عادل کبھی باہر آکر سب کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کرو۔ نور نے اندر آتے ہی اپنی فل سپیڈ بولنا شروع کر دیا۔ نور جاؤ یہاں سے کبھی تو دستک دے کر آیا کرو میرے کمرے میں کوئی ادب و آداب سیکھ لو اب تو۔ نور نے گھور کر عادل کو دیکھا اور زیر لب بہت آہستا سے بولی جیسے تم دستک دے کر آے دل میں میرے مگر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔ عادل جیسے آپنے ہی خیالوں میں گم تھا وہ نور کی بات سن ہی نہ پایا تھا۔ عادل نیچے سب بلا رہے ہیں اور اب تم نہ آئے تو تمھیں لینے کو بابا ہی آیئں گے۔ اتنا کہ کر پیر پٹختی ہوئی نور نیچے چلی گئی۔ بڑے بابا اوہ نہیں ان کو یہاں نہیں آنا چاہئے یہ ہی سوچ کر عادل نے بستر سے چھلانگ لگا دی اور منہ ہاتھ دھو کر نیچے چلا آیا ۔ عادل ایک بائیس سال کا لڑکا تھا جس کے والد کا انتقال عادل کی پیدائش کے دن ہی ہو گیا تھا۔ تب سے لے کر وہ اپنے ماموں کے ساتھ ہی رہ رہا تھا عادل کی ماں کے نام عادل کے ابا نے شادی کے بعد شہر کے پوش علاقے میں دو دکانیں خرید کر اپنی پیاری بیوی کے نام کر دی تھی تا کہ بیوی کو کبھی بھی کسی سےبھی مانگنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ چاہئے یہ مںگنا ایک بیوی کا شوہر سے ہی کیوں نہ ہو۔
گھر کے جس حصہ میں عادل اور اس کی امی رہتے تھے وہیں ان کے ساتھ عادل کی نانی بھی رہتی تھیں،اپنی بیٹی اور نواسے کی تنھائی میں ایک بہت اہم ہستی جو ہمیشہ سے دونوں ماں بیٹے کی دلجوئی کرتی تھی۔
آج ان کے چہلم کی دعا تھی،نور اس لیے ہی تو عادل کو بلانے کو نہ چاہتے ہوئے بھی چلی آئی تھی۔
پھلوں سے بھری ٹرے کو دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے کچن سے برامدے تک آتے جاتے عادل نور سے دو مرتبہ ٹکرانے سے بچا تھا
اور ادھر نور کے پائوں جیسے زمین پہ ٹک نہیں پا رہے تھے۔۔۔
عادل اور نور کی یوں تو بہت دوستی تھی مگر بس ایک کزن کی طرح سے مگر نور کے لیے عادل کچھ خاص تھا اور ہمیشہ ہی سے رہا بھی تھا۔
عادل یوں تو سب کو ہی پیارا تھا مگر اس کی خاموشی کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔
وہ جب بھی خاموش ہوتا گھر بھر میں جیسے قبرستان کا سا گماں ہونے لگتا تھا۔
عادل میں بھی مارکیٹ جاؤں گی پلیز رکنا،
نور سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی نیچے آرہی تھی وہ نیلے جوڑے میں کوہ قاف کی پریوں جیسی لگ رہی تھی نیلا رنگ عادل کی کمزوری تھا،نیلا جیسے آسمانوں کی وسعت جیسے اجلا ذہن جیسے پاکیزگی۔
ایک لمحہ کو عادل کی سانس اور دھڑکن جیسے دونوں ہی تھم چکی تھی،وہ ہوش میں واپس اپنی ماں کی آواز سن کر آیا جو بار بار سامان کی لسٹ میں کسی نہ کسی چیز کا اصافہ ہی کر رہی تھی۔
عادل: امی ایک ہی بار کیوں نہیں بتاتی آپ،منہ بسورتے ہوئے دہپ سے صوفہ پہ بیٹھ گیا۔
اتنے میں نور بھی آچکی تھی اور اپنی پھوپھی کی وکالت کرتے ہوئے کاغذ اور قلم عادل کے ہاتھوں سے لے کر بولی،
نور:زرینہ پھوپھی آپ ان ماھراج کو کام ہی کیوں کہتی ہیں میں ہوں نا!
