کمرے کا دروازہ زور دار آواز میں کھلا مگر اندر سوئے وجود میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد اُس نے ایک دفعہ پھر اپنا سارا غصہ دروازے پر اتارا ۔
شور کی آواز پر ناگواری سے اُس نے کروٹ بدلی اور ایک دفعہ پھر سے سر کمبل میں گھسا لیا۔
"بھائی یار کیا لو گے اٹھنے کا؟؟؟" صائم کی جھنجھلاتی آواز اس کے کانوں میں پڑی مگر وہ اسی طرح پڑا رہا۔
"ایک دفعہ آنے دو ماما کو آپ کے سارے کرتوت بتاؤں گا۔ لوگوں کے سامنے آپ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں میرا بیٹا یہ ۔۔۔۔۔ میرا بیٹا وہ ۔۔۔۔ اب میں بتاؤں گا سب کو آپ کی اصلیت ۔۔۔آپ لوگوں کا اصلی چہرا دیکھاتے ہیں اب میں آپ کا اصلی چہرا سب کے سامنے لاؤں گا۔۔۔۔" صائم اونچی آواز میں بولا ۔
"کیا ہے یار سونے دو ۔۔۔" زائر نے سوئی آواز میں کہا۔
"ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے۔۔۔" صائم کا شعر سن کر بےساختہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی۔
اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے دیکھا صائم کمر پہ ہاتھ رکھے اسے گھور رہا تھا۔
"کچھ بھی مت کہنا زائر عباس دیکھ لی تمہاری محبت میں نے دو چھوٹے چھوٹے بھائی بھوک سے تڑپ رہیں مگر یہاں نیندیں پوری ہو رہی ہیں ۔۔۔۔۔ ہم غریبوں کا بس خدا ہی ہے سچ کہتے ہیں لوگ۔۔۔۔" صائم کی تقریر ابھی جاری تھی زائر نے فوراً اٹھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
"خدا کا خوف کرو تین بجے رات کو میں آیا ہوں اور صبح صبح تم نازل ہو گئے ہو اوپر سے طعنے سنو " زائر تیز آواز میں بولا۔
"تو؟؟" صائم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"میں نے تھوڑی کہا تھا کہ اس وقت ہماری زمہ داری قبول کریں تب تو بڑا بڑھ چڑھ کے کہا جا رہا تھا میں ان کا خیال رکھوں گا اب رکھیں نا خیال ۔۔۔" وہ مزید بولا۔
زائر نے گہری سانس لی وہ اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے ان دونوں کی زمہ داری لی تھی۔
فاطمہ ایک ہفتے کے لیے کراچی گئی تھی صائم انہیں روکنا چاہتا تھا مگر زائر نے منع کر دیا۔
"ماما میں سنبھال لوں گا آپ جائیں ۔۔۔"۔
آج فاطمہ کو گئے دوسرا دن تھا صائم جھنجھلایا ہوا پھر رہا تھا۔اسے کالج سے دیر ہو رہی تھی جبکہ ابھی تک ناشتہ بھی نہیں بنا تھا۔
"اُس شیطان کو بھی اٹھا لینا تھا پھر مجھے اس کے بھی طعنے سننے پڑیں گے۔" وہ فریج میں جھانکتے ہوئے بولا۔
"کسی نے یاد کیا ہمیں ؟؟" عمر بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
"شکر ہے تم تیار ہو گئے اب بھائی کی ہیلپ کرواؤ میں آتا ہوں "۔ صائم اس کے کھلے منہ کو نظر انداز کرتا آگے بڑھ گیا۔زائر چائے بنانے میں مگن تھا۔عمر اس کے متوجہ ہونے کا انتظار کرتا رہا پھر گہری سانس لی ۔
