وہ تین لڑکوں کا گروپ تھا جو رات کے دس بجے اپنی بائیک پہ کراچی کی سڑکوں کو ناپ رہے تھے. ہنستے , مسکراتے چہرے , بےفکری جن کے چہروں سے عیاں تھی. وہ تینوں بی ایس سی کے سٹوڈنٹ تھے . موڑ مڑتے ہی اچانک گاڑی سامنے آ گئی بائیک گاڑی سے ٹکرائی وہ تینوں سڑک پر گرے. وہ تینوں ابھی سڑک سے اٹھے بھی نہیں تھے جب گاڑی کا دروازہ کھول کر ولید باہر نکلا.
ماتھے پہ بل ڈالے مٹھیاں بینچے وہ ان تینوں کے سر پہ کھڑا چیخ رہا تھا.
"اندھوں , (گالی) , تم لوگوں کو نظر نہیں آتا سامنے گاڑی کھڑی ہے . تم لوگوں کی ہمت کیسے ہوئی گاڑی سے ٹکرانے کی".. اس نے ایک کو کالر سے پکڑ کر اس کے چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا.
"تمہارے باپ کی سڑک ہے جو یوں اندھوں کی طرح استعمال کر رہے ہو ".اس نے اسے جھٹکا دیتے ہوئے پوچھا.
"ہمارے باپ کی نہیں ہے تو تمہارے باپ کی بھی نہیں ہے سڑک جو تم نے بیچ راہ میں کھڑی کی ہوئی ہے انسانوں کی طرح سائیڈ پر بھی پارک ہو سکتی ہے گاڑی......". ان میں دوسرا لڑکا بولا.
اس کی بات نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا.
ولید اپنے گارڈز کو اشارہ کرتے ہوئے ان تینوں پر پل پڑا تھا. ہٹے کٹے پانچ گارڈز نے پانچ منٹ میں ہی ان تینوں کو ادھموا کر دیا تھا ولید سینے پر بازو لپیٹے گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا.
"سر یہ مر جائیں گے تینوں......". کچھ دیر بعد ایک گارڈ پھولی سانسوں کے درمیان بولا.
"تو مر جانے دو . مجھے یہ زندہ نظر نہیں آنے چاہیئے ".وہ سفاکی سے بولا اور پلٹ کر گاڑی میں سے گن نکال لی.وہ پانچوں سانس روکے اسے دیکھ رہے تھے. اس نے نشانہ اس پر باندھا جس نے اس سے بات کی تھی.
"مجھ سے بکواس کرنے والے کو میں کبھی معاف نہیں کرتا ". اس نے ٹریگر دبا دیا اس کے ساتھی پھٹی آنکھوں سے اپنے دوست کو خون میں لت پت دیکھ رہے تھے.
"ان دونوں کا بھی بندوبست کرو ". اپنے گارڈز کو اشارہ کر کے اس نے ایک ہاتھ سے اپنی شرٹ پر سے نادیدہ خاک جھاڑی اور پلٹ کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی تیز رفتار سے بھاگا کر لے گیا.
ان تینوں کی لاشیں لاوارث وہاں پڑی تھی. اس کے گارڈز اپنا کام کرنے کے بعد اپنے مالک کے پیچھے چلے گئے.
دو دن بعد ہی یہ خبر میڈیا پر آ گئی تھی اور اسی دن اس خبر کو دبا دیا گیا تھا. اس خبر کو دبانے میں سب سے زیادہ ہاتھ سلیمان کا تھا . اور آج پانچ مہینے بعد مرسلین حیدر نے پھر سے دبی راکھ میں سے چنگاری نکال لی تھی .
ہادی آیا تھا اور وہ ولید کو اپنے فارم ہاؤس پر لے گیا رات کے دو بجے وہ فارم ہاؤس پہنچے تھے. ہادی اسے آرام کا مشورہ دے کر اپنے کمرے میں آ گیا .سلیمان اور شاہ زیب کو اپنے پہنچنے کا بتا کر وہ اب اگلا لائحہ عمل طے کر رہا تھا .
**********
مرسلین حیدر کی خبر اور اُن لڑکوں کے ماں باپ کی دہائیوں سے پورے ملک میں کھلبلی سی مچ گئی تھی.ہر طرف سے قاتل کو پکڑنے اور اُسے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا. سلیمان اور شاہ زیب نے اپنے سورسز سے یہ بات دبانے کی کوشش کی تھی اس معاملے پر میڈیا سب سے زیادہ آگے تھا. مرسلین حیدر کو پیسوں سے دھمکیوں سے چپ کروانے کا کوشش کی تھی مگر وہ بھی مرسلین حیدر تھا اپنے اصولوں کا پکا........
آج پانچ دن ہو گئے تھے ولید کو روپوش ہوئے ..... کیس عدالت میں زیر سماعت تھا ولید کا وکیل روزانہ ہی کوئی نا کوئی بہانہ بنا دیتا تھا.
"بابا سائیں یہ تماشہ کیوں نہیں ختم ہو رہا ؟؟؟ میں پانچ دنوں سے فارم ہاؤس میں بند ہوں کہاں گئے آپ کے سیاسی دوست ؟؟؟ یہ ڈرامہ اب ختم ہو جانا چاہیئے ۔ وہ لڑکا ایک معمولی سا صحافی اُس نے ہمارے خاندان کو چیلنج کیا ہے بابا "۔ وہ غصے سے ٹہلتے ہوئے بول رہا تھا۔
"تو کیا کرو میں اب اسے سیدھی گولیاں ماروں یا خود ہی پھانسی کے تختے پر چڑھ جاؤں ۔۔۔۔۔۔ وہ بھر پور طنز سے بولا۔
"میں نے نہیں کہا تھا تمہیں کہ اپنی طاقت دیکھاؤ ۔۔۔۔ کتنا بچاؤں تمہیں اور کب کب ۔۔۔۔۔ اور یہ ڈرامہ بھی تمہارا ہی پیدا کردا ہے ۔۔۔۔۔ وہ صحافی تو ہمارے گلے کی ہڈی ہی بن چکا ہے جسے نا اگلا جا سکتا ہے نا نگلا۔۔۔۔۔".
"اب میں خود ہی کر لوں گا کچھ نا کچھ آپ تو کر چکے جو کرنا تھا ".
"بکواس بند کرو بھائی صاحب نے منع کیا تھا کہ کچھ نہیں کرنا تم نے اور کوئی قیامت نہیں آ جائے گی فارم ہاؤس پر وہاں رہو اور ہمیں کرنے دو جو بھی کرنا ہے ". وہ غصے سے بولا.
"میں اب اور نہیں رہ سکتا یہاں ۔۔۔۔".