آپ بس مجھے ایک آواز دیں میں نہ آئی تو نام بدل دیں ہاں نہیں تو اور ڈائنگ ٹیبل پہ رکھے خشک میواجات کو کھانے لگی۔
عادل: جی جی شیطان کو یاد کریں وہ فوراً سے آجاتا ایسے ہی تم بھی، اس سے پہلے کے عادل کی بات مکمل ہوتی کچن سے زرینہ بیگم کی غصہ سے بھری آواز سنائی دی۔
اب جاؤ دونوں دیر مت کرنا اور گاڑی آہستہ چلانا اور عادل میرا بچہ نور کو تنگ بھی نہیں کرنا،
زرینہ بیگم جتنی دیر میں یہ سب باتیں کرتی اور دوپٹہ کے پلو سے ہاتھ صاف کرتی کرتی باہر آئیں تو دیکھتی ہی رہ گئی،ارے یہ کہاں چلے گئے اففف خدایا یہ دونو بھی نا۔۔
عادل کو اپنی ماں کی گاڑی کے معاملے میں روک ٹوک کبھی بھی اثر نہیں کرتی تھی،وہ ڈرئیونگ کرتے ہوئے گاڑی کو جہاز سمجھ کرچلاتا تھا ۔
اور ایک تھی نور جسے چلتے پنکھے کے پڑوں کو دیکھ کر بھی چکڑ آنے لگتے تھے۔
عادل تم کو کبھی کسی سے دوستی کرنے کی خواہش ہوئی ہے؟ نور نے جہجکتے ہوئے آخر سوال کر ہی دیا۔
ہوں مجھے،،،،،،،،نہ نہیں نو کبھی بھی نہیں۔
مختصر سے جواب کے بعد عادل گاڑی سے باہر دیکھنے لگا اور اشارہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا اور دل ہی دل میں وہ یہ دعا بھی کر رہا تھا ( اللہ جی پلیز اب یہ کوئی بات نہ کرے میں اسکو دیکھتا نہ جانے کیا ہو رہا ہے آج پلیز بچا لیں نا،،،،،
نور اس روکھے سے جواب کے بعد بھلا کب خاموش رہنے والی تھی۔ غصہ سے جل بھن کر رہ گئی اور بولی،،،، ہاں ہاں بہت سپر ہیومن ہو نا تم! جو دوستی نہیں کی کسی سے، قسم سے کر لیتے نا تو کریلے جیسے تو نہ ہوتے نا کم از کم۔۔۔۔
کیا کیا کیا کہا تم نے م ممم نیں اور کریلا؟ پھر سے کہنا ذرا ایک بر بس، وہ اپنی تمام تر کوشش کر کے غصہ چھپانے کی کی تگدو کر رہا تھا اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کر چکا تھا ۔۔۔
ہاں تو وہ ہی تو ہو آنکھیں نچاتے ہوئے بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ بولی۔
اس سے پہلے کے نور کا یہ وار پورا ہوتا گاڑی کو جیسے کسی نے حوا کے دوش پہ سوار کر دیا تھا
ایک زار دار جھٹکا اور نور کی چیخ،،،،،،،، عادل آہستی پلیز وہ جیسے رو دینےکو تھی۔۔۔۔
ہاں میں کرتا آہستہ میں تو کریلا ہوں نا؟ یہی کہ رہی تھی نا؟ اب بول بچووو، عادل بھی اپنی ضد کا پکا تھا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر یقین رکھتا تھا۔۔۔۔۔وہ دل ہی دل میں ہنس رہا تھا نور کی بےبسی پہ، وہیں ساتھ میں نور کی نمناک آنکھیں آج پھلی بار بے چین کر رہی تھی۔ ۔۔
عادل نے گھر قریب آتے ہی گاڑی کی رفتار کم کر دی تھی۔۔۔۔
عادل:چلو اب اتر بھی جاؤ گھر آگیا ہے۔عادل نے لاپروائی کے ساتھ کہا۔
نور: آپ جائیں میں آجاؤں گی تھوڑی دیر میں۔نور نے سر جھکا کر جواب دیا۔
مجھے گاڑی لاک بھی کرنی ہے کھلی تو نہیں چھوڑ سکتا اب، ویسے ہوا کیا ہے؟ ابھی تک تو ٹھیک تھی،عادل نے بےزاری سے سوال کیا۔
نور: آپکو کیا فرق پڑتا ہے،کوئی کیا ہے اور کیا نہیں،،،،نور آنکھوں میں آنسو لیے لبوں پہ پھیکی سیی مسکان لیے گاڑی سے اتری اس کی ٹانگوں میں شدید کپکپاہٹ ہو رہی تھی وہ اب تک نارمل نہیں ہو پائی تھی اس کو چکر آرہے تھے مگر وہ ہمت کر کے گھر ک اندر دیواروں کا سہارا لیے چلی گئی۔
عادل ڈرئیونگ سیٹ سے سر ٹکائے اوسکو دیکھتا رہا،وہ چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد کرنے کو باہر نہیں نکلا تھا،
