عادل بیٹا تمھاری نانی کا خیال تھا کہ ایسے رشتہ کر لینے سے خاندان میں مزید دوری نہیں آئے گی مگر وہ نہیں جانتی تھی شاید کے حسد کی آگ سب کچھ راکھ کر دیتی ہے۔چلو اب سو جاؤ بیٹا اور مجھے بھی تو آرام کرنے دو صبح تمھارے اور ہزار کام ہوں گے کرنے کو،میں کہتی ہوں ہوسٹل جانا ضروری ہے کیا؟یہاں رہ کر بھی تو تیاری کر سکتے ہو نا،وہاں کون تمھارے کپڑوں کا کھانے پینے کا خیال کرے گا عادل میرا بچہ میرا دل۔ ماں کی باتوں پہ عادل ہنسنے لگا اور ماں سے گلے مل کر اپنے کمرے کی جانب چل پڑا،عادل کے دماغ میں ماں کی بتائی ہوئی باتیں گردش کرنے لگی تھی،اتنا سب کچھ ہوا شاید اس لیا ہی میری طبعیت اور مزاج کچھ ایسا ہو گیا ہے۔ مگر کبھی امی نے مجھے یہ سب بتایا بھی نہیں اور تب بھی میں بقول نور کے کریلا ہوں،ہاہ پاگل لڑکی۔ منگنی کے بعد نور اپنے کمرے میں جا کر بہت دیر تک روتی رہی،میں نے ایسا کیا کر دیا ہے جو اتنی بڑی سزا مل رہی ہے،کیا خدا سے مانگنے کا یہ ہی انجام ہوتا ہے،لوگ ملتے کیوں نہیں ہیں آخر کو کسی کی زندگی میں بھی کچھ ایسا اچانک ایک خواب کے جیسا کیوں نہیں ہوتا کہ صبح سو کر اٹھے انسان تو سب ویسا ہو جائے جیسا کہ وہ تمنا کرتا ہے۔نور اپنی منگنی کا گجرا ہاتھوں میں لیے اس کی بتیوں کو توڑ رہی تھی وہ یہ سب نہیں سوچنا چاہتی تھی اس کو ایسی سوچ سے بھی ڈر لگتا تھا مگر وہ شکواہ کس سے کرتی ماں کے علاوہ وہ آج تک کسی سے کھل کر بات بھی نہیں کر پائی تھی اسکول کی دوستوں میں سے بھی جو بہت قریب تھی وہ بھی اب ملک سے باہر تھی آج نور بہت تنہا تھی ایسے جیسے زندہ درگور کر دی گئی ہو۔
نماز ء فجر کے بعد نور لان میں آگئی اور گھاس پہ بیٹھ کر تلاوت کر رہی تھی،رات دیر سے سونے والی اور سال بھر میں رمضان کے علاوہ قرآن تو دور کبھی نماز بھی نہ پڑھتی تھی آج گھر میں سب سے پہلے جاگ کر نماز کے بعد تلاوت کر رہی تھی،نور کی آنکھوں میں آنسو ایسے چمک رہے تھے جیسے سیپ سے نکلا ہوا کوئی گوہر نایاب جیسے بارش کی پہلی بوند،نور کے جسم کو ہچکیوں نے بری طرح سے ہلا کر رکھ دیا تھا وہ آج پہلی بار قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھ رہی تھی،سورج کی پہلی کرنیں نور کےچہرے کو روشن کرنے لگی۔ بلکونی میں کھڑے عادل کی نظریں نور پہ جمی ہوئی تھی،نور میں اچانک اس آنے والی تبدیلی کے بارے میں سوچ رہا تھا،عادل بھی کچھ خاص مذہبی شخص تو نہیں تھا مگر نور جیسا لاتعلق بھی نہیں تھا۔ خدیجہ: نور بیٹی اندر آجاو اب،زکام لگ جائے گا سورج کی ظرف کیوں منہ کر کے بیٹھی ہو،اندر آو ناشتہ کر لو تمھارے بابا بھی انتظار کر رہے ہیں اور عادل اور پھوپو کو بھی بلا لاؤ آج ہمارے ساتھ ہی ناشتہ کر لیں عادل نے جانا بھی ہوگا ۔۔۔۔ خدیجہ اپنی بیٹی کا آنسوں سے بھیگا چہرہ نہ دیکھ سکی تھی،دعا کے بعد نور کرسیوں کا سہارا لے کر کھڑی ہو رہی تھی عادل یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ہر وقت ہرنی کی طرح کلانچیں بھرنے والی نور کو آج اٹھنے میں بھی دقت ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ نور اپنی ماں کے بتائے ہوئے ہوئے پیغام کو دینے پھوپی کے پاس آئی،وہ کوئی پری لگ رہی تھی جیسے، پھوپو امی کہ رہی آج آپ دونوں ناشتہ ہمارے ساتھ کریں،،،،چاچو اور ان کی فیملی بھی ہے آپ بھی آجائیں جلدی سے۔ نور زبردستی کی مسکراہٹ لیے ہوئے جیسے ایک ربوٹ کی طرح آئی تھی ویسے ہی واپس چلی گئی۔