"تو بیٹا پولیس سٹیشن چلے جاؤ تمہاری ضرورت ہے سب کو وہاں "۔ وہ طنز سے گویا ہوا ۔
ولید نے اُس کی بات پر سر جھٹکا۔
"میں کام سے اسلام آباد جا رہا ہوں میرے پیچھے کچھ بھی ایسا ویسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے جس سے ہمارے خاندان کی اور بدنامی ہو"۔
ولید خاموش رہا شاہ زیب نے فون بند کر دیا۔ ولید کا اپنے باپ کی بات ماننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
**********
مریم کو تیز بخار نے آ لیا تھا وہ نڈھال سی بستر پر پڑی تھی ۔ وہ روزانہ آذان نے وقت ہی اٹھ جاتی تھی مگر آج آٹھ بج گئے تھے اور وہ بستر پر ہی لیٹی ہوئی تھی۔ زائر نے حیرت بھری ایک نظر اُس پر ڈالی جو آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی ہوئی تھی۔ وہ کندھے اچکا کر دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ بےاختیار آنسو مریم کی آنکھوں سے بہنا شروع ہو گئے۔اُس کی سسکیاں سن کر بالوں میں برش کرتا ہاتھ اُس کا ٹھٹھک گیا وہ بےاختیار بیڈ تک آیا۔
ناراضگی اپنی جگہ مگر وہ اُسے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔
مریم ۔۔۔۔۔ زائر نے اُس کا بازو پکڑا جیسے سلگتا ہوا انگارہ اُس کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔
"تمہیں اتنا بخار ہے اور تب سے خاموش لیٹی ہو بتا نہیں سکتی تھی حد ہے اتنی لاپرواہی۔۔۔۔۔ کچھ کھایا ہے کہ نہیں بلکہ اٹھو میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہوں ۔۔۔۔۔"۔ زائر نے اس کا پکڑ کر اسے اٹھایا۔
مریم نے ایک نظر اُس کے چہرے پر ڈالی اور اپنا ہاتھ چھڑوا لیا۔
زائر نے ٹھٹھک کر اپنے خالی ہاتھ کو دیکھا۔
وہ خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ زائر نے گہری سانس لی اور اسے دیکھا۔
"پہلے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں تمہاری طبعیت خراب ہے اُس کے بعد تم ناراض ہو جانا اور میں منا بھی لوں گا میں گھر پر ہی ہوں میڈیم ۔۔۔۔۔ تمہارے اندر ابھی اتنی طاقت نہیں ہو گی لڑنے کی اس لیے بہتر ہے پہلے میڈیسن لے آتے ہیں "۔ زائر کی بات سن کر بھی وہ خاموش رہی ہاں آنسو اس کے پھر سے شروع ہو گئے تھے۔
"یااللّٰہ کہاں سے آتے ہیں اتنے آنسو تمہاری آنکھوں میں ۔۔۔۔
کتنا روتی ہو تم مریم ۔۔۔۔ اس کے آنسو زور و شور سے بہہ رہے تھے ۔
"اچھا سوری یار اٹھو ورنہ امی کو بلاتا ہوں میں اور پتا ہے نا ان کا "۔
مریم نے ایک خونخوار نظر اس پر ڈالی اور ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
زائر شکر ادا کرتا گاڑی کی چابی انگلیوں میں گھماتا باہر نکلا تھا۔
فاطمہ نیچے کھڑی تھی مریم کو دیکھ کر وہ تیزی سے اس تک آئی تھی ۔
ارے بچی کیا ہوا تمہیں ؟؟؟ کیسے پیلی پڑ رہی ہے اور آنکھیں دیکھو کیسے لال ہو رہی ہیں ۔۔۔۔ فاطمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔۔
"دیکھو کیسے جل رہی ہے بچی اور تم تب سے کیا کر رہے تھے ؟؟؟ ابھی تو نہیں بخار ہوا ہو گا ؟؟؟ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی زائر ؟؟؟"۔ انہوں نے زائر کو آڑے ہاتھوں لیا وہ بکھلا کر فاطمہ کو دیکھ رہا تھا اور مریم کو جو پھوپھو کی ہمدردی پا کر ایک بار پھر سے رونا شروع کر چکی تھی۔ فاطمہ نے پیار سے اسے گلے لگایا اور زائر کو گھورا۔
"میں ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہا ہوں امی ۔۔۔۔"۔ اس نے بکھلا کر کہا اور باہر نکل گیا۔ فاطمہ اسے تھامے گاڑی تک لائی۔
ہسپتال سے واپسی پر وہ سیٹ سے سر ٹیکائے باہر کے بھاگتے ڈورتے مناظر پر نظر جمائے بیٹھی تھی۔ زائر نے ایک نظر اسے دیکھا اور گاڑی ریستورانت کے آگے روک دی۔ مریم نے ناگواری سے دیکھا مگر بولی کچھ نہیں ۔
زائر نیچے اترا اور مریم کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے اتارا مریم نے کوئی مظاہمت نہیں کی۔
"یہ تمہارے لیے منگوایا ہے کھاؤ رات سے بھوکی ہو "۔ مریم نے ایک سنجیدہ نظر اس پر ڈالی۔
"ٹھیک ہے مجھے غصہ تھا کسی بات کا جو تم پر اترا تھا ۔۔۔۔ اس لیے سوری !!"۔ مریم خاموشی سے ناشتہ کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی۔
"عجیب دھوپ چھاؤں جیسا شخص ہے کبھی اتنا غصہ اور کبھی اتنی توجہ !!!!!"۔
"شاپنگ پر چلو گی ؟؟؟؟"۔
"میں ان بیویوں میں سے نہیں ہوں جو شاپنگ سے راضی ہو جاتی ہیں "۔ وہ سنجیدگی سے بولی۔
"تو کیا چاہیے مسز کو ؟؟" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
"میں امی کی طرف جاؤں گی اور دو ہفتے کے لیے ...... نا نا کچھ نہیں سننا مجھے ......" وہ انگلی اٹھا کر بولی۔
"دیکھو مریم ۔۔۔۔۔"۔
"ڈھائی ہفتے اور آپ کے آرگیو کے ساتھ میرا قیام بڑھتا جائے گا "۔
"اس سے اچھا ہم ناراض ہی اچھے تھے کم از کم شکل تو نظر آتی تھی تمہاری !!!"۔ وہ جل کر بولا ۔
مریم مسکراہٹ دبائے چائے پینے لگ گئی ۔۔۔
**********
"دو ہفتے ہو گئے ہیں اس بات کو ولید نا پکڑا گیا ہے اور نا ہی وہ پکڑا جائے گا تم جانتے ہو اُس کی فیمیلی کو ....... اُس کے باپ کے مجھے تین فون آ چکے ہیں کہ تمہیں سمجھاؤں کہ ثبوت پیش نا کرو تم ...... اور اس کے لیے وہ بڑی سے بڑی ڈیل کرنے کو تیار ہے "۔ احمد مرسلین کے آفس میں بیٹھا اسے بتا رہا تھا۔
"تم نے اس کا فون سنا ہی کیوں ؟؟؟ اور یہ تو اس کی غلط فہمی ہے کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں گا اب اس کے بیٹے کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لوں گا چاہے کچھ ہو جائے "۔
احمد نے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ مرسلین وہاں سے اٹھ کر سیدھا گھر آیا تھا۔ ہادیہ کمرے کی صفائی کر رہی تھی جب مرسلین نے کمرے میں داخل ہوا۔
"خیریت آج اتنی جلدی گھر آ گئے ہو "۔ ہادیہ کو دیکھ کر اس کے تنے اعصاب پر سکون ہوئے۔
"میں نے سوچا تم کتنا یاد کر رہی ہو گی مجھے تو گھر چلا ہی جاتا ہوں ....... نئی نویلی بیوی ہو , نخریلی بھی ہو اگر ناراض ہو گئی تو میں کیا کروں گا ....... بس ہزاروں کام چھوڑ کر آ گیا"۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