"بھائی !! زائر نے اس کی جھنجھلاتی آواز سنی مگر اگنور کیے اپنا کام کرتا رہا۔
"اچھا سوری نا!!" اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر زائر کو اپنی طرف گھوماتے ہوئے بولا۔
"مجھ سے کچھ کہا؟؟" زائر ابرو اچکاتے ہوئے بولا۔
"سوری " وہ شرمندہ لہجے میں بولا۔ زائر نے اس کی طرف دیکھا وہ کالج کے لیے تیار کھڑا تھا۔
"اس ہفتے میں یہ دوسری بار ہے کل بھی تم نے یہی کہا تھا نا ۔"
"بھائی سب مجھے زبردستی لے گئے تھے میچ کھیلنے کے لیے ۔۔۔۔آپ کو تو پتا ہے میں کسی کا دل نہیں توڑ سکتا ۔۔۔۔ اسی لیے میں چلا گیا تھا سب کو بہت منع بھی کیا تھا رات کے وقت نہیں جاتے مگر میری سنتا کون ہے آپ صائم سے پوچھ لیں ۔۔۔۔" عمر معصومیت سے بولا۔
"ہاں جیسے میں تو تمہیں جانتا نہیں ہوں نا "۔زائر آملیٹ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولا۔
"اس کا مطلب آپ نے مجھے معاف کر دیا اوو تھینک یو سو مچ بھائی ۔۔۔"۔ عمر شرٹ کے بازو فولڈ کرتا ٹیبل پہ بیٹھا۔
زائر نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر ہنس دیا۔
"آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔"۔ زائر اس کے بال بگاڑ کر بولا۔
"اوکے باس اور کچھ ۔۔۔"۔
"یہی مان لو تو مہربانی ہے تمہاری کجا کہ کچھ اور ۔۔۔"۔ زائر خشمگیں لہجے میں بولا۔
"آپ لوگوں نے بس بدنام کیا ہوا ہے مجھے "۔ عمر بھی اُسی کے لہجے میں بولا۔
"بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نا ہو گا۔۔۔"۔ صائم کچن میں داخل ہوتے ہوئے گنگنایا۔۔۔
زائر کا قہقہہ بےساختہ تھا۔
※••••••※
"ایک تو یہ لڑکی بھی نا ، تنگ آ گئی ہوں میں اس کی حرکتوں سے دن چڑھ آیا ہے مگر میڈیم صاحبہ کو کچھ پتا ہی نہیں ۔۔۔۔ لوگوں کی لڑکیاں ہیں سورج چڑھنے سے پہلے ہی اٹھ جاتی ہیں سارا گھر سنبھالا ہوتا ہے انہوں نے مگر ایک میری اولاد ہے جسے نا دین کی خبر ہے نا دنیا کی۔۔۔۔۔"۔ اس سے پہلے کے اماں مزید اس کی شان میں قصیدے پڑھتی وہ آنکھیں مسلتے ہوئے باہر صحن میں آ گئی۔
"کیا ہو گیا ہے اماں کیوں صبح صبح بول کر خود کو تھکا رہی ہیں ؟؟" وہ بےزاری سے بولی۔
"ہاں میری اولاد تو ڈھیٹ ہے نا اسے کون سا فرق پڑنا ہے ماں بولی جائے ۔۔۔ ایک کان سے سنو دوسرے سے نکال دو ۔۔۔" اماں کو تو آگ ہی لگ گئی تھی اس کی بات سن کے۔۔۔۔!
"افوہ اماں آپ بھی نا ساری دنیا کی لڑکیاں اسی ٹائم پہ اٹھتی ہیں دیکھیں زرا باہر جا کر ۔۔۔۔ اس محلے کی ایک دو لڑکی ہو گی جو صبح اٹھتی ہو گی ۔۔۔۔" وہ ڈوپٹے سے منہ صاف کرتے ہوئے بولی۔
"بہت اچھے بھئی۔۔۔ کل کو ساری دنیا کی لڑکیاں کنویں میں کودیں گی تو تم بھی کود جانا ۔۔۔۔" اماں طنز سے بولی۔
"اماں سوری ٹو سے!! مگر یہ ڈائیلاگ بہت پرانا ہوچکا ہے کچھ نیا ٹرائے کریں ۔۔۔"۔ مریم شرارت سے بولی۔