ناشتہ کی میز پہ یاور ماموں اور ان کی بیٹی ماہم بھی موجود تھی وہ لوگ بس ایک ہفتہ کے لیے آئے تھے بطور ء خاص نور کی منگنی میں شرکت کے لیے۔ ماہم جو ابھی ٹین ایج میں تھی اور اردو میں روانی بھی نہیں تھی اس لیا زیادہ وقت وہ یا تو خاموش رہی یا پھر نور سے باتیں کرتی رہی۔ یاور ملک: عادل میں نے سنا ہے تم سی ایس ایس کرنے کی سوچ رہے ہو؟ میں تو کہتا ہوں چھوڑو یہ سب اور میرے ساتھ کینیڈا چلو اپنا کام ہے سکون کی زندگی ہےاور زرینہ باجی کو بھی لے جائیں گے کیوں باجی!؟؟ عادل: شکریہ ماموں میں نے یہی کہا ہے امی سے کہ اگر کامیابی نہ ملی میں آپکے ساتھ مل کر کوئی کاروبار کر لوں گا مگر پہلے ایک بار میں اپنا شوق پورا کر لینا چاہتا ہوں اور ویسے بھی یہ خواب تو میرے ابا کا ےتھا کیا ہوا جو وقت اور حالات نے انہیں یہ کرنے نہیں دیا،(اپنے باپ کا ذکر خاور ملک کے سامنے دانستہ طور پہ کیا تھا عادل نے)۔ خاور ملک: کرنے کو تو بہت سے اور کام بھی تمھارے باپ نے کیے تھے وہ سب کرنے کی منصوبہ بندی مت کر لینا،(چاہے کی پیالی میز پہ پٹختے ہوئے) وہ ناشتہ ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے،ایسے میں سب کی نظریں عادل کی طرف اٹھ گئی تھی۔ زرینہ بیگم: عادل یہ کیا حرکت تھی تم سے چپ نہیں رہا جاتا،حد کرتے ہو۔ خدیجہ: آپ کیوں ڈانٹ رہی ہیں اسکو ان کو بھی تو بچوں کے سامنے لحاظ کرنا چاہئے اب یہ چھوٹے بچے نہیں ہیں۔ عادل: مامی رہنے دیں امی کو تو بھائی اپنا ٹھیک لگے گا نا میری سائیڈ کیوں لیں گی بھلا،(عادل نے سب کا موڈ بہتر کر ے کے لیے شرارت بھرے لہجہ میں کہا) ۔ ماہم: (ہچکچاتے ہوئے) عاڈل بھائی آپکو سب ایسے ہی کہتا کے آپ فنی نہیں ہے،آپ تو اتنا جالی ہیں ہیںنا پاپا؟ عادل: کس نے کہا میں فنی نہیں ہے ٹیل می (عادل نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے پوچھا،اسکی آنکھوں میں اب بھی شرارت ناچ رہی تھی،وہ اپنا یہ ناشتہ اچھی یادوں کے ساتھ ختم کرنا چاہتا تھا) ۔ ماہم:امم یہ بات نور بولی ایم آئی رائٹ نور؟؟ نور: ماہم تم بھی نا آہہ چاچو کیوں لائے ساتح اس کو نور بیچارگی سے بولی اور ناشتہ کے خالی برتن ٹرے میں رکھ کر باورچی خا نہ کی جانب چل دی،،، خدیجہ:ارے بیٹی میری چاہے تو دیتی جاؤ،،،،
نور کی بوکھلاہٹ پہ کوئی بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکا ۔
بارہ بجے جانا ہے کچھ دیر تو بیٹھو یار اتنے سال بعد تو آج ہاتھ لگے ہو آلو میاں،یاور ماموں جو بچوں کے ساتھ ایک بچہ بن جاتے تھے،عادل کےکندھوں پہ ہاتھ رکھا اور ٹی وی لانچ کی جانب لے کر چل دیے،ارے بیٹھ جا میرےآلو یاد ہے کیسے گول مٹول سا ہوا کرتا تھا میرے پاس تصویریں ہیں ابھی تک۔ عادل: ماموں کیا کرتے ہیں میں اب بڑا ہو گیا ہوں نا،عادل نے احتجاج کرتے ہوئے مامو کو دیکھا،(عادلک نہیں چاہتا تھا ک اس کے بچپن کی بات کر کے ستایا جائے )۔ نور:چاچو رہنے دیں آپ بھی کیا باتیں لے کہ بیٹھ جاتےہیں۔ یاور: برخوردار یہ تند مزاج مجھ پہ اثر نہیں کرتا کیوں بھابھی میں ٹھیک کہ رہا نا،اثر ہوتا اگر تو میں بھائی سب سے دب کہ رہتا،(ماموں کی بات پہ ایک ساٹھ سب کی ہنسی چھوٹ گئی)۔۔۔ زرینہ: عادل بیٹا تمھارے غصہ کا یہاں کوئی اثر نہیں ہونا یہ میرا بھائی بچپن میں مار کھاتا تھا تب بھی کبھی روتا نہیں تھا،بلکہ بھائی تو آجز آجاتے تھے اس کی ہنسی سے۔۔۔۔۔ ماہم انسٹنٹ کیمرہ سے سب کی فوٹو بنا رہی تھی ،جو فوٹو عادل کے حصہ میں آئی اس میں نور عادل کی طرف دیکھ تو نہیں رہی تھی مگر وہ زاویہ ایسا تھا جیسے یہ دونوں پہلو میں بیٹھے ہوں اور نور شرماتے ہوئے سر جھکائے بیٹھی تھی جبکہ عادل اپنےماتھے پہ آئے ہوئے بالوں کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے کنگھی کر رہا تھا اور ایک عجیب سی کشش تھی جو اس تصویر میں تھی،اب ایک جملہ جو لکھنا تھا یہ کام نور کا تھا،نور نے لکھا اور عادل سے کچھ بولے بنا چلی گئی،وہیں عادل نے ایک نظر تصویر پہ ڈالی اور تحریر کو پڑھنےلگا، (لوگوں کو دیا گیا دکھ لوٹ کر واپس ضرور آتا ہے)