ہادیہ نے ایک تیکھی نظر اس پر ڈالی اور سر جھٹکا۔
"مرسلین تم ہو ہی کام چور , بہانے باز میں بچپن سے جانتی ہوں تمہیں ....... اور میں کیوں یاد کروں گی تمہیں ہونہہ !!! اس احسان کی ضرورت نہیں تھی تم ہزاروں کام نپٹا ہی لیتے !!"۔ اس کی بات پر زائر ہنس دیا۔ یہ ان کی روز مرہ کی نوک جھوک تھی جو چار پانچ دفعہ ان کے درمیان ضرور ہوتی تھی ۔
"اچھا بتاؤ کہاں جانا پسند کرو گی مجھے چھٹیاں مل رہی ہیں تو سوچا گھوم آتے ہیں "۔ مرسلین کی بات پر ہادیہ پرجوش سی اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"مرسلین مجھے نا کے ٹو دیکھنی ہے تمہیں پتا ہے نا,مجھے کتنا شوق ہے ....... اف کیسا منظر ہو گا جب میں کےٹو کا پہاڑ دیکھو گی ....... تمہیں یاد ہے نا تم نے وعدہ کیا تھا جب میرا ٹور جا رہا تھا یونی کا تم نے ابو سے کہہ کر مجھے نہیں جانے دیا تھا تم نے بعد میں کہا تھا میں خود لے کر جاؤں گا یاد ہے نا ؟؟؟"۔ ہادیہ نے اس کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا جو عجیب و غریب تاثرات چہرے پر سجائے اسے دیکھ رہا تھا۔
"دیکھو اب اپنی بات سے انکار مت کرنا کیونکہ میں کہیں نہیں جاؤں گی اس مے علاوہ!!!"۔
"تم پاگل ہو گئی ہو ہادیہ اور کوئی بات نہیں اٹھو اور چائے لاؤ میرے لیے ہم کہیں نہیں جا رہے "۔ وہ جل کر بولا۔
"تم انکار کر دہے ہو ؟؟؟"۔ وہ بس رونے کے لیے تیار تھی۔
کوئی ذی ہوش انسان اس بات کا اقرار نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ ہادیہ تم پاگل ہو گئی ہو مجھے آنسو سے بلیک میل مت کرو ۔۔۔۔۔ وہ جھنجھلایا۔
"اچھا ٹھیک ہے سوچیں گے اس پر ابھی تو مجھے یہ بھی نہیں کہ مجھے چھٹئاں ملے گی یا نہیں "۔ہادیہ نے مسکراتے ہوئے آنسو پونچھے ۔
"تم بہت اچھے ہو مرسلین !!"۔
"شکریہ خاتون "۔
"میں چائے لاتی ہوں "۔ وہ مسکراتے ہوئے باہر نکل گئی۔ مرسلین اپنے موبائل پر آنے والے فون کی طرف متوجہ ہو گیا۔
**********
عمیر کو گرفتار کر لیا گیا تھا اصغر خان پر یہ خبر بجلی بن کر گری تھی بارہ گھنٹے ہو گئے تھے اس خبر کو اور اسے اب پتا چل رہا تھا ۔ وہ موسیٰ پر برس رہا تھا۔
"تمہیں کس لیے بھیجا تھا میں نے اس کی حفاظت کے لیے اور تم...... موسیٰ اگر میرا بیٹا باہر نا آیا تو میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں "۔
"سر مجھے سر نے آؤٹ آف سٹی بھیجا تھا اپنے کام کے سلسلے میں اور مجھے تو خود ابھی پتا چلا ہے میں نے فوراً آپ کو بتایا ہے ...... میں ایس ایچ او کے کمرے میں ہوں مگر وہ یہاں موجود نہیں ہے سر ان کی بیل ہو جائے گی ڈونٹ وری !!"۔
"تم کسی کام کے نہیں ہو آج سے فارغ ہو تم اس جاب سے "۔ موسیٰ نے گہری سانس لی ۔ یہ بات وہ ہزاروں بار سن چکا تھا۔
اصغر خان نے بہت سے لوگوں سے مدد مانگی مگر کوئی بھی عمیر کو رہائی نہیں دلا سکا تھا۔
وہ بھی اپنے باپ کے کارناموں میں برابر کا شریک تھا۔ جیل میں وہ غصے سے سب پر برس رہا تھا مگر کسی نے بھی اس کی بات پر کان نہیں دھرے۔ اس نے غصے سے جیل کی سلاخوں پر مکا مارا۔
"پاپا جلد ہی نکال لیں گے مجھے یہاں سے آئی نو ...... پھر میں ان سب کو دیکھ لوں گا "۔ وہ بےبسی سے جیل کی سلاخوں کو پکڑتے ہوئے بڑ بڑایا۔
**********
مرسلین نے دو دن بعد کورٹ میں ثبوت پیش کرنے تھے آج بھی اس کے پروگرام کا موضوع یہی تھا۔ وہ پروگرام کے بعد بھی دیر تک وہاں بیٹھا یہی ڈسکس کر رہا تھا۔ ایک بجے وہ آفس سے گھر کے لیے نکلا ۔ اس بات سے بےخبر کے ایک گاڑی اس کا پیچھا کر رہی تھی۔
کچھ دور جا کر اچانک اس کی گاڑی پر فائرنگ شروع گئی ۔ مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی مرسلین کے کندھے پر گولی لگی یکدم گاڑی رک گئی تھی۔ دوسری گاڑی رکے بغیر اس پر فائرنگ کرتی رہی مرسلین کا سر سٹیرنگ پر تھا۔ کچھ دیر بعد خاموشی چھا گئی ۔
چاروں طرف .......
موت کی سی خاموشی .......
احمد اور زائر ہسپتال کے ٹھنڈے کوریڈور میں کھڑے تھے۔ حیدر اور یوسف صاحب بھی پہنچ چکے تھے۔ گھر میں ابھی تک اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ یوسف صاحب کا خیال تھا کہ مرسلین ہوش میں آ جائے پھر بتا دیں گے۔
آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا وہ چاروں بےاختیار ڈاکٹر کی طرف بڑھے۔
مرسلین کیسا ہے اب ؟؟؟ وہ......!! ڈاکٹر نے زائر کی بات کاٹ دی۔
"آئی ایم سوری ہی از نو مور......."۔ یوسف صاحب بےاختیار لڑکھڑائے احمد نے انہیں سہارا دیا۔ زائر نے بےیقینی سے ڈاکٹر کو دیکھا اور پھر سٹریچر پر ساکت پڑے وجود کو ............
اس کا دل چاہا وہ کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر اس سے لپٹ کر ڈھاڑیں مار مار کر روئے .........
اس امید پر کہ شاید وہ جاگ جائے ..........
وہ کیسے دھوکا دے سکتا ہے ہمیں ؟؟؟
کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہے ہمیں ؟؟؟؟
وہ جو زندگی سے بھر پور وجود تھا , ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر خوش ہونے والا, شرارت سے بھر پور چمکتی آنکھیں ........... زائر کے ہاتھ کانپ رہے تھے اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس سفید چادر کو ہٹا کر اس کا چہرہ دیکھ لیتا.........
دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے اور مرسلین کی سفید چادر میں گم گئے........
اس کے سٹریچر ایک طرف زائر سر جھکائے زمین پر بیٹھا تھا اور دوسری طرف احمد ............
حیدر اور یوسف صاحب پاس کھڑے تھے۔
کتنی آسانی سے دھوکا دے دیا ہے اس نے ہمیں ......... احمد سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
کہتا تھا کبھی میں تم دونوں کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا....... زائر زکام زدہ آواز میں بولا۔
حیدر صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
حیدر صاحب نے زائر کو اٹھایا اور پھر احمد کو........