"مریم باز آ جا ۔۔۔۔ کچھ تو سیکھ لو کل کو اگلے گھر جاؤ گی وہاں ۔۔۔۔"۔
"اماں اباّ کہاں ہیں ؟؟" اماں کا لیکچر طویل ہوتے دیکھ کر وہ جھٹ سے بولی۔ اماں نے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا اور جھاڑو پھیرنے لگ گئی۔
"بتائیں نا اماں اباّ کہاں ہیں ؟؟"۔ اپنے سوال کا جواب نا اُس نے پھر سے اماں سے پوچھا۔
"دکان پر ہیں "۔ اماں آہستگی سے بولی۔
"چائے پیے گی آپ ؟؟" مریم کچن کی طرف جاتے ہوئے بولی۔
"ہم اللّٰہ کا شکر ہے مسلمان ہیں اور صبح وقت پہ ناشتہ کرتے ہیں ۔۔۔"۔ اماں نے سکون سے بول کر اُس کا سکون برباد کیا۔
"میں بھی اللّٰہ کا شکر ہے مسلمان ہوں اور میں ناشتہ نہیں کرنے لگی صرف چائے پینے لگی ہوں ۔۔۔" مریم تلملاتے ہوئے بولی۔
اماں جھاڑو لگانے کے بعد تخت پر بیٹھ کر سبزی کاٹنے لگ گئی۔
"اسلام علیکم خالہ "۔
"وعلیکم اسلام بیٹا ۔ اتنے دنوں بعد چکر لگایا ہے تم نے "۔ خالہ نے زائر کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"بس خالہ کام میں بہت مصروف تھا نئی نئی نوکری ہے تو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔۔"۔ زائر ادھر اُدھر نگاہ دوڑاتے ہوئے بولا۔
"ہاں بیٹا اللّٰہ تمہیں کامیاب کرئے۔ عمر اور صائم کیسے ہیں ؟؟ اور فاطمہ کا کوئی فون آیا کہ نہیں ؟؟" مریم بچہ کب سے آیا بیٹھا ہے چائے لاؤ اُس کے لیے ۔" وہ سبزی میں مگن بولی۔
"عمر اور صائم ٹھیک ہیں فون آیا تھا دو چار دن تک آ جائیں گی۔"۔ زائر بھی ان کے ساتھ مٹر نکالنے لگ گیا۔
"اسلام علیکم !! مریم چائے اُس کے سامنے رکھتے ہوئے بےزاری سے بولی۔
وعلیکم اسلام کیسی ہو مریم ؟؟" زائر خوش دلی سے بولا۔
"ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے "۔ آخری چار لفظ اس نے آہستگی سے بولے تھے۔
"اماں میں اپنا کمرہ صاف کر لوں ۔۔۔۔"۔ مریم اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی زائر اسے دیکھ کر رہ گیا۔
"شکر ہے اس لڑکی کو بھی کچھ خیال آیا ورنہ تو سارا کچھ ماں پہ ڈالا ہوا ہے ۔ایک ہی اولاد ہے وہ بھی سو پہ بھاری ۔۔۔" اماں نے اُس کے سامنے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ۔
زائر چپ رہا۔ اور مریم اندر تلملا رہی تھی ۔
"بیٹا یہ ٹی وی کی نوکری کہتے ہیں بہت خطر ناک ہوتی ہے "۔ وہ پریشانی سے بولی۔
"خالہ آج کل تو ہر نوکری ہی خطرناک ہے کیا ٹی وی کی اور کیا دوسری۔۔۔"۔ زائر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
"ہنہ ایک معمولی سا صحافی ہے اسے کون سا خطرہ ہو گا ۔۔" مریم کمرے میں کپڑے تہہ کرتے ہوئے طنز سے بولی۔
"پھر بھی بیٹا دھیان سے رہا کرو کسی کے ساتھ منہ ماری کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، اگر کوئی کچھ کہہ بھی دے تو دھیان دیے بغیر بس اپنا کام کیا کرو ۔۔۔۔ یہ سیاست دان بھی بڑے چالاک ہوتے ہیں ان سے بھی کوئی سوال نا کیا کرو اچھا۔۔۔۔" خالہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