اچھا امی میں چلتا ہوں شام تک ہوسٹل میں پہنچ جاؤں گا،اور آپ نے زیادہ اداس نہیں ہونا بس تھوڑی ہمت کرنی ہے اور بہت سی دعا بھی۔
ہوا کے گھوڑے پہ سوار عادل اپنی ماں سے نظر ملا کر بات نہیں کر رہا تھا اسکو معلوم تھا کہ وہ جتنا بھی مضبوط ثابت کر لے خود کو مگر ماں سے دور جانا اس کے لیے بھی امتحان سے کم نہ تھا،سب کو ملتے ملتے عادل باہر کی جانب جا رہا تھا سب قطار میں کھڑے ہو کر عادل کو رخصت کر رہے تھے کوئی ہنس رہا تھا کوئی رو رہا تھا تو کوئی تمام جزبات سے عاری تھا،سب سے آخر میں نور تھی۔
عادل: اچھا نور چلتا ہوں اب تمھاری شادی میں ہی آؤں گا،اب کوئی تنگ نہیں کرے گا تمہیں چلو خوش ہو جاؤ۔۔۔
نور نے نظریں اٹھا کر دیکھا اور بولی،
شادی تو کب ہوتی کس کی ہوتی کون جانتا ہے آپ شادی کی جلدی میں کہیں امتحانات میں کوتاہی نہ کر دیں۔۔۔
عادل اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ماں کو دیکھ کر زبردستی چہرے پہ مسکراہٹ سجائے ہوے عادل جلدی سے گھر سے نکل آیا۔۔۔۔
کامیابی کیا میں اس کو حاصل کرنا چاہتا ہوں،یا بس یہ میری ضد ہے،کیا سچ میں مجھے کسی عہدے کی تمنا ہے یا ماموں کے ساتھ ٹکڑ لینےکے لیے میں یہ سب کرنے جا رہا ہوں،
عادل کی سوچوں کی گاڑی کو بریک تب لگی جب عادل کی گاڑی کے سامنے ایک چھوٹا سا گدھے کا بچہ آگیا،،،،،،آہ ہٹ جا میرے پیارے،،،،کتنا پیارا ہوتا ہے نا شروع شروع میں یہ عشق،چھوٹا سا کھوتے کا بچہ ہو جیسے،،عادل خودکلامی کے انداز میں بولا اور خود ہی ہنس دیا،،،یہ تو نور کا آخری سٹیٹس تھا فیس بک پہ،کیسی عجیب عجیب پوسٹس لگاتی ہے یہ بھی۔۔
ہوسٹل تک آتے آتے عادل کا کافی دیر لگ گئی تھی،اپنے نام کے اندراج کے بعد عادل اپنے کمرے میں آیا یہاں پہلے سے ہی دو لوگ موجود تھے وہ دونوں بھی آج ہی یہاں آئے تھے۔ فیصل درمیانے قد کاٹھ کا عادل کا ہی ہم عمر اور بہت باتونی انسان۔ کمرے میں ان دونوں کے علاوہ راجہ رزاق مکمل کتابی کیڑا اور سیاست کا شوقین۔
اگلے روز عادل فیصل اور راجہ لائبریری جا رہے تھے ،عادل حسبء عادت خاموش تھا،جبکہ فیصل رننگ کمنٹری کرتا جا رہا تھا،جس پہ کسی کا دھیان نہیں تھا،فیصل کی باتوں کو بریک تب لگتی جب وہ اپنے ساتھ لائی ہوئی نمکو جسے پڑھتے ہوئے کھایا جانا تھا اس کو چکھنے کی غرض سے آدھی ختم کر چکا تھا۔
پڑھائی کرنے کے وقت کوئی بھی ہنسی مزاق نہیں ہو گا اور نہ کوئی فالتو بات،یہ بات پہلے سے ہی تہ کر لی گئی تھی،یہ تجویز حیران کن طور پر فیصل کی طرف سے آئی تھی۔
عادل جو پڑھنے میں ہمیشہ سے ہی اچھا رہا تھا اور ان تمام کتابوں کو وہ دوسری مرتبہ اور چند ایک تو ایسی تھی کے بنا دیکھے اب بتا سکتا تھا کے کدھر کیا غلطی کی گئی ہے لکھنے میں ،وہ مکمل توجہ دے کر پڑھائی کر رہا تھا تب اچانک اسے اپنے ارد گرد کے ماحول میں سرگوشیوں کی آوازیں آنے لگی،عادل نے بیزاری سے سر اوپر کیا اور بائیں جانب دیکھا جہاں سے راجہ غائب ہو چکا تھا،
تب ہی اچانک عادل کے کندھے پہ دہپ سے ہاتھ آگیا،
راجہ: عادل ان سے ملیں یہ ہیں ہمارے گروپ کی باقی ماندہ عوام جن سے ہمارا ملنا یہیں ہوا کرے گا،یہ ہیں کشمالہ اور یہ رہی شزا۔
شزا ایک قبول صورت لڑکی اور ماڈرن لباس زیب ء تن کر کے بھی کوئی خاص کشش نہیں رکھتی تھی،جبکہ دوسری طرف کشمالہ دراز قد کی اور غزالی آنکھیں اور ہونٹوں پر تبسم۔