زائر نے بمشکل خود پر کنٹرول کیا کانپتے ہاتھوں سے اس نے چادر ہٹائی اور آخری بوسا اس کے ماتھے پر دیا دو آنسو ٹوٹ کر مرسلین کے چہرے پر گرے ۔ یوسف صاحب زائر نے گلے لگ کر سسک پڑے حیدر نے بمشکل اپنے آنسو روکے ہوئے تھے۔
ان کا جوان بیٹا , ان کے بڑھاپے کا سہارا چلا گیا تھا کوئی ان کا غم نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ہنستا مسکراتا چہرہ لمحوں میں ساکت ہو گیا تھا۔ وہ چاروں ایک دوسرے کو تسلی دے رہے تھے۔
**********
پہلے میرے گھر کے اندر قتل کریں مجھ کو
اور پھر میرا سوگ منائیں نامعلوم افراد
سب گھر والے جاگ رہے تھے جب گیٹ کھلنے کی آواز سنی .......
صبح کے سات بج رہے تھے ۔ پہلے گاڑی گیٹ سے اندر آئی جس میں وہ چاروں تھے فہد سب سے پہلے ان تک آیا وہ کچھ پوچھنے ہی لگا تھا جب پیچھے سے آتی ایمبولینس نے اس کے سارے سوالوں کے جواب دے دیے تھے اس نے بےیقینی سے ان چاروں کو دیکھا۔
یوسف اور حیدر صاحب اسے پہلے سے بوڑھے دکھے تھے ۔ احمد اور زائر اپنا درد بھلائے اس کے تابوت کو نیچے اتار رہے تھے۔ میڈیا کو بھی خبر ہو گئی تھی وہ بھی مرسلین کے گھر کے باہر پہنچ چکے تھے۔ صحافتی تنظیموں , سیاسی رہنماؤں , اور بہت سے لوگوں کی جانب سے اس کے قتل کی مذمت کی جا رہی تھی۔ گھر کی ساری خواتین ایمبولینس کی آواز پر باہر نکل آئی تھی اتنی جوان موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ گھر کی عورتیں دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی آہستہ آہستہ سارے رشتہ دار جمع ہو رہے تھے۔ احمد سب پر نظر ڈورائی اور وہ اسے سامنے کھڑی نظر آئی عجیب سے تاثرات چہرے پر سجے ہوئے تھے........
احمد نے مریم کو اس طرف اشارہ کر کے اس کا بتایا سارا بھی خاموشی سے بہتے آنسو کے ساتھ مرسلین کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی مریم کے کہنے پر انہوں نے ایک نظر پتھرائی ہادیہ پر ڈالی ان کی سسکیاں بلند ہونے لگی تھی ۔
انہوں نے جا کر ہادیہ کو گلے لگایا روتے ہوئے وہ کچھ کہہ رہی جو ہادیہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ حیرت سے ان سب کو دیکھ رہی تھی ۔ سارا اس کا ہاتھ پکڑے اسے مرسلین کے پاس لائی اس کا سکتہ پھر بھی نہیں ٹوٹا وہ خاموشی سے ٹکر ٹکر سب کو دیکھ رہی تھی ......
کئی عورتوں کے رونے کی چیخنے کی آوازیں اس کے کان میں پڑ رہی تھی مگر وہ خاموشی سے مرسلین پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
زارا نے اسے گلے سے لگایا سب عورتیں اسے رونے کا کہہ رہی تھیں مگر وہ تو جیسے ہر طرف سے بہری ہو گئی تھی اگر کچھ دیکھائی دے رہا تھا تو صرف مرسلین کا وجود تھا اگر کچھ سنائی دے رہا تھا تو صرف مرسلین کی باتیں ...........
وہ اس کے علاوہ کچھ سننا بھی نہیں چاہتی تھی........
مرسلین کے تابوت پر دونوں ہاتھ رہتے رکھے اور ہاتھوں پر چہرہ ٹیکائے وہ یک ٹک اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی........
یکا یک اس کی آنکھیں پانی سے بھر گئی اسے آنکھوں کا پانی بہت برا لگا تھا کیونکہ اس سے مرسلین کا چہرے دھندلا پڑ رہا تھا اس نے ایک ہاتھ اپنے آنسو پونچھے اور پھر سے سابقہ پوزیشن پر بیٹھ گئی۔
وہ سسکیاں بھرتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی .......
سارا نے روتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا وہ ان کے گلے لگے سسکیاں بھر رہی تھی ۔
اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گر رہے تھے۔۔
"اسلام علیکم بابا سائیں !!"۔ اس کی چہکتی آواز پر شاہ زیب ملک ٹھٹھک گیا۔
"واسلام !! خیریت ہے ؟؟"۔
"بلکل بس گلے ہی ہڈی کو باہر نکال دیا ہے جو آپ سے تو نا ہو سکا تھا مگر میں نے کر دکھایا...... کہیے کیسا لگ رہا ہے .......... مجھے لگتا ہے شاید آپ نے نیوز نہیں سنی؟؟؟؟"۔
غلام علی !! انہوں نے اپنے ملازم کو آواز دی۔
"ٹی وی لگاؤ ........ سامنے ہی یہ بریکنگ نیوز آ رہی تھی ........ ملک کے معروف اینکر قاتلانہ حملے میں قتل ہو گئے ........"۔ شاہ زیب ملک نے ٹھٹھک کر اس خبر کو سنا ........