زائر نے مسکراہٹ دبائے سر ہلا دیا وہ خالہ کو کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہاں اُس کا پالا ہر روز اُن چالاک سیاست دانوں سے پڑتا تھا اور اس کا کام اُن سے سوال کرنا ہی تھا۔
※••••••※
"تھینک گاڈ مجھے تمہاری شکل تو نظر آئی "۔ مریم کلاس سے باہر آئی تو عمیر سامنے کھڑا تھا اسے دیکھ اس کی سمت آیا۔
مریم اس کی بات پر خوبصورتی سے ہنس دی۔
"یہ بات تو مجھے کہنی چاہیے ایک ہفتے بعد آج تم آئے ہو ۔" مریم کتابیں گھاس پر تقریباً پھینکتے ہوئے بولی۔
"بزی تھا یار کل ہی کراچی سے آیا ہوں اور آج تم سے ملنے آ گیا۔"
"مجھے بہت غصہ تھا تم پر کیسے بنا بتائے ہی چلے گئے تھے دو دن فون بھی بند رکھا تھا ۔"
اگین سوری ! یار پاپا نے ایمرجنسی میں بھیج دیا تھا۔آئندہ تمہیں بتا کر ہی جاؤں گا۔۔" عمیر اس پر نظریں جمائیں بولا۔
مریم مسکرا دی۔
"تمہارا کزن کیا نام ہے اُس کا ۔۔۔ وہ ذہن پر زور ڈالتے ہوئے بولا۔ مریم کا منہ اُس کے ذکر پر ہی بن گیا۔
"ہاں زائر عباس !! وہ journalist بن گیا ہے کل میں نے اُسے دیکھا تھا بہت امپریسو پڑسینلٹی ہے اُس کی ۔۔۔۔"۔ عمیر تعریفی لہجے میں بولا۔
"تم یہاں اسے ڈسکس کرنے آئے ہو ؟؟"۔ مریم سنجیدگی سے بولی۔
عمیر اس کی شکل دیکھ کر ہنس دیا۔
"جیلس کیوں ہو رہی ہو میں نے تو ویسے ہی کہا ہے "۔
"ویسے بھی مت کہو بلکہ میرے سامنے اُس شخص کا نام بھی مت لو ۔۔" مریم برا سا منہ بناتے ہوئے بولی۔
"سٹرینج تمہارا اتنا قریبی رشتہ ہے اُس سے اور تم اتنی بےزار ہوتی ہو اُس سے ، میں ویسے ہی بولا ہوں اچھا سوری !!" عمیر مریم کی گھوریوں کو دیکھ کر بولا۔
"او میں بھول گیا تمہارے لیے کچھ لایا تھا میں۔۔۔"۔ وہ جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک خوبصورت سا باکس نکالتے ہوئے بولا۔ مریم چمکتی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
" شاپنگ کرتے ہوئے مجھے یہ نظر آیا سب سے پہلا خیال اس بریسلیٹ کو دیکھ جس کا آیا تھا وہ تم تھی خوبصورت تو یہ پہلے بھی تھا مگر اب زیادہ خوبصورت لگ رہا ہے"۔ وہ اسے پہناتے ہوئے بولا۔
"تھینک یو سو مچ بہت خوبصورت ہے یہ "۔ مریم بریسلیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
" کیا یہ سب کچھ مجھے اُس سے مل سکتا ہے یقیناً نہیں ۔ میں نے بروقت ایک اچھا فیصلہ کر لیا تھا ورنہ پچھتاوے ہی آتے میرے ہاتھ۔۔۔۔۔ "کیا کسی شخص کو ایک ہی وقت میں محبت اور دولت مل سکتی ہے ؟؟؟" یقیناً نہیں !! میرا فیصلہ ہی ہے جس کی وجہ سے مجھے دونوں چیزیں مل رہی ہے ۔۔۔۔" وہ جانے کب تک اپنے خیالوں میں گم رہتی عمیر کی آواز پر چونک کر اپنے خیالوں سے باہر آئی۔
"ہاں کیا کہا؟؟"۔