تعارف کے بعد دوبارہ سے پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ سے شروع ہو گیا تھا،اور سب نے ایک بات پہ اتفاق کیا تھا کہ واپس جانے سے قبل سب باری باری ہر روز لیکچر دیا جائے گا اور سب سے پہلے عادل کی ہی باری تھی،عادل کے لیے یہ سب نیا نہیں تھا وہ کالج کے زمانے سے یہ سب کرتا آیا تھا اور اتفاق سے ہر مرتبہ نمبر بھی عادل کے سب سے بہتر ہوتے تھے۔۔۔
شزا کے آنے سے فیصل کی بیوقوفیاں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی تھیں جب کے راجہ اپنی علمی برتری جتانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
لائبریری سے نکلنے کے بعد سب کی منزل کوئی ایسا پارک یا کوئی ایسا کافی ہاؤس تھا جہاں سب آرام سے بیٹھ کر بات کر سکیں اور ٹاپکس ڈسکس کیے جاسکیں۔
گھر کی تمام رونقیں عادل اور باقی سب مہمانوں کے چلے جانے سے ختم ہو کر رہ گئی تھی نور بھی پڑھائی میں مصروف ہوگئی تھی لیکن وہ اندر سے گھٹتی جا رہی تھی،جب جب علی سے بات کرتی اس کو نہ جانے کیوں رونے کا جی چاہتا تھا۔
عادل کے علاوہ نور کے خیالوں تک میں کوئی نہ آیا تھا اور اب ایک دم سے وہ تنہا ہو گئی تھی۔
پھوپی کی طرف جب بھی جاتی تھی دل جیسے بےتاب ہوتا تھا کہ کہیں عادل چھپ کر دیکھ نہ رہا ہے یہاں۔
نور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کمزور ہوتی جا رہی تھی آج بھی ناشتہ کی میز سے اٹھتے ہوئے وہ گر جاتی اگر بھائی پیچھے نہ کھڑے ہوتے۔
وہ جاتے جاتے نور کو چھٹی کرنے کو کہ گئے اور یہ بات بھی بتائی کہ آج شام کو نور کا مکمل چیک اپ کروانے کو لے جاؤں گا جس پہ کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا ۔۔۔۔۔
بھابی:نور آجاؤ بھائی آگئے ہیں تمھارے (بھابھی نے بیزاری سے کمرے کے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی آواز لگائی اور چلی گئی)۔
دوسری طرف عادل کے اوپر کشمالہ کی شخصیت خوب اچھی طرح سے اثر انداز ہو رہی تھی پہلی ملاقات سے لےکر اب تک ان دونوں میں کچھ زیادہ بات نہیں ہوئی تھی مگر عادل کو کشمالہ کا مزاج بہت الگ لگا تھا،وہ پہلی لڑکی تھی جس کی طرف سے عادل کو ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے لیے وہ خود جانا جاتا تھا ۔۔
چیلنج مت کر راجہ ۔۔۔
راجہ: یار مجھے کیا ضرورت ہے میں تو بس یہ کہ ہا ہوں کے کشمالہ ہی ہم سب سے بہتر نمبر پہ آئے گی اور عادل کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گی اور وہ ہے بھی بہت محنتی۔
عادل راجہ اور فیصل کی باتیں بہت سکون سے سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کوئی ایک دم سے ہماری زندگی میں آکر اتنا گہرا اثر کیسے ڈال سکتا ہے۔ شام کو جب سب ڈسکشن کے لیے جمع ہوئے تو کشمالہ اور عادل کو چھوڑ کر راجہ اور شزا کھانے پینے کو کچھ لینے چلے گئے۔ فیصل جو دن بھر سے کھانے میں مصروف تھا اب رفاع ء حاجت کی غرض سے غائب ہو چکا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کے عادل اور کشمالہ تنہا تھے،کشمالہ اضطراب کے عالم میں اپنے ہاتھوں سے کھیل رہی تھی وہ بار بار دور سڑک پہ بے وجہ ہی نظر ڈالتی اور پھر اپنے ہی ہاتھوں کو دیکھنے لگتی۔
عادل: لگتا ہے آپ کو یہاں میرے ساتھ اکیلے بیٹھنے میں کوئی پرابلم ہے تو میں اٹھ جاتا ہوں پاس سے،(عادل نے اپنا لہجہ بے حد نرم کرتے ہوئے سوال کیا)
کشمالہ: نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ ہوں یا باقی سب بھی مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا مجھے بس فکر ہو رہی ہے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اور مجھے آج جلدی گھر بھی جانا ہے،(مسکراتے ہوئے کشمالہ نے جواب دیا)۔
