ زائر کی بات پر یوسف صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے احمد نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
سارا اور زارا بھی رو رہی تھی ۔
"میرا بیٹا !!"۔ حیدر صاحب نے بمشکل اپنے آنسو روکے , فہد ان کے گلے لگ گیا۔
ہادیہ ,مومل اور فضا دوسرے کمرے میں تھی۔
"پرسوں عدالت میں پیش ہو گا "۔ یوسف صاحب کے پوچھنے پر احمد نے انہیں بتایا۔
"بہت شکریہ تم دونوں کا بیٹا اگر تم دونوں نا ہوتے تو .....". "انکل مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی بیٹا بھی کہتے ہیں اور بیگانہ بھی کر رہے ہیں "۔حیدر صاحب نے اٹھ کر زائر کو گلے سے لگا لیا۔
"میں بہت خوش ہوں یار "۔ زائر نے ان کا کندھا تھپکا.
زائر اب انہیں تفصیل بتا رہا تھا۔
**********
گاڑی میں معنی خیزی سی خاموشی چھائی تھی۔ زائر کی پرسوچ نظریں سامنے سڑک پر جمی تھی جبکہ احمد اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"تم شیور ہو اس بارے میں ؟؟"۔ کچھ دیر بعد زائر سنجیدگی سے بولا۔
"اتنے سال ہو گئے ہیں اب بھی تم یہ سوال پوچھ رہے ہو مجھ سے "۔
"تم ایک بار پھر سوچ لو احمد ؟؟"۔
"ایک لمحے کی بات ہوتی تو سوچ بھی لیتا یار مگر یہاں تو ازل سے ہی سوچا ہوا ہے ......... تم جانتے ہو زائر ہر بات ,, میرے ایک ایک لمحے کا پتا ہے تمہیں "۔ احمد بےبسی سے بولا۔
جانتا ہوں میں سب کچھ مگر یہاں معاملہ پوری زندگی کا ہے , جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے اچھی طرح سوچ لو پھر فیصلہ کرنا ......... میں نہیں چاہتا کہ زندگی کہ کسی بھی موڑ پر تم پچھتاؤ ........ تم دونوں مجھے بہت عزیز ہو وہ کچھ زیادہ ہی ہے ....... اس کی حالت تمہارے سامنے ہے ...... پتا نہیں یہ فیصلہ وہ قبول کرے بھی یا نہیں , بہر حال تم سوچ لو اچھی طرح ...... مرد کی برداشت بہت کم ہوتی ہے یہ جانتے ہو تم "۔
"زائر میں جذباتی نہیں ہو رہا اور مجھے اس کے معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے ....... اتنے سال سوچا ہی ہے اس کے بارے میں , اور ان چار مہینوں میں کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں ہے جب اس کا خیال نا آیا ہو ....... تم بس یوسف انکل سے بات کرو....... "۔ وہ ضدی انداز میں بولا۔
"اور انکل آنٹی ؟؟"۔
"پاپا کو تو پتا ہے ماما کو میں سمجھا لوں گا ویسے بھی وہ خوش ہی ہوں گی اس بات پر !!"۔
"ٹھیک ہے میں بات کروں گا انکل سے اسی ہفتے !!"۔ احمد نے گہری سانس لے کر سیٹ سے پشت لگا لی ۔
دس سال سے یہ راز ان دونوں کے درمیان تھا۔ جس میں بلال صاحب دو سال پہلے شامل ہوئے تھے۔ ان تینوں کے علاوہ اس بات کا کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ احمد ہادیہ کے عشق میں بری طرح گرفتار ہے !!
وہ تینوں بچپن کے ساتھی تھے ایک دوسرے کے گھر جانا , سب کے ساتھ مل کر کھیلنا , ہادیہ بھی ہر گیم میں ان کے ساتھ ہوتی تھی .......
احمد کو تو وہ شروع سے ہی اچھی لگتی تھی وہ ہر بار اس کے لیے چاکلیٹ لے کر جاتا تھا۔ مرسلین جب بھی اسے مارتا یا کھیلنے نہیں دیتا تھا وہ سب سے پہلے احمد کے پاس جاتی تھی , اس کے رونے پر تو احمد کی جان جاتی تھی , پھر وہ دونوں مل کر مرسلین سے جھگڑتے تھے , اور اپنے ساتھ زائر کو بھی ملا لیتے تھے ۔ پھر تو وہ جھگڑا ہوتا کہ اللّٰہ کی پناہ !!
ہادیہ کا احمد بھائی کا نعرہ مرسلین کی جان جلا دیتا تھا , کیونکہ احمد کے کہنے پر اسے ہادیہ سے معافی مانگنی پڑتی تھی۔
شعور کی منزلیں طے کرنے کے بعد ہادیہ ان سے باتیں تو ضرور کرتی تھی مگر ملکی حالات پر ........
احمد کو آج بھی وہ دن یاد تھا جب مرسلین نے اپنی پسند کی لڑکی کا نام بتایا تھا ایک لمحے کے لیے تو جیسے وہ پاگل سا ہو گیا تھا زائر نے چونک کر اسے دیکھا اسے احمد نے کچھ دن پہلے ہی بتایا تھا, مرسلین کا خوشی سے دمکتا چہرہ دیکھ کر وہ چپ رہا تھا۔ مگر اس کے بعد وہ ہادیہ سے ایک یا دو بار ملا تھا وہ بھی اس کے سلام کا جواب دیا تھا ,
پھر تو جیسے اس نے ہادیہ کا نام بھی خود پر حرام کر لیا تھا ۔ مرسلین کی خوشی کے لیے اس کی شادی کا سارا کام اس نے اور زائر نے ہی کیا تھا ۔ ہادیہ کے سٹیج پر آنے کے بعد اس نے ایک نظر بھی اسے نہیں دیکھا تھا وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا رہا تھا۔
مرسلین کی موت نے تو جیسے ہر کسی کی زندگی میں اندھیرا کر دیا تھا ہادیہ کی حالت تو سب سے بری تھی , وہاں عورتوں کے منہ سے یہ سن کر کہ , ابھی اس بچی کی عمر ہی کیا تھی تین مہینے میں بیوہ ہو گئی, کیسے گزرے گی اتنی لمبی زندگی .......... ان ہی باتوں نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کیا تھا اور اس نے فیصلہ بھی کر لیا تھا ..........