"میڈیم کہاں گم ہو گئی ہیں میں تو آپ کے سامنے بیٹھا ہوں پھر کس کو سوچا جا رہا ہے ؟؟" وہ اس کی آنکھوں کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے بولا۔
"کہیں نہیں !! وہ بریسلیٹ پر نظریں جمائے بولی۔
"میں اب چلتی ہوں چار بج رہے ہیں اماں ویٹ کر رہی ہوں گی"۔ مریم اپنی کتابیں سمیٹے ہوئے بولی۔
"کچھ دیر تو بیٹھو پھر چلی جانا"۔ عمیر گھاس پر نیم دراز ہوتے ہوئے بولا۔
اُس نے بےبسی سے عمیر کی طرف دیکھا۔
"اباّ بھی گھر آنے والے ہیں مجھے گھر میں نا پا کر پریشان ہو جائیں گے"۔
"اچھا جاؤ"۔
"خدا حافظ "۔
عمیر نے سر ہلا دیا اور پر سوچ نظریں اس کی پشت پر جما دیں۔۔۔
※••••••※
میں اندر آ سکتا ہوں ؟؟ اس آواز پر اُس نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا۔ وہ مسکراہٹ دبائے اسے دیکھ رہا تھا۔
"اگر میں نا کہوں گا تو تم نے کون سا نہیں آنا"۔ احمد کہہ کر دوبارہ سے فائل پر جھک گیا۔
"ہاں یہ تو ہے ڈھٹائی میں تو میں تم پر گیا ہوں "۔ زائر مسکراہٹ دبائے بولا۔
احمد نے افسوس سے اُسے دیکھا۔
"آج کیسے آ گئے تم اپنی مصروفیت چھوڑ کر ؟؟"۔
"چائے پلانے کا رواج نہیں ہے کیا تمہارے آفس میں ؟؟"۔ احمد کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ بولا۔
احمد نے اُسے گھورا ۔
"آ جاتی ہے چائے صبر رکھو تمہیں دیکھتے ہی میرے آفس کا عملا متحرک ہو جاتا ہے"۔
"یار تمہیں پتا تو ہم صحافی کتنے مصروف ہوتے ہیں پچھلے دنوں بہت کام تھا الیکشن بھی نزدیک ہیں ایک ایک لمحے کی خبر رکھنی پڑتی ہے ۔۔۔۔ اور پھر جلسے ان کی بھی کوریج کرنی ہوتی ہے انٹرویوز بھی , اب تم ہی بتاؤ کیسے ٹائم نکالو۔۔۔۔ "۔
"ٹھیک ہے بہت مصروف ہو تم کم از کم میسج کا ریپلائی ہی کر دیا کرو "۔
"آج صبح دیکھا تمہارا میسج اور پہنچ گیا میں یہاں ۔۔۔۔ "۔ زائر چائے پیتے ہوئے بولا۔
"بہت مہربانی تمہاری !!"۔
"اچھا چھوڑو یہ بتاؤ لندن والی پارٹی کا کیا بنا۔ ڈیل کرنے کو تیار ہیں وہ ؟؟"۔
"ہاں تقریباً ! اب بابا جائیں گے فائنل میٹنگ کے لیے۔۔"
"گھر چلو گے ؟؟ "۔ احمد نے اُس سے پوچھا۔
"نہیں یار آج نہیں ابھی تو اپنے گھر جاؤں گا ایک پروجیکٹ پر کام کر رہاں ہوں وہ کمپلیٹ کرنا ہے ۔"
"چلو اکھٹے ہی چلتے ہیں ۔۔" احمد فائل سمیٹے ہوئے بولا۔
چلیے جناب۔۔ وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے آگے پیچھے آفس سے نکلے۔۔۔۔
※••••••※
اسلام علیکم اباّ!! رجب علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"کیسی ہے میری بیٹی ؟؟" دکان سے واپسی پر ہر روز وہ مریم سے ایسے ہی ملتے تھے گھر داخل ہوتے ہی مریم کی آواز آتی تھی اور ان کی ساری تھکن اتر جاتی تھی ۔
"ٹھیک ہوں اباّ "۔ مریم نے ان کے لیے چارپائی بچھائی۔
"آج موسم کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا مجھے "۔ وہ مریم کی طرف دیکھ کر شرارت سے بولے۔