اس جواب کے بعد عادل میں کچھ ہمت بڑھی اور آپس میں سوال و جواب کا آغاز ہوا،جس سے عادل کو معلوم ہوا کہ کشمالہ اپنے پانچ بھائیوں کی سب سے لاڈلی اور اکلوتی بہن ہے،والد کے انتقال کے بعد سے بھائیوں ںۓ اپنی بہن کو اپنی اولاد کی طرح پالا ہے اور اب والدہ کی بیماری کی وجہ سے کشمالہ کو گھر کی پریشان لگی رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ عمومً چپ رہتی تھی۔
عادل نے بھی اپنا مختصر سا تعارف کروایا اور یوں ان دونوں کے درمیان حائل برف کی دیوار پگھلنے لگی ۔
کشمالہ اور عادل کی تیاری مکمل عروج پر تھی اور ساتھ ہی عادل کے جزبات بھی عروج پہ تھے،اس گروپ میں اگر کوئی اب تک تنہا رہ گیا تھا تو وہ فیصل تھا جس کو نہ پڑھائی میں لگاؤ تھا نہ ہی کسی لڑکی سے دوستی کی خواہش،وہ آزاد سا انسان تھا ماں باپ کا اکلوتا اور دھیاتی شخص۔ نہ دولت کی کمی نہ ہی کوئی روکنے والا۔
کشمالہ: عادل آپ نے نوٹس تیار کر لیے ہیں اپنے؟
عادل:دیکھو آپ سے اب تم تک آبھی جاو،اب بھی اگر آپ جناب کی تو میں نے جواب نہیں دینا،(عادل چاہتا تھا کہ وہ اس سرد مہری کو ختم کرے اور بے تکلفی سے بات چیت کر سکے)۔
یہ وہی عادل تھا جو نور کے بے تکلف ہونے کو کبھی بھی پسند نہیں کرتا تھا،دل بھی کیا عجیب شیے ہے جب کسی پہ آجائے تو ہر حد سے گزر جاتا ہے وہی سب اچھا لگنے بھی لگتا ہے جسے تمام عمر انسان فالتو کے چونچلے کہتا رہتا ہے،کبھی کبھی کوئی شخص ہماری ذات میں چپکے سے شامل ہو جاتا ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا اس بات کا۔ جب تک کہ ہمیں اس کی طرف سے دکھ نہ ملے،اپنی طرف سے ہم کیا کچھ گمان کر لیتے ہیں نا کچھ ایسا ہی عادل کے دل و دماغ میں بھی ہو رہا تھا۔
وہ بے اختیار تھا اپنے جزبات کو لے کر ۔۔ پڑھائی کے علاوہ بھی عادل اور کشمالہ میں ملاقاتیں ہونے لگی تھی،وقت کی رفتار جیسے مدھم ہو گئی تھی،عادل کی توجہ پڑھائی سے بھی زیادہ کشمالہ پہ ہونے لگتی مگر جلد ہی وہ اپنے مقصد اور اپنے خواب کے حصول کے لیے پھرسے پڑھائی کرتا،اس تمام عرصے میں دو ایک بار ہی وہ گھر گیا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور بیٹی دیکھو تو کون آیا ہے نیچے آجاؤ جلدی سے۔ نور ماں کی آواز سنتے ہی چونک گئی، کون آیا ہے عادل وہ زیر لب بول کرمسکرا دی اور دوپٹہ سنبھالتی ہوئی نیچے کی جانب لپکی۔ دل کی بے ترتیب دھڑکنوں اور تیز سانسوں کے ساتھ سیڑھیوں سے اترتی ہوئی نور سامنے ٹی وی لانچ میں بیٹھے ہوئے علی کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ اسکے ہونٹوں پہ بہت دنوں بعد آنے والی مسکراہٹ پھیکی پڑنے لگی۔ ایک لمحہ کو نور یہ بات فراموش کر بیٹھی تھی کہ اسے اب عادل کے نہیں بلکہ علی کے آنے کا انتظار کرنا ہوگا ۔ علی جو آج ہی یونٹ سے چھٹی پہ آیا تھا اور اپنی امی کے کہنے کے مطابق پہلے نور کو ملنے اور اسے اپنے ساتھ گھر لے کر جانے کو آیا تھا۔
علی کی امی نے ایک بہت خاص سی دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا،جس میں انہوں نے آج اپنی ہونے والی بہو کا تعارف اپنے خاندان کے باقی لوگوں سے بھی کروانا تھا۔ جو منگنی کے موقع پہ کسی مجبوری کے تحت شامل نہیں ہو سکے تھے۔ علی جو اب تک وردی میں تھا یہ خاکی رنگ علی کی رنگت کے حساب سے اس پر خوب جچتا تھا۔
عادل کب تک آئیں گے واپس اگزیمز بھی سٹارٹ ہونے ہوالے ہیں اور اب آپکو گھر جانے کا خیال آگیا ہے۔
کشمالہ نے بینچ پہ بیٹھتے ہوئے ناگواری سے عادل کو دیکھا!