اس کے چہرے کے تاثرات عجیب و غریب تھے ۔ اس کی لمبی ہوتی خاموشی پر ولید کھنکارا۔
"بابا سائیں !! آپ کو بھی خوشی ہوئی ہے نا ؟؟؟ میں جانتا تھا آپ .........."۔
مغلظات کا ایک طوفان تھا جو ملک شاہ زیب کے منہ سے نکلا تھا ۔ ولید سرخ چہرے کے ساتھ سن رہا تھا ۔
"بابا....."۔
"بکواس بند کرو میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا اب ......... اب اگر تمہیں پولیس پھانسی بھی چڑھا دے گی نا تو مجھے کوئی دکھ نہیں ہو گا ....... دل تو میرا یہی چاہ رہا ہے کہ تمہارا اڈریس ہی دے دوں پولیس کو بہت اچھی توضع کریں گے تمہاری ..........."۔
"آپ نے کتنی کوشش کی تھی مانا تھا وہ آپ کی بات اب اگر میں نے اسے راستے سے ہٹایا ہے تو آپ......."۔
"میں کر رہا تھا نا بات اس سے , اور تمہیں بھی کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیا تم سمجھتے ہو کوئی نہیں جانتا کہ تم کہاں ہو ؟؟؟؟ یہ تمہاری بہت بڑی غلط فہمی ہے وہ ابھی چاہے تو تمہیں لے جا سکتے ہیں "۔ وہ تلخی سے گویا ہوا۔
"کسی کی اتنی ہمت نہیں ہے ملک ولید کو ہاتھ لگا سکے بابا سائیں !!"۔ وہ تلخی سے بولا۔
"اپنی خوش فہمی کو دور کر لو ملک ولید !! آج اگر بھائی صاحب اور میں ہاتھ اٹھا لیں نا تم پر سے تو چیل کوؤں کو تمہاری لاش بھی نہیں ملے گی۔ بھائی صاحب واشنگٹن میں ہیں خبر تو انہیں مل چکی ہو گی مگر مجبور ہیں کہ وہاں بات نہیں کر سکتے ......... اتنے سال ہو گئے ہیں ہمیں سیاست میں , بہت مخالفت بھی ہوتی ہے ہماری بعض دفعہ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر آج تک ہم دونوں بھائیوں نے کسی کی جان نہیں لی ........ اور تم ........... چار قتل کیسے اتنا بوجھ اٹھاؤ گے ولید ............ شرم آ رہی ہے مجھے تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے ........ جہاں تک ہوا میں تمہاری مدد کروں گا کیونکہ تم میرا خون ہو مگر پولیس نے تمہیں پکڑ لیا تو مجھ سے کوئی امید مت رکھنا !! خدا حافظ "۔ شاہ زیب کے فون بند کرنے کے بعد وہ گہری سوچ میں گم تھا اتنا کہ اسے ہادی کے آنے کا بھی پتا نہیں چلا چونکا وہ تب جب ہادی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"کیا ہوا اینی پروبلم ؟؟"۔ ہادی اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا ۔
"اونہہ!! نتھنگ بابا سائیں کا فون تھا "۔ وہ سگریٹ سلگاتے ہوئے بولا۔
"تم لو گے ؟؟"۔ اس نے سگریٹ کی آفر کی ہادی کے ہاں کہنے پر اسے پکڑا دیا۔
"کیا کہہ رہے تھے انکل ؟؟"۔ وہ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے بولا۔
"وہی لعن طعن , چار قتل کر دئیے اتنا بوجھ کیسے اٹھاؤ گے وٹ ایور!!"۔
ہادی ہلکے سے ہنس دیا۔
"تم اس وجہ سے ٹینس ہو ؟؟"۔ اس نے بغور ولید کا چہرہ پڑھا۔
"وٹ میں اس وجہ سے ٹینس ہوں گا کم اون یار , مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا , جو بھی مرا اپنی وجہ سے مرا ہے میں نے دعوت تھوڑی دی کہ آؤ اور قتل ہو مجھ سے ربش !! مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ لوگ دوسروں کی زندگی میں دخل ہی کیوں دیتے ہیں , اور یہ معمولی سا اینکر دو دن بعد پروف دینا تھے میرے خلاف اونہہ "۔ وہ دھوئیں کے مرغولے اڑاتے ہوئے بولا۔
ہادی نے ہنکارا بھرا۔
"لیکن تم نے غلطی کی ہے اس وقت قتل نہیں کرنا چاہیئے تھا ہر کا شک ہم پر ہی جا رہا ہے "۔
"چھوڑو یار !! اس ملک میں کسی کی جان محفوظ ہے کیا ؟؟ فائرنگ کی زد میں آ کر قتل ہو گیا سمپل !!"۔ وہ مزے سے بولا۔
"آگے کا کیا پلان ہے ؟؟"۔
"سلیمان انکل آ جائیں تو دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے "۔
"ٹھیک ہے تم ریسٹ کرو میں تھانے کا چکر لگا آؤں "۔ ہادی کا اس کا شانہ تھپتھپا کر بولا۔
ہادی کے جانے کے بعد اس کے آنکھوں میں گہری سوچ کا عکس تھا۔
**********
سارے رشتہ دار , دوست ان کے گھر پہنچ گئے تھے ہر آنکھ اشکبار تھی ,
اتنی جوان موت جو سنتا اس کا دل پھٹنے لگتا ..............
حکومتی نمائندے , صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگ........
ان تینوں لڑکوں کی فیملی بھی بہتی آنکھوں سے وہاں موجود تھی ............
ہادیہ اتنی دیر سے ایک ہی پوزیشن پر بیٹھی ہوئی تھی سارا اور زارا اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی , مریم سارا کو تسلی دے رہی تھی فاطمہ خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی ۔
مرسلین کے چہرے پر نظریں جمائے اس کی آنکھوں میں پرانے دن ایک فلم کی طرح چل رہے تھے ۔ اس کی سسکیاں بلند ہو رہی تھی ۔
"تمہیں میرے آنسو برے لگتے تھے نا مرسلین آج دیکھو میرے کتنے آنسو بہہ رہے ہیں اب تو اٹھ جاؤ .......... تم ...... تم تنگ کر رہے ہو نا مجھے .......... میں تم سے کبھی نہیں جھگڑا کرو گی , ہر بات مانو گی تمہاری تمہیں میرا رونا برا لگتا ہے نا میں ....... میں کبھی نہیں رو گی پکا ........." وہ سرگوشی میں بول رہی تھی مگر سننے والا کان لپیٹے پڑا تھا اس کی ایک آواز پر آنے والا اس کی اتنی دہائیوں کے بعد بھی نہیں اٹھ رہا تھا۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔ مریم نے اسے اپنے کندھے سے لگا لیا اس نے بمشکل اپنے آنسو کنٹرول کیے تھے ورنہ دل تو چاہ رہا تھا پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔
"ہادیہ اسے تکلیف ہو رہی ہو گی اسے مت رو تم ........ صبر کرو "۔
اگر اسے میرے رونے سے تکلیف ہو رہی ہوتی تو اب تک وہ اٹھ جاتا .......... دیکھو کیسے آنکھیں بند کر کے پڑا ہے ........ میں نہیں دیکھ سکتی اسے ایسے ........ تم تو بہن ہو نا اس کی تم بولو تمہاری وہ کوئی بات نہیں ٹالتا ......... اسے کہو اٹھ جائے میں برادشت نہیں کرو پاؤں گی مریم ......... ایک بار اٹھ جائے .........."۔ مریم اسے چپ کرواتے کرواتے خود رو دی ۔
"خدا جوان اولاد کا دکھ کسی ماں باپ کو نا دکھائے ...... آمین !!"۔ محلے کی ایک عورت بولی۔
جنازے کے لیے زائر , احمد , یوسف اور حیدر کے ساتھ اور بھی بہت سارے لوگ آئے تھے۔
عورتوں کی چیخیں بلند ہونے لگی تھی سب کو چہرہ آخری دفعہ دکھایا جا رہا تھا۔ ہادیہ روتے روتے مریم کی بانہوں میں ہی بےہوش ہو گئی تھی مریم نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا ۔ مریم نے چیخ کر فاطمہ کو بلایا ایک دو عورتیں بھی بھاگ کر اس طرف آئیں اور اسے ہوش میں لانے لگی ۔
سارے مرد واپس آ چکے تھے اتنے سارے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی گھر خالی خالی لگ رہا تھا۔ سارا کی خشک آنکھیں ہادیہ جمی تھی آہستہ آہستہ ان کی آنکھوں میں پانی بھرنا شروع ہوا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔
"میں کیسے برداشت کرو بھابھی , میرا دل پھٹ رہا ہے ........ مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آیا کہ میرا مرسلین ..........
ایسے لگتا ہے ابھی بھاگ کر آئے اور امی کہتے میرے گلے لگ جائے گا ......... میرا بیٹا ......... " یوسف صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا باقی سب نم آنکھوں سے وہاں کھڑے تھے ۔
"بچی کو دیکھتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے تین مہینے ہوئے ابھی شادی کو ........ خدا غارت کرے اس بدبخت کو جس نے میرا بیٹا چھین لیا مجھ سے .........." ان کی نظریں ہادیہ پر جمی تھی جس کے ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔
زائر اور احمد چلتے ہوے سارا کے پاس آئے وہ دونوں گھٹنوں کے بل ان کے پاس بیٹھ گئے۔
"آپ نے ایک دفعہ کہا تھا نا کہ میرا ایک نہیں تین تین جوان بیٹے ہیں , میرے بڑھاپے کا سہارا تین بہوؤیں , اس گھر میں کبھی ہمیں یہ نہیں لگا کہ ہم اپنے گھر میں نہیں ہیں ......... ایک بیٹا چلا گیا تو کیا ہوا ........ " زائر نے زکام زدہ سانس اندر کو کھینچی اس کی آنکھیں سرخ پڑ رہی تھی ۔
"آپ کے دو بیٹے آپ کے پاس ہیں ہر وقت , ہر دم , مرسلین کی کمی کو تو پورا نہیں کر سکتے مگر ........" احمد کے گلے میں آنسوؤں کا گولہ پھنسا ......