مریم ان کا اشارہ سمجھ کر مسکرائی۔
"ہاں جی صبح سے ہی برفباری ہو رہی ہے "۔
"شائستہ بیگم آج چائے نہیں ملے گی؟؟" انہوں نے کچن کی طرف دیکھ کر ہانک لگائی۔
"آ رہی ہوں باپ بیٹی میں صبر نام کو نہیں ہے "۔ مریم نے شکایتی نظروں سے باپ کو دیکھا جو مسکرا رہے تھے۔
"ایسے تو مت کہو شائستہ ہماری بیٹی تو بہت صبر والی ہے روکھی سوکھی جیسے بھی ملے کھا لیتی ہے کبھی دوسرے بچوں کی طرح فرمائشیں نہیں کی میری دھی نے "۔ اباّ کی بات سن کر مریم کے مسکراتے لب سکڑ گئے۔
"لڑکیوں کو ایسے ہی ہونا چاہئیے اور گھر داری بھی کرنی چاہئیے آگے زندگی میں کام آتا ہے پڑھائی ہی کام نہیں آئے گی اس کو ۔۔۔" انہوں نے اپنے دل کے پھپھولے اباّ کے سامنے پھوڑے۔
"گھر داری بھی سیکھ لے گی ابھی صرف پڑھائی کرنے دو اُس کو ۔۔۔ میں چاہتا ہوں میری بیٹی کسی مقام پر پہنچے اپنی پہچان بنائے آجکل کی دنیا میں پڑھائی بھی بہت ضروری ہے "۔ ان کی باتوں کے دوران مریم اندر جا چکی تھی ۔
"آپ سے باتوں میں کون جیت سکتا ہے میں تو بس چاہتی ہوں اس کی شادی کا سوچیں پرھائی بھی ہوتی رہے گی ساتھ ساتھ "۔
"سوچ لیں گے جب ٹائم آئے گا تم ابھی مجھے کھانا تو دو۔۔۔"۔
"اچھا لاتی ہوں مگر میری باتوں پر غور کریں "۔ وہ سر ہلا کر اندر کی طرف بڑھ گئے۔
مریم غصے میں بھری بیٹھی تھی ہفتے میں ایک دفعہ اس ٹاپک پر بات ضرور ہوتی تھی اور ہر دفعہ اسے غصہ آتا تھا۔
"اماں تو میرے پیچھے ہی پڑ گئی ہیں ہمیشہ سوتیلوں والا سلوک کرتی ہیں "۔ وہ نم آنکھوں سے سوچ رہی تھی۔
"مریم کھانا کھا لو آ کر "۔ اماں کی آواز پر وہ کچھ نا بولی۔
"میری دھی تو ناراض ہو گئی ہے۔۔۔۔ اماں نے پیار سے اُس کے بالوں کو پیچھے کیا۔
"میں تو تمہارے فائدے کی بات کرتی ہوں لڑکیوں کو ہر کام آنا چاہئیے جیسے میری بیٹی پڑھائی میں آگے ہے ویسے گھر کے کاموں میں بھی ہونا چاہئیے, چل اب اٹھ جا تمہارا باپ بھی تب تک نہیں کھائے گا جب تک تم نہیں جاؤ گی اٹھو شاباش۔۔۔۔" اماں نے اس کا ماتھا چوما اور ہاتھ پکڑ کر اُسے اٹھایا۔
کھانا کھاتے ہوئے وہ کچھ دیر پہلی والی ساری باتیں بھلائے چہک رہی تھی۔
※••••••※
زائر لاؤنچ میں صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب عمر چیختے ہوئے اندر آیا۔ صوفے پر بیگ پھینک کر خود بھی گر گیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا زائر نے ناگوار نظروں سے اسے دیکھا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے عمر کہاں سے آ رہے ہو ہاپنتے ہوئے اور حلیہ دیکھو اپنا صائم کہاں ہے ؟؟" عمر نے زائر کی آواز پر پٹ سے آنکھیں کھولیں اور حیرانی سے زائر کو دیکھا۔
"اللّٰہ واکبر !! آپ یہاں کیسے ؟؟" اس کے سوال پر اندر آتے صائم کی ہنسی چھوٹ گئی۔
زائر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