میں بس ایک ہی دن میں آجاؤں گا تم کو کیوں اتنا برا لگ رہا میرا جانا عادل نے کشمالہ کو ستاتے ہوئے سوال کیا اور ہاتھوں میں پکڑی ہوئی کتاب کو اپنی گود میں رکھ لیا۔ بھلا برا کیوں لگے گا مجھے بس ایسے ہی کہ رہی ہوں کہ اتنی تیاری کے بعد اچانک مومنٹم خراب کرنے والی بات ہوئی یہ تو۔
(کشمالہ نے نظریں موبائل فون کی سکرین پر جمائے ہوئے سرد مہری سے جواب دیا)۔ عادل کو ایسے لہجہ اور اس جواب کی قطعی امید نہیں تھی وہ حیرانی سے کشمالہ کو دیکھنے لگا،(اپنی خفت مٹانے کے لیے جواب میں عادل نے طنز کرتے ہوئے کہا) ارے کمال ہو گیا ہارنے کو بہت بے تاب ہو رہی ہو صبر کر لو ابھی۔
مجھے کیا ضرورت ہے مقابلہ کی ہم ایک کروپ ہیں اور ایک دوسرے کی کامیابی کی فکر ہونی ہی چایئے،کیوں کیا میں غلط کہ رہی ہوں؟
(پہلی بار کشمالہ نے نظریں موبائل سے ہٹا کر جواب دیا،جواب بھی ایسا جس کے بعد مزید کسی بات کی گنجائش نہیں رہتی)۔ عادل کے لیے کشمالہ کا رویہ ساون کے مہینے جیسا تھا کبھی گھٹن کبھی تیز بارش اور کبھی دونوں کا ساتھ حبس زدہ لگتا تھا،،، مگر عادل کے لیے کشمالہ کی باتیں ساحل ء سمندر کے ہوا کے جھونکوں کے جیسی تھی جن میں تازگی تھی وہ ایسی ہی دوستی اور پیار کی خواہش کرتا تھا جس میں لڑکی موم کی گڑیا نہ ہو ۔
نور تیار ہونے لگی تھی ابھی الماری کھولی ہی تھی جو پہلی ڈریس سامنے آئی اس کو دیکھتے ہی نور کے جیسے ہاتھ رک گے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور جلدی کر لو مجھے اور بھی بہت سے کام کرنے ہیں میں دن بھر تمھارے ساتھ یوں بازاروں میں نہیں گھوم سکتا،،، نور دل ہی دل میں خوش تھی جیسے اس سے خوش نصیب کوئی دوسری لڑکی اس کرہ عرض پر ہو ہی نہیں سکتی۔سب کیسے بدل چکا تھا،یہ وہ لباس تھا جسے عادل نے نور کے لیے پسند کیا تھا جبکہ نور کی پسند کچھ الگ تھی مگر صرف عادل کی خوشی کے لیے یہ خرید لیا تھا۔ اور آج سب الگ تھا،نہ وہ خریدنے والا نہ ہی جس کے لیے لیا تھا نہ وہ جس کے سامنے پہننے کی خواہش تھی۔ کیسے ہماری یادیں چھوٹی چھوٹی چیزوں سے جڑی ہوتی ہیں وقت اور لوگ بدل جاتے لیکن یادیں کاش ان کو بھی بدلہ جا سکتا نا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور جلدی کر لو علی انتظار کر رہا ہے نیچے۔ نور کے خیالات میں خلل انداز ہونے والی یہ آواز بھابھی کی تھی جو کمرے میں داخل ہوتے ہی ضرورت سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بولیں تھی۔ بھابی بس ہونے ہی لگی تھی نور نے زبردستی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ بھابی اس کی اداسی کو بھانپ لیں اور اس بات کو لے کر پھر سے کوئی نیا ڈرامہ شروع ہو جائے جیسے پہلے بھی بھابی کی وجہ سے ہی نور کو بابا سے ڈانٹ سننا پڑی تھی۔ نور کاسنی رنگ کے جوڑے میں بہت پیاری لگ رہی تھی وہ جیسے جیسے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی تھی علی کی نظریں اس پہ جم چکی تھی ۔علی جو اپنی منگیتر کے مر جانے کے بعد آج پہلی بار ماں کے کہنے پر نئی منگیتر کو لینے آیا تھا۔۔
چلیں علی؟ نور علی سے کچھ ہی فاصلہ پہ کھڑی تھی اتنا کہ علی چاہتا تو ہاتھ آگے کر کے نور کے ماتھے پر آئی ہوئی الجھی ہوئی لٹ کو سلجھا سکتا تھا، لیکن وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کر سکتا تھا جس سے وہ خود یا نور شرمندگی محسوس کریں۔