گاڑی سے سامان نکال کر پہلے بڑے ماموں کی طرف چھوڑنے کے بعد وہ اپنا سامان لیے گھر کی پچھلی طرف ماں کے پاس جا رہا تھا وہ بیچین ہو رہا تھا آنسو جو کسی بھی مرد کی کمزوری ہوتے ہیں وہ اپنا وار کر چکے تھے مگر
ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ عادل کو اپنے کیے پہ پشیمانی ہو رہی تھی ۔۔ عادل زیادہ دیر تک ندامت محسوس کرنے والو میں سے نہیں تھا اس کا ذہن چکی کے پاٹ تھا جو بس گھومتا ہی رہتا تھا۔
نور بیٹی باہر آجاو اور اپنی پھوپی زرینہ کی طرف جا کر کہ آو بیٹی کہ فاروقی صاحب کے بھائی کی ڈیتھ ہو گئی ہے وہاں چلنا ہے جلدی سے آجائیں۔
نور جو کل شام سے اپنے کمرے ہی میں بند تھی،رو رو کر آنکھیں لال بھبوکہ ہو چکی تھی۔
نور کی دل کی دھڑکنیں اب تک نارمل نہیں ہوئی تھیں وہ اب تک شام ہونے والے اس حادثے کو نہیں بھول پائی تھی۔
کوئی کیسے اتنا پتھردل ہو سکتا ہے،ضد میں وہ یہ تک بھول گیا تھا کہ اس کے ساتھ سفر کرنے والی کی جان بھی جا سکتی ہے۔
امی کتنا تیل لگائیں گی سر میں میرے،امریکہ مجھ پہ حملہ کر دے گا اتنا تیل دیکھ کر۔
عادل بیٹا اگر تم خود سے خیال رکھو نا اپنا تو یہ سب کام مجھے نہ کرنے پڑیں۔
میں تو کہتی ہوں اپنے ماموں کے ساتھ ان کے کاروبار میں ہی شرکت کر لو کچھ سرمایہ تو سیونگ آکاونٹ میں رکھا ہی ہے نا اور کل کو پھر نور کو بھی تو تمھارے،،،،، اس سے قبل زرینہ بیگم کی بات مکمل ہوتی عادل نے بات کاٹ دی۔
امی بڑے ماموں کے ساتھ تو سوچیں بھی نہیں نا کہ میں کاروبار کروں گا وہ سیدھے منہ بات بھی کب کرتے ہیں آپکو تو چھوٹے ماموں کی اور نانو کی وجہ سے انہوں نے یہاں رہنے دیا تھا ورنہ ہم نہ جانے کہاں دھکے کھاتے رہتے،ویسے بھی امی مجھے سی ایس ایس میں ایک بار کوشش کرنے دیں اگر میں کامیاب نہ ہوا تو بڑے نہیں مگر چھوٹے ماموں کے ساتھ کاروبار کر لوں گا ،
اور امی یہ نور والا قصہ تو رہنے ہی دو آپ ۔
نور کے ہاتھ کانپنے لگے روہانسی ہو کر بولی پھوپھی جان یہ امی نے بھجوایا ہے حلواہ اور کہ رہی ہیں کہ فاروقی صاحب کے بھائی کی ڈیتھ ہو گئی ہے آپ آجائیں تو چلتے ہیں۔
نور پھپو کے جواب سے بیشتر ہی وہاں سے چلی آئی اس کی آنکھیں برسات کی مانند برسنے لگی تھی وہ دیوار کا سہارا لے کر کھری ہو گئی اور خود کو سمبھالنے لگی۔
زرینہ: کیا ہو گیا میری بچی کو؟یہ کیا حالت کر رکھی ہے نہ مجھ سے ملنے آئی ہو اتنے دنوں سے۔
نور:پھپو بس ایسے ہی دل نہیں کرتا اب میں تو بس یوں ہی وہ سمسٹر ختم ہوا ہے جب سے کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا،(نور اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھنے لگی)۔
خدیجہ (نور کی ماں) پاس آکر بیٹھیں اور چاول صاف کرتے ہوئے بولیں، زرینہ عادل کب تک آئے گا واپس نور کے ابا تو ہاتھوں پہ سرسوں جمانے لگے ہیں وہ تو نور کی،،،،،،ایسےکیسے کر سکتے ہیں بھائی صاحب اماں یہ فیصلہ کر گئی تھی تو بھائی کیسے یہ سب،زرینہ بیگم کو تو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔
نور: میں بابا کی مرضی کے خلاف نہیں جاؤں گی امی یہ بات یاد رکھیں آپ۔
عادل چار دن بعد جب واپس آیا تو گھر میں لگی لایٹنگ دیکھ کر حیران ہی رہ گیا۔
امی یہ کیا ہو رہا ہے کس کی شادی ہو رہی ہے؟