"نہیں میرا مطلب کہ آپ تو آفس میں ہوتے ہیں تو اس ٹائم , آپ کا اپنا گھر ہے جب مرضی آئیں ,جب مرضی جائیں آف کورس میں کون ہوتا ہوں پوچھنے والا۔۔۔۔" زائر کے ناگواری سے دیکھنے پر وہ بکھلاتے ہوئے بولا۔
"فضول باتوں سے پرہیز کرو ۔۔۔ اور تم آ کہاں سے رہے ہو دو بجے کالج آف ہو جاتا ہے اور اب پانچ بج رہے ہیں "۔ زائر اب پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ تھا۔
"وہ ۔۔۔۔ صائم ادھر آؤ تم بھی بھائی کچھ پوچھ رہے ہیں "۔ صائم کو بھاگتے دیکھ کر وہ فوراً بولا۔
"او خالہ !! کیسی ہیں آپ میں کتنا اداس ہو گیا تھا پتا ہے آپ کو ؟؟ جائیں میں نہیں بولتا آپ سے ۔۔۔"۔ شائستہ اور مریم کو اندر آتے دیکھ کر وہ زائر سے جان چھروا کر بھاگا۔
"جیو خالہ آج بچالیا ہمیں "۔ اُس کی سرگوشی پر خالہ خاک بھی نا سمجھی۔
"بس کیا بتاؤ کتنی مصروف ہوتی ہیں تمہاری خالہ اب آئی ہوں نا "۔ وہ اُسے پیار کرتی بولی۔
"خالہ کھانا کیوں لے آئی آپ ہم بنا لیتے کچھ نا کچھ ۔۔۔"۔ صائم مریم کے ہاتھ سے کھانا لیتے ہوئے بولا۔
"کیوں خود بنا لیتے جاؤ مریم کھانا لگاؤ ۔۔۔ پتا نہیں کب سے بھوکے بیٹھے ہیں بچے۔۔۔"۔ خالہ کے کہنے بےساختہ مسکراہٹ ان تینوں کے ہونٹوں پر رینگ گئی۔
"آئیے مریم آپی ہم کھانا لگانے چلتے ہیں "۔
"عمر کوئی بدتمیزی نہیں کرنا ۔" زائر نے اسے تنبیہہ کی۔
"جی بھائی ! " وہ سعادت مندی سے بولا مگر اُس کی آنکھیں شرارت سے لبریز تھی۔
"آپ ہمارے گھر کیوں نہیں آتی ۔ ایک ہفتے بعد آئیں ہیں آپ ۔۔۔"۔
مریم نے اسے گھورا۔
"جھوٹے ابھی تین دن پہلے ہی تو آئی تھی ۔ کل تمہارا بھائی آیا ہوا تھا تم بھی آ جاتے اُس کے ساتھ ۔۔۔۔"۔ وہ پلیٹں نکالتے ہوئے بولی۔
"میں کالج میں تھا نا ۔۔۔۔"۔
"چلو یہ پلیٹس باہر رکھو ۔۔۔"
"گھر میں سب سے چھوٹا ہونا بھی مصیبت ہے کوئی عزت ہی نہیں ہوتی چھوٹوں کی ۔۔۔۔"۔ مریم نے حیرت سے اس کی بےسروپا بات کو سنا۔
"کیا بک رہے ہو عمر ۔۔۔ آپی کو پریشان کر دیا تم نے۔۔۔" صائم نے اسے گھورا۔
"آپی پریشان نہیں ہوتی بلکہ کرتی ہیں ۔۔۔ کیوں آپی کہیں یہ ڈائیلاگ بھی تو پرانا نہیں ہو گیا۔۔۔"۔ عمر کے شرارت سے کہنے پر مریم کے دماغ میں جھماکہ ہوا ۔
"تو زائر اور عمر نے اس کی اور اماں کی ساری باتیں کل سن لی تھی۔ اسی لیے عمر تب سے مسکرا رہا تھا اور زائر عباس!! اُس نے دانت کچکچائے ۔۔۔ اب اسے زائر کی تنبیہہ یاد آئی تھی۔۔۔۔ اُف کیا سوچ رہا ہو گا وہ ۔۔۔۔( آں ہاں میں کیوں سوچ رہی ہوں اُسے میری طرف سے کچھ بھی سوچے ۔۔۔۔ اونہہ)۔۔۔۔"
"تمہیں تو میں پوچھتی ہوں عمر "۔ وہ تلملاتے ہوئے بولی۔
"آپی ڈئیر یہ ڈائیلاگ بھی کافی پرانا ہو گیا ہے ۔۔۔۔"۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔ جبکہ اس کی بات پر صائم کا قہقہہ بےساختہ تھا۔
مریم نے مسکراہٹ چھپائے اسے گھورا۔۔۔