نور اور علی پورچ کی جانب جا رہے تھے تب ہی عادل کی گاڑی مین گیٹ سے داخل ہوئی، نور کی نظر غیر ارادی طور پہ عادل کی گاڑی کی جانب اٹھ گئی،اس گاڑی کو دہکھتے ہی نور کے اندر جیسے بہت سے طوفان اٹھنے لگے تھے۔
عادل اور علی کے مصافحہ کرنے کے دوران نور کی نظر جیسے عادل پر سے ہٹ نہیں رہی تھی،
کیسی ہو نور؟
عادل نے اچانک سے نور سے مخاطب ہوتے ہوئے نظریں ملاتے ہوئے سوال کیا۔
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں، نور نے نظریں جھکا لی تھی، وہ کبھی بھی عادل کی نظروں کا سامنا نہیں کر پائی تھی، عادل کی آنکھوں میں ہمیشہ سے نور کو ایک خاص سی چمک محسوس ہوتی تھی۔
اچھا عادل آبھی ہم چلتے ہیں رات کو ملتے ہیں ابھی تھوڑا جلدی میں ہیں ہم، تمھیں بھی دعوت پر مدعو کرتا لیکن ابھی ابھی گھر آئے ہو اور تھکن بھی ہو گی اس لیے میں مجبور نہیں کرتا۔علی نے خود سے ہی جواز پیش کرتے ہوئے سب کچھ کہ دیا،علی کی اس ہنس مکھ طبیعت نے عادل کو بھی ہنسنے پہ مجبور کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی اور نور کے جانےکے بعد عادل سب سے پہلے ماموں اور ممانی سے ملا۔ ماموں کے سرد مزاج سے وہ خوب واقف تھا اور ممانی کا بے پناہ پیار اور لاڈ ہمیشہ سے ہی ازالہ ہوتا تھا ماموں کی بے رخی کا۔
امی دیکھیں کون آیا ہے، کچن میں کام کرتی ہوئی زرینہ بیگم کے ہاتھوں سے پلیٹ گرتے گرتے بچی،
اوہ میرا بچہ میرا عادل بیٹا کب آئے بتا دیتے میں کچھ پکا ہی لیتی تمھارے لیے، میرا بچہ کتنا کمزور ہو گیا ہے۔
زرینہ بیگم دوپٹہ کے پلو سے ہاتھ خشک کرتے ہوۓ اپنے بیٹے کے گلے لگ گئی وہ اپنے بیٹے سے کبھی بھی ایک ساتھ اتنے دن دور نہیں رہی تھی، عادل کی ماں کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے وہ بے اختیار اسکو چوم رہی تھی۔
عادل کے ہونٹوں پے مسکان تھی اور وہ بھی اپنی ماں کی آغوش میں کسی سہمے ہوئے بچے کی طرح چھپ گیا تھا ،
دونوں ماں بیٹا نہ جانے کتنی دیر ایسے ہی ایک دوسرے سے ایسے ہی گلے لگ کر ملتے رہے۔
امی یہ علی کب آیا؟
عادل ہاتھ منہ تولیہ سے صاف کرتا ہوا کھانے کی میز کی طرف آرہا تھا، تب اچانک سے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی عادل رک گیا موبائل کو دیکھا تو اسکرین پر کشمالہ کا نام جگمگا رہا تھا عادل ماں کا جواب سننے کے بجائے فون کانوں سے لگائے لان کی جانب بڑھنے لگا۔
آگ لگے ان فونوں کو تو بچوں کو کھانے کی بھی ہوش نہیں رہی اب تو،عادل یہاں آؤ کھانا کھا لو پہلے پھر بھلے ساری رات فون سے چپکے رہنا بیٹا،،،
جلدی سے آجاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور عادل اور آپکی عمروں میں کتنا فرق ہے؟؟
میں اور میری کزن آپ جانتی ہی ہوں گی میرے بارے میں،علی کی آواز میں دکھ عیاں تھا وہ ونڈ سکرین سے مسلسل باہر دیکھ رہا تھا جبکہ نور اس اچانک سوال سے جیسے چونک سی گئی تھی۔
ہم میں دوستی بہت گہری تھی ہماری عمروں میں فرق چھ ماہ کا تھا، اور یہ پہلا رشتہ تھا جو ہمارے خاندان میں بچپن میں ہی تہ کر دیا گیا تھا، اس پہ ہمیں کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔
اوہ میں بھی نا میں تو بس عمر کا فرق جانا چاہتا تھا ایسے ہی، علی نے بات بیچ میں ہی کاٹ دی اور نور کی طرف دیکھنے لگا۔
نور علی کی باتیں دل و جان سے سن رہی تھی اس کو لگا تھا کہ کوئی تو ایسا ملنے جا رہا ہے جو دل کی باتیں سنے گا،
مگر یہ کیا ہیہ رک کیوں گیا ہے علی پلیز بولیں نا، نور کہنا تو یہی چاہتی تھی مگر ایک لفظ بھی ادا کر نہ پائی ۔۔
میں اور عادل میرا مطلب ہے ہماری عمروں میں دو سال کا فرق ہے، نور نے جیسے خیالوں میں ڈوبے ہوئے جواب دیا۔
نور کی شرکت نے محفل کو جیسے لوٹ ہی لیا تھا ہر کوئی نور کے آگے بچھے جارہا تھا، سب نے کھلے دل سے نور کا استقبال کیا تھا نور کو وہاں ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے ہی گھر میں ہے ۔علی کی امی اپنی ہونے والی بہو کا تعارف تمام خاندان کے لوگوں اور تعلق دار لوگوں سے کروا رہی تھیں۔ جبکہ علی بے حد تھکاوٹ محسوس کرنے کے باوجود بھی نور کو کمپنی دے رہا تھا۔ امی میں اب نور کو واپس چھوڑ آتا ہوں مجھے سخت نیند بھی آرہی ہے۔
علی نے ماں کے کان میں سرگوشی کی۔
ہاں کیوں نہیں نور بھی تھک گئی ہو گی، نور ابھی اس دعوت سے جانا تو نہیں چاہتی تھی کیونکہ بہت دن بعد وہ کھل کر باتیں کر رہی تھی وہ ہنس رہی تھی۔ علی کی چھوٹی بہنوں کے ساتھ وہ بہت اچھا محسوس کر رہی تھی ۔
لیکن علی کی حالت دیکھ کر نور کو رحم آگیا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی گھر آنے کو تیار ہو گئی۔ گاڑی تک آتے ہوئے نور کے جوتے کی ہیل ٹوٹ گئی وہ بری طرح سے گرنے سے بچی،اگر آگے علی نہ چل رہا ہوتا تو نور منہ کے بل زمین پہ آجاتی۔ گرتے گرتے نور نے علی کا سہارا لے لیا
آئی امی جی، ، ،،،، ،
علی اس اچانک افتاد سے چونک گیا اور ایک دم سے نور کی کلائی پکڑ لی۔ نور پاؤں کی موچ اور جوتی کا ٹوٹنا تو بھول گئی مگر علی کی گرفت میں کلائی آتے ہی وہ سسک کر رہ گئی۔
علی نے لاشعوری طور پر نہایت ہی سختی سے کلائی دبوچ لی تھی، علی میرا ہاتھ،،،،،
نور نے رونی صورت بناتے ہوئے علی کو دیکھا اس کی آواز سے تکلیف واضع تھی۔۔۔
علی نے فوراً سے نور کا ہاتھ چھوڑ دیا اور یہی دوسری غلطی تھی علی کی جس سے نور لڑکھڑاتے ہوئے لان کی گھاس پہ گرپڑی،،،،،
آہہہ علی کیا کرتے ہیں نور نے غصہ سے علی کو دیکھا۔۔۔۔۔
اوہ ایم سوری میں وہ آپ نے کہا چھوڑ دو تو میں نے بھی ایک تو میں بھی نا کیا کروں ہوں تو فوجی ہی نا۔ جو پہلا حکم ملتا ہے ہم مان لیتے ہیں نا،علی نے اپنی طرف سے ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کی،اور نور کے پاس ہی بیٹھ گیا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرنا چاہئے۔
نور نے اپنا جوتا اتار دیا اور کھڑی ہونے کی کوشش کرنے لگی مگر پاؤں کے درد نے ایسا ہونے نہ دیا نور کی مشکل کا اندازہ کرتے ہوئے علی نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے نور کو مدد کی پیشکش کی، یقیں کریں اب ہلکا سا تھام لوں گا ہاتھ درد نہیں ہو گا سچی میں۔
نور علی کے اس معصوم سے انداز پہ مسکرا دی اور اپنا ہاتھ علی کے ہاتھ میں دے دیا گاڑی تک آتے آتے نور درد اور شرم سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی تھی اس نے کبھی کسی لڑکے سے سہارا لینا تو دور کبھی کسی سے ہاتھ بھی نہ ملا تی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