سارا نے دونوں کو گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔
"ہاں میرے دو بیٹے میرے پاس ہیں میں اب کہیں نہیں جانے دوں گی تم لوگوں کو .......... مرسلین چلا گیا تو کیا ہوا میرے دو جوان بیٹے ہیں میرے پاس .......... میرے بچے !!"۔
"او مرسلین کیسے گزرے گی یہ زندگی تمہارے بغیر ........ کتنے لوگوں کو زندہ درگور کر گئے ہو تم !!"۔ احمد نے سوچا۔
ہادیہ کی کراہ پر وہ سب اس کی طرف متوجہ ہوئے احمد اور زائر کمرے سے باہر نکل گئے ۔
"مرسلین !!"۔ ہادیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"صبر کرو بیٹی جس جان نے دنیا میں آنا ہے اس نے جانا بھی ہے ....... اللّٰہ کی امانت تھی اس نے واپس لے لی اس طرح رو کر اسے تکلیف مت پہنچاؤ , اس کے لیے دعا کرو بیٹا "۔ فاطمہ نے پیار سے اس کے بال سہلائے۔ .وہ خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی ۔
**********
وہ دونوں لان میں چہل قدمی کر رہے تھے ۔ خاموشی ان کے درمیان رقص کر رہی تھی ,
"آج چار دن ہو گئے اسے گئے ہوئے ....... کتنا عجیب لگ رہا ہے سب کچھ , خالی خالی سا , ہر طرف جیسے وحشت ہی وحشت ہے ........... دل کر رہا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جاؤں کہیں , جہاں مجھے کچھ یاد نا آئے نا وہ نا اس کی باتیں , نا اس کی یادیں , "۔ زائر بےبسی سے بولا۔
"ہمت کرو یار یہی دستور ہے دنیا کا ........ کس نے سوچا تھا کہ وہ زندگی سے بھرپور انسان اس طرح چلا جائے گا ......
یہی تو زندگی کی تلخ حقیقتیں ہیں , سہنا بھی پڑتا ہے اور زندگی بھی گزارنی ہے ........ ہم دوست ہیں ہمارا یہ حال ہے اس کے ماں ,باپ کا سوچو اور سب سے بڑھ کر ......... ہادیہ کا سوچو کیسے رہ رہے ہوں گے وہ جنہوں نے ایک ایک پل اس کے ساتھ گزارا ہے , کتنا خوش تھا اپنی شادی پر , ہنسی تو اس کے ہونٹوں سے جدا ہی نہیں ہو رہی تھی "۔ احمد کی آنکھیں گلابی پڑ رہی تھی۔
"دبئی میں کیسے میرے پیچھے آ گیا تھا کہتا تھا چھٹیاں گزارنے آیا ہوں مگر مجھے پتا تھا کیوں تم دونوں بھاگے بھاگے آئے ہو "۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو اور اس کی یادیں یہی کچھ تو تھا اب باقی .........
زائر نے گہری سانس لی۔
"ڈاکٹر نے بتایا تھا اس کے سینے پر اور گردن پر جو گولی لگی تھی اس سے اس کی ......... جان گئی ........چھ گولیاں لگی تھی اسے ........."۔
"مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ کروا کون سکتا ہے ؟؟"۔ زائر نے احمد کو ایسے دیکھا جیسے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہو ۔
"سامنے کی بات ہے یار ملک شاہ زیب اور اس کا بیٹا , مزید اس کا بھائی بھی اس کے ساتھ ملا ہوا ہے "۔
"جس کے خلاف مرسلین نے پروگرام کیا تھا؟؟؟"۔
"ہاں ....... کیسے لمحوں میں انسان ماضی کا حصہ بن جاتا ہے !! میں اس کیس کو اب خود دیکھو گا عدالت میں بھی جو پروف چاہیے میں دوں گا ....... مگر مرسلین کا خون رائیگاں نہیں جانے دوں گا ........ اس کو جس مقصد کے لیے قتل کیا گیا اب وہ مقصد میں پورا کروں گا ........ کتنے قتل کرے گا وہ ؟؟؟ میں بھی دیکھتا ہوں کیسے بچتا ہے وہ "۔
"مگر ........ "
"احمد میں اس شخص کو اس طرح آزاد نہیں دیکھ سکتا , ساری کیس ہسٹری معلوم ہے مجھے , اگلی سماعت پر میں جاؤں گا اور ہاں گھر میں کسی سے ابھی کچھ مت کہنا اس کی پھانسی کی خبر ہی سنائیں گے گھر میں انشااللّٰہ!! مرسلین تو واپس نہیں آ سکتا مگر ہو سکتا اس سے کسی اور مرسلین کی جان بچ جائے"۔
احمد نے بےخیالی میں ہی سر ہلا دیا۔
**********
آج تو جیسے کمرے کی ہر چیز کاٹنے کو دوڑ رہی تھی....... عجیب سی وحشت ہو رہی تھی اسے دو ہفتے ہو گئے تھے مگر ابھی تک ہادیہ اس بات کو قبول نہیں کر پائی تھی ۔ رو رو اب تو آنکھیں بھی خشک ہو گئی تھی ........
ہر وقت وہ کمرے میں بیٹھی رہتی تھی سب نے ہی بہت کوشش کی تھی مگر وہ اس,کمرے سے باہر نہیں نکلی ......
ساری ساری رات جاگ کر گزار دیتی , مومل اس کے پاس ہی سوتی تھی ........ عجیب دیوانوں جیسی حالت تھی اس کی ........
مرسلین کی چیزوں کو کسی کو بھی ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھی ۔
"مرسلین آئے گا تو ناراض ہو گا ......"۔ ہر دفعہ وہ یہی کہتی اور پھر رونے لگ جاتی ........