زائر گیارہ بجے گھر آیا تو لائٹ جلتی دیکھ کر حیران ہوا۔ اس کی حیرت اندر آنے پہ ختم ہوئی صائم اور عمر فاطمہ کو گھیرے بیٹھے تھے ۔وہ فاطمہ کے آگے جھکا۔فاطمہ نے پیار سے اس کی پیشانی چومی۔
"کیسا ہے میرا بچہ ؟؟"
ٹھیک ہوں امی آپ کیسی ہیں ؟؟ آپ مجھے بتا دیتی میں لینے آ جاتا آپ کو۔۔۔"۔
"ارے بیٹا تم کام میں مصروف تھے اسی لیے نہیں بتایا۔ کھانا کھاؤ گے ؟؟"۔
"نہیں امی آفس میں کھا لیا تھا۔۔۔ تم تو پیچھے ہو جاؤ ۔۔۔"۔ عمر کو امی کے پاس سے نا اٹھتے دیکھ کر زائر بولا۔
"امی ویسے آپ کے دونوں بچے بہت بدتمیز ہے "۔ عمر منہ بنا کر بولا۔ اس کا اشارہ صائم اور زائر کی طرف تھا۔
زائر نے اسے گھورا صائم نے ناگواری سے اسے دیکھا اور فاطمہ بےاختیار ہنس دی۔
"میرے بچے بہت اچھے ہیں ۔۔۔
"امی یہ جیلس ہوتا ہے"۔ صائم مسکراہٹ دبائے بولا زائر بھی ہنس دیا۔
"امی دیکھیں انہیں ۔۔۔"۔
"ناتنگ کرو میرے بیٹے کو ۔۔۔"۔ وہ مسکراتے آواز میں بولی۔
"اب تم دونوں جاؤ کل کالج بھی جانا ہے "۔ ان دونوں کو اوپر بھیج کر وہ زائر کے ساتھ کچن میں چلی آئی اور چائے کا پانی چڑھایا۔
"اب تو ماشااللّٰہ سے تمہاری نوکری بھی پکی ہو گئی ہے حالات بھی بہتر ہیں اب تو میں سوچ رہی تھی کہ آپا سے بات کروں ۔۔۔"۔
"کیا بات کرنی ہے؟؟ "۔ زائر ناسمجھی سے بولا۔
"تمہارے اور مریم کے رشتے کی بات ۔۔۔ مریم بھی پڑھائی سے فارغ ہونے والی ہے تمہارے ابو نے بات پکی کی تھی تب اب میں چاہتی ہوں کہ باقاعدہ رشتہ لے کر جاؤں ۔۔۔"۔ وہ چائے کا کپ اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔
ان کی بات سن کر زائر نے لب بینچ لیے اور نظریں چائے کے کپ پر جما دیں۔
"میں ابھی شادی نہیں کر سکتا امی "۔
کیوں ۔۔۔ کیوں نہیں شادی کر سکتے تم ۔۔ مجھے کچھ نہیں سننا کل میں جا رہی ہوں بات کرنے۔۔۔"۔ فاطمہ دو ٹوک انداز میں بولی۔
"امی پلیز !! میں پہلے اپنا کیریر بنانا چاہتا ہوں "۔ وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا۔
"جو بننا تھا تم بن گئے ہو اور شادی کے بعد بنا لینا اپنا کیریر کوئی نہیں روکے گا تمہیں۔۔" وہ اس کے بہانوں پہ پانی پھیرتے ہوئے بولی۔
"ان کی بیٹی مان جائے گی اس شادی کے لیے؟؟"۔ زائر طنزیہ لہجے میں بولا۔
"کیوں وہ کیوں نہیں مانے گی ۔ ماشااللّٰہ سے بہت فرمابردار بچی ہے "۔ فاطمہ اس پہ طنز کرتے ہوئے بولی۔
"کہیں تم کسی اور کو تو پسند نہیں کرتے اور یہ سارے بہانے اسی وجہ سے بنا رہے ہو اور الزام اس بچی پر تھوپ رہے ہو۔۔۔"۔ فاطمہ کی بات سن کر وہ اچھل ہی پڑا۔
"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ایسا کچھ نہیں ہے ۔"۔
"ٹھیک ہے کل میں جاؤں گی آپا کے گھر ۔۔۔" وہ اپنا فیصلہ سنا کر اٹھ گئی جبکہ زائر سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا رہا۔
※••••••※