زائر کے اس کیس کو فالو کرنے کا فیصلہ سن کر اس نے سوچا تھا جس دن مرسلین کا قاتل پکڑا گیا وہ اسی دن رشتے کی بات کرے گا اور بالآخر وہ دن بھی آ گیا تھا ۔
وہ نہیں جانتا تھا ہادیہ کا کیا ریکشن ہو گا مگر اس نے یہ رسک لیا تھا آگے خدا بہتر کرنے والا ہے !!
**********
مریم ٹی وی دیکھ رہی تھی جب زائر کمرے میں داخل ہوا۔
"اسلام علیکم !!"۔
"وعلیکم اسلام !!"۔مریم نے ٹی وی پر نظریں جمائے ہی جواب دیا۔ زائر چینج کر کے اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
"شاپنگ پر چلو گی ؟؟"۔ مریم نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر گھڑی کو جو دس بجا رہی تھی۔
"اس وقت ؟؟"۔
"ہاں کیوں اس وقت شاپنگ نہیں ہو سکتی ؟؟"۔
"مگر کیوں اور آج شاپنگ کروانے کا خیال کہاں سے آ گیا ؟؟"۔
"شاباش !! جب شاپنگ نا کرواؤ تو پروبلم اور اگر کرواؤ تو بھی پروبلم حد ہے یار "۔ وہ جل کر بولا.
مریم کھلکھلا کر ہنس دی ۔
"ویسے ہی پوچھ لیا تھا ,ایسی مہربانیاں آپ نے کبھی کی نہیں نا تو اس لیے حیرت ہو رہی تھی مجھے "۔
"اب چلیے میڈیم "۔
"چلیں جناب "۔ وہ ہنستے ہوئے باہر نکلی.
"یہ چوری چھپے کہاں جایا جا رہا ہے ؟؟"۔ عمر کے اچانک بولنے پر مریم ڈر کر پیچھے ہٹی ۔ عمر کمر پر دونوں ہاتھ رکھے پوچھ رہا تھا۔
"تم بدروحوں کی طرح ادھر اُدھر گھومتے رہا کرو اور کوئی کام نہیں تمہیں ؟؟ چلو بھاگو اپنے کمرے میں !!"۔
"سچ کہتے ہیں لوگ بیوی جب گھر آتی ہے تو بھائی بدل جاتے ہیں , آج دیکھ بھی لیا کیا زمانہ آ گیا ہے "۔ وہ نادیدہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔ مریم ایک دھپ اس کے کندھے پر ماری۔
"ڈرامے باز , مارکیٹ جا رہے ہیں ہم چلو گے ؟؟"۔
"نہیں میں اب تو بلکل بھی نہیں جاؤں گا ہونہہ , پہلے نہیں کہا اور اب دیکھو کیسے آفر کر رہی ہیں "۔
"مریم میں گاڑی میں ہوں جلدی آؤ " زائر عمر کو گھورتے ہوئے باہر نکل گیا۔
"میرے لیے بھی کچھ لے آیئے گا "۔ عمر نے پیچھے سے ہانک لگائی۔
"اوکے "۔ وہ ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی زائر کا منہ پھولا دیکھ کر اسے اور ہنسی آئی۔
"بڑی ہنسی آئی آ رہی تمہیں "۔
"ہاں تو میں اپنے بھائی کی باتوں پر ہنس رہی ہوں "۔ زائر نے نفی میں ہر ہلایا۔
**********
بلال اور صدف خاموشی سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہے تھے ۔ صدف کی آنکھوں میں حیرت صاف نظر آ رہی تھی ۔
"مگر بیٹا ".
"ماما پلیز میری خوشی کی خاطر , میں دل سے اس رشتے پر راضی ہوں پلیز ماما مجھے ہادیہ سے شادی کرنی ہے "۔
"صدف نے اپنے جوان بیٹے کو دیکھا ۔ اور پھر اپنے شوہر کو جو خاموشی سے دونوں ماں بیٹے کو سن رہے تھے۔
آپ بھی تو کچھ کہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہادیہ بہت اچھی لڑکی ہے مجھے بھی وہ بہت پسند ہے مگر تم کیسے ؟؟"۔
"میں کیا بولوں مجھے تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی , اور جب وہ خود اس رشتے پر راضی ہے تو میرا خیال ہے ہمیں اس کے جذبات کے خیال رکھنا چاہیئے "۔ وہ سنجیدگی سے بولے۔
صدف نے پریشانی سے اپنے بیٹے کو دیکھا ۔
"مرسلین کو لے کر تم اس کی فیلینگز سے آگاہ ہو اس حال میں تم کیسے گزارہ کرو گے "۔
"ماما آپ کا بیٹا اتنا کم ظرف نہیں ہے , میں سب جانتا ہوں آپ فکر مت کریں بس آپ رشتہ لے کر جائیں "۔
"ٹھیک ہے بیٹا میں بات کرو گی سارا سے "۔
"تھینک یو سو مچ ماما "۔ صدف نے مسکرا کر اسے دیکھا مگر ان کی پرسوچ نظریں ابھی بھی اس پر جمی تھی۔