"ہادیہ ....... ہادیہ کہاں ہو یار ؟؟؟؟ ایک تو یہ لڑکی بھی نا جب بھی گھر آؤ ہمیشہ کسی بل میں گھسی ہوتی ہے ......."مرسلین اسے آوازیں دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا اور پھر جیسے جل کر بولا۔
ہادیہ اس کی آواز پر چونک گئی اس کی اگلی بات پر غصے سے ڈریسنگ روم سے باہر آئی اور اسے گھور کر دیکھا ۔
"یہ کیا کر رہی ہو ؟؟ ہمیشہ کاموں میں مصروف رہتی ہو کبھی دو گھڑی باتیں ہی کر لیا کروں "۔
"تمہارے کپڑے سمیٹ رہی تھی اور یہ بل میں گھسنا کیا ہوتا ہے حد ہے میں کوئی چوہیاں ہوں جو بل میں گھسو گی مرسلین تم بھی نا "۔ اس کی بات پر مرسلین نے قہقہہ لگایا۔
"واہ چوہیاں ......" اس نے پھر سے قہقہہ لگایا ۔
"اب تم میرا مذاق اڑاؤ گے ؟؟"۔ وہ روہانسی ہو کر بولی۔
میری مجال !! اچھا چھوڑو ان باتوں کو ....... آج باہر چلتے ہیں کھانا کھانے ....... اور یہ کیا بھوتنی بنی ہوئی ہو آئندہ میں اس حلیے میں تمہیں نا دیکھو ....... اب جلدی سے ریڈی ہو جاؤ "۔ وہ تیزی سے بولا۔
"اب کیا گھر میں ہر وقت دلہن بن کر بیٹھی رہوں "۔ وہ جل کر بولی۔
"ہاں اس سے کم بھی تمہیں نہیں لگنا چاہیئے مرسلین حیدر کی بیوی کو اس کی طرح ہی دکھنا چاہیے "۔ وہ شرارت سے بولا۔
ہادیہ نے اسے گھورا
"جیسے میں ہوں نا ویسے ہی بہت اچھی ہوں ہاں جب ہم باہر جایا کریں گے تو میں ہادیہ مرسلین بن کر جاؤ گی "۔
"اچھا اس کا مطلب گھر پر بھوتوں کے حلیے میں رہو گی "۔ وہ برجستہ بولا۔
"تم بھی جنوں والے حلیے میں رہنا میں بھی بھوتنی بن جاؤ گی "۔ وہ ہنستے ہوئے بولی اور ڈریسنگ روم میں گھس گئی ۔ مرسلین ہنس دیا۔
فہد کی آواز پر وہ چونک کر حال میں آئی تھی ۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
"وہ مریم آپی اور فاطمہ آنٹی آئی ہیں آپ سے ملنے امی کے کمرے میں ہیں وہ آپ بھی ادھر آ جائیں "۔ فہد کہہ کر واپس مڑ گیا۔ ہادیہ آنسو پونچھ کر بیڈ سے اتری آج اتنے دنوں بعد وہ اس کمرے سے باہر جا رہی تھی ۔
اس نے ایک نظر اپنے آپ پر ڈالی الجھے بال, آنکھوں تلے حلقے , کپڑوں پر لاتعداد شکنیں تھی .......
"میں واقعی بھوتنی بن گئی ہو مرسلین مگر تمہیں کیا فرق پڑتا ہے "۔ اس نے بےدردی سے اپنی آنکھیں صاف کیں اور باہر کی طرف چل دی۔
**********
"کیا سوچ رہیں ہیں آپ ؟؟"۔ حیدر کتاب پر نظریں جمائے پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر سارے الفاظ گڈ مڈ ہو رہے تھے آخر تھک کر انہوں نے کتاب بند کر دی اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی۔ سارا نماز پڑھ کر بیڈ کی طرف آگئی ۔
"کچھ نہیں !! میرا تو دماغ ہی مفلوج ہو گیا ہے , کیسے ہنستا کھیلتا ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہے ........ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں کیا نا کروں یوسف بھائی بھی گم سم سے ہو گئے ہیں , فہد ہی بڑا ہوتا تو سہارا بنتا وہ تو بچہ ہے ابھی ......... فہد کے ہوتے ہوئے یوسف بھائی نے مرسلین کو بیٹوں سا پیار دیا ہمیشہ اپنا بیٹا کہتے تھے اسے اور اب ......... کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہر چیز جیسے اپنے مدار سے ہٹ گئی ہے ........ بچی کو دیکھ دیکھ کر دل کرلاتا ہے "۔ وہ نم آنکھوں سے بول رہے تھے ۔
"کتنے پیار سے بیاہ کر لایا تھا اسے , میرے پوچھنے پر کہنے لگا جیسے آپ کی مرضی ....... وہ ہلکا سا ہنسی جیسے مرسلین سامنے بیٹھا ہو ....... میں تو جیسے جانتی نہیں تھی نا اس کی مرضی !! میں تو ماں ہوں اور ماں کے دل کو تو کبھی چین ہی نہیں آتا........ جتنی بھی کوشش کروں مگر صبر نہیں آتا میرا بیٹا ........ وہ اس کی تصویر کو چومتے ہوئے بولی ...... بلیک شرٹ پہنے , ماتھے پہ بکھرے بال , اور آنکھوں میں کوٹ کوٹ کر بھری شرارت , مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائے , ان کے دل میں ہوق سے اٹھی ........
"یہی زندگی ہے آپ حوصلہ کریں یہ تو ساری زندگی کا غم ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھے گا ہی کم نہیں ہو گا "۔
انہوں نے گہری سانس لی ......
"اللّٰہ لمبی زندگی دے دونوں بچوں کو روزانہ آتے ہیں یہاں گھنٹہ دو گھنٹے بیٹھ کر جاتے ہیں , اتنا خیال رکھتے ہیں سب کا , احمد تو کل کا آسٹریلیا گیا ہوا ہے کہہ رہا تھا میٹنگ ہے وہاں ...... میرا تو دل ڈر رہا تھا , کہنے لگا ماں جی آپ کی دعائیں ساتھ ہیں کچھ نہیں ہو گا آج فون کر کے بتا رہا تھا میٹنگ بہت اچھی ہو گئی ہے میں نے کہہ دیا فوراً واپس آ جاؤ ہنسنے لگ گیا کہتا ہے تین تین مائیں ہیں میرے پاس اور ایک سے بڑھ کر ایک سخت ہے " حیدر ان کی بات پر مسکرا دئیے ۔
"آفس بھی آتے ہیں دونوں ,مرسلین کی طرح زائر کو بھی بزنس نہیں آتا مگر ماشااللّٰہ احمد نے آدھا کام سنبھالا ہوا ہے بلال بھی آ جاتا ہے اکثر ......."۔
سارا نے گہری سانس لی ۔
"میں ہادیہ کو دیکھ آؤ آج اس کی عدت پوری ہوئی ہے زارا بھابھی کہنے لگی باہر نکلا کرو , گھوما پھرا کرو اس بات اس نے تو پورا گھر سر پر اٹھا لیا ......... کہنے لگی مرسلین کے بغیر کہیں نہیں جاؤں گی اور اگر آپ نے مجھے دوبارہ کہا تو میں خود کو کچھ کر لوں گی , شکر کی بھابھی نے کمرہ بدلنے کا نہیں کہہ دیا "۔ حیدر صاحب نے چونک کر انہیں دیکھا۔
"وہ کیوں کمرہ بدلے گی وہ کل بھی اس کا کمرہ تھا آج بھی اس کا ہی ہے کوئی ضرورت نہیں ہے اسے ایسا کچھ کہنے کی "۔
"میں کہاں کہہ رہی ہوں وہ تو بھابھی کا خیال تھا میں نے بھی منع کر دیا تھا انہیں "۔ حیدر صاحب لیٹ گئے اور آنکھوں پر بازو رکھ لیا سارا کے جانے کے بعد انہوں نے آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر دیکھا سامنے مرسلین کے مسکراتے چہرے کی تصویر تھی دو آنسو ٹوٹ کر ان کی آنکھوں سے گرے اور بالوں میں جذب ہو گئے۔
**********
مریم دعا مانگ رہی تھی جب زائر کمرے میں آیا۔ اس نے دعا مانگ کر جائےنماز سمیٹا اور ڈوپٹہ کھولنے لگی ۔ زائر بیڈ پر بیٹھ کر جوتے اتار رہا تھا۔
"کھانا لاؤں ؟؟؟"۔
"نہیں کھانا کھا لیا ہے مگر کافی ضرور پیوں گا "۔ مریم کافی لینے چلی زائر لیپ ٹاپ کھولے کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا۔
"کافی "
"ہاں , تھینک یو "۔ مریم اس کے پاس ہی بیٹھ ۔
"کیا کر رہے ہیں یہ "۔ وہ لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے بولی۔
"میل بھیجنی ہے کسی کو وہ ہی ٹائپ کر رہا ہوں ........ ایک گڈ نیوز سنو گی ؟؟"۔
"اچھی خبر بھی پوچھ کر سناتے ہیں ؟؟"۔
"لگتا ہے تم نے نیوز نہیں سنی "۔
"میں نیوز نہیں سنتی مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے "۔ وہ بھرائی آواز میں بولی۔
زائر کے ٹائپ کرتے ہاتھ تھمے پھر جیسے خود کو سنبھال کر وہ بولا۔
"عمیر تو پہلے سے ہی گرفتار تھا اب اس کا باپ بھی نیب کی تحویل میں ہے "۔ زائر نے اسے ان دونوں کے بارے میں بتا دیا تھا ۔
"واقعی ؟؟؟ "۔ وہ پرجوش سی بولی۔
"ہاں آج صبح دو بجے کے قریب وہ آیا تو اپنے بیٹے کو بچانے تھا مگر خود ہی جیل میں چلا گیا "۔
"یہ تو بہت اچھی خبر ہے اب مزہ آئے گا "۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔ زائر اس کی بات پر ہلکے سے ہنس دیا۔
"اب آپ کو کوئی ضرورت نہیں کسی ایسے بندے کے بارے میں پروگرام کرنے کی , جن کا یہ کام ہے وہ خود ہی جانے ہمارے اندر اب حوصلہ نہیں ہے , آپ بس شرافت سے اپنا پروگرام کریں "۔
"جیسے آپ کا حکم میڈیم !! "۔ وہ بولا ضرور مگر اس کی بات پر کان نہیں دھرے۔
"اچھا اب چھوڑ بھی دیں اس کی جان سارا دن باہر بھی سر کھپایا ہے اور اب گھر میں بھی !!"۔ اتنے میں زائر کا فون بجا۔
"مجبوری ہے یار !!" وہ ہنستے ہوئے بولا۔
مریم اس کی میلز چیک کر رہی تھی زائر کی اونچی آواز پر وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
"تم جیسے بزدل انسان بہت دیکھے ہیں میں نے اور ان میں سے آج کچھ تو اپنے اصل گھر بھی پہنچ گئے ہیں جہاں عنقریب تم بھی جاؤ گے "۔
"ضرور تم اپنی ساری صلاحیتں آزما لو بل میں بیٹھے ہوئے ہو کبھی باہر کی دنیا کا نظارہ کرو تو تمہیں پتا چلے "۔ زائر ہلکے سے ہنس کر بولا.
"چچ چچ , تمہارے باپ نے تمہیں میرے حوالے کر دیا ہے اور تمہارا تایا وہ بیچارہ اپنی کرسی بچانے کے چکر میں ہے میرے ہاتھ بہت جلد تمہارے گلے تک پہنچے گے "۔
"اب موت کا ڈر کس کو ہے کئی دفعہ موت سے لڑ کر آئے ہیں ساری کشتیاں جلا دی اب تو مسٹر اب بس تمہیں جلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں "۔ وہ سرد آواز میں بولا۔
مریم نے دہل کر اسے دیکھا۔
"دیکھتے ہیں کیا معرکے مارو گے تم عدالت میں تمہارا اعمال نامہ پہنچ گیا ہے بچ جاؤ جہاں تک بچ سکتے ہو "۔ اس نے ہونٹ بینچ کر فون بند کر دیا ۔
"کون تھا یہ "۔
"کوئی نہیں تھا تم سو جاؤ مجھے کام ہے کچھ "۔
"مجھے نیند نہیں آ رہی مجھے یہ بتائیں کہ فون پر کون تھا اور ایسے بات کیوں کر رہے تھے آپ اس سے ...... اب کیا ہوا ہے "۔
"بہت جلد پتا چل جائے گا اور کسی سے بھی یہ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے پریشانی کی کوئی بات نہیں "۔
مریم تفکر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
"اپنی ساس سے بھی دکھ سکھ کرنے کی ضرورت نہیں ہےکہا نا پریشان مت ہو "۔
مریم نے چونک کر اسے دیکھا وہ واقعی سوچ رہی تھی کہ فاطمہ کو بتائے گی اور فاطمہ اس سے اگلوا لیں گی ۔
اس نے فقط سر ہلا دیا اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔
**********
احمد اور زائر شام کے وقت گھر آئے تھے ۔ سب گھر والے لاؤنج میں موجود تھے ۔
"آؤ بیٹا ادھر آ جاؤ "۔ یوسف صاحب نے دونوں کو اپنے دائیں بائیں بیٹھایا۔
"دو جوان بیٹے میرے دائیں بائیں , کتنا طاقت ور محسوس کر رہا ہوں میں خود کو ....... " وہ نم آنکھوں سے مسکرائے ۔ سب ہی مسکرا دئیے ۔ ہادیہ نے سلگتی نظروں سے لاؤنج کا منظر دیکھا۔
"کیسی ہیں آپ ؟؟"۔ احمد نے ہادیہ سے پوچھا جو سارا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔
"ٹھیک ہوں "۔ وہ مختصراً بولی اور لب بینچ لیے۔
"مومل جاؤ بھائیوں کے لیے چائے لاؤ "۔ مومل کچن میں چلی گئی ۔ زائر حیدر صاحب سے باتوں میں مصروف تھا ۔ احمد چپ چاپ نظریں جھکائے بیٹھا تھا ۔
"کل شاہ زیب ملک آیا تھا "۔ ان دونوں نے چونک کر یوسف صاحب کی طرف دیکھا۔
"وہ یہاں کیوں آیا تھا کچھ کہا تو نہیں اس نے میرا مطلب ہے ........"۔ زائر کی بات پر یوسف صاحب مسکرا دئیے ۔
"نہیں بیٹا وہ نیک بخت کیا کہے گا ہم سے ......... تعزیت کر رہا تھا کہہ رہا تھا بہت افسوس ہوا مجھے تو اس حادثے کا علم بھی نہیں تھا "۔
"ہم خاموش رہے کہتے بھی تو کیا بیٹا تو چلا گیا اب کسی چیز سے کیا فرق پڑتا ہے "۔ ہادیہ نے بےچین ہو کر پہلو بدلہ۔
احمد نے خاموش نظروں سے زائر کی جانب دیکھا ۔
"فہد یونیورسٹی کب سے جوائن کر رہے ہو "۔ زائر نے خوبصورتی سے موضوع بدلا۔
"بھائی نیکسٹ ویک سے "۔
"گڈ دل لگا کر پڑھنا "۔ زائر نے اس کے بال بکھیر کر کہا۔
فہد مسکرا دیا۔
"میرا خیال ہے انکل سے بات کر لینی چاہیے ہمیں "۔ احمد سرگوشی میں بولا۔
"نہیں یار اتنی مشکل سے تو وہ سب زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں آج نہیں ......... کل ہی بتائیں گے "۔
احمد نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
"مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے میرا خیال ہے اب چلتے ہیں "۔ وہ گھڑی دیکھتے ہوئے بولا۔
"ہاں چلو "۔ اجازت لے کر وہ دونوں آگے پیچھے نکلے۔