وہ ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر حیران رہ گیا،امی آپ رو کیوں رہی ہو؟ میں آگیا ہوں نا واپس آپ رو نہیں نا پلیز کیا ہوا ہے میں ابھی تو بس داخلہ اور اکیڈمی کے لیے گیا اور آپ کی یہ حالت ہے اگلے چھے ماہ کیسے رہیں گی؟
زرینہ: بیٹا مجھے تمھاری جدائی کیا دکھ دے گی جو دکھ ایک بار پھر سے میرے بھائی مجھے دے رہے ہیں،میرے بچے تم ہمیشہ سے مصیبتوں میں ہی رہے ہو میرا بچہ۔
فاروقی صاحب کے بھائی کے مرنے کے بعد ان کی بھابھی اپنے بیٹے کی جلد از جل شادی کر دینا چاہتی تھی،فاروقی صاحب کی بیٹی ارج جو ان کے بھتیجے علی سے منسوب تھی وہ گزشتہ برس ٹرین کے حادثے میں مر گئی تھی۔اس خاندان نے ایک ہی سال میں دو جنازے اٹھائے تھے وہ خوشیوں کو ترس رہے تھے ایسے میں فارقی صاحب کو اپنے دوست کی بیٹی سے اچھا دوسرا کوئی رشتہ نظر نہ آیا۔ نور کے والد خاور ملک اور اسد فاروقی کالج کے زمانے سے دوست تھے اور دونوں کا ایک دوسرے کے گھر میں بھی بہت آنا جانا تھا اس لیے یہ دونوں دوست اپنے آپ کو بھائیوں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ اور یہ چراغاں بھی گھر بھر میں نور اور علی کی منگنی کے سلسلے میں تھا۔ علی پاک آرمی میں بطور کپتان دو سالوں سے کام کر رہا تھا علی کی بہن جو فاروقی صاحب کی بہو تھی اور خاور ملک کی بہو کی دوست بھی اس کا اس ہونے والے رشتہ میں بے حد دخل تھا۔ زرینہ: عادل بیٹا ہاتھ منہ دھو لو پھر ماموںکی طرف بھی تو چلنا ہے نا مہمان آگئے ہوں گے اور ہم گھر کے فرد ہو کر دیر سے جائیں اچھا تو نہیں لگتا نا بیٹا، زرینہ بیگم اپنے چہرے پہ زبردستی کی مسکراہٹ سجائے ہوئے بیٹے سے نذریں چراتے ہوئے جلدی جلدی تیار ہو رہی تھی وہ جانتی تھیں اگر انکی آنکھواں میں عادل کو کوئی بھی آنسو نظر آگیا وہ یہ منگنی تو ایک طرف وہ خود نور سے آج ہی نکاح کر لے گا،وہ اب تک خاموش تھا تو صرف اپنی ماں کے لیے۔۔۔ عادل صوفہ پہ اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا، مجھے کس بات کی الجھن ہے میں کون سا نور کے پیار میں پاگل تھا میں تو آج تک اس کو دہتکارتا ہی رہا اور آج جب وہ کسی اور کی ہو رہی ہے تو مجھے کیں گھٹن ہو رہی ہے، اگر میں کرتا بھی ہوں پیار تو کوئئی بھی سکھ اوپر والے نے میری زندگی میں کیوں نہیں رکھا۔
پیدا ہوتے ہی میرے بابا کی موت اور اب میری سب سے عزیز نانوں اور دل میں کہیبں تھوڑی سی جگہ تھی تو وہ نور کے لیے مگر ایسی کچھ خاص بھی تو نہیں لیکن ہے تو،،،،،،اب عادل اپنی ماں کی خوشی کے لیے تیار ہو کر باہر آچکا تھا وہ کالے رنگ کے کرتہ پاجامہ میں کسی فلمی ہیرو سے کم نہیں لگتا تھا وہ دیکھنے میں اپنے مرحوم والد چوہدری جہان کا عکس تھا ان کے جیسا قد کاٹھ اور چہرے پہ داڑھی کے ساتھ کالی گھنی مونچھیں جن کو وہ اکثر تاؤ دیے رکھتا تھا۔
منگنی کی تقریب میں عادل کے آتے ہی خاندان کے سبھی لوگوں کی نظریں عادل پر تھی،جیسے وہ لوگ کسی ہنگامے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔عادل اپنی اسی لاپرواہی کے ساتھ چلتا ہوا صوفہ پہ نور کے پہلو میں بیٹھے ہوئے علی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔عادل کا چہرہ تاثرات سے عاری تھا،جو کچھ بھی تھا وہ بس عادل کے دماغ میں تھا جس کو پڑھنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں تھا کم سے کم آج تک ایسا کوئی نہ ملا تھا جو عادل کے دماغ میں چلنے والی بات کو جان سکتا۔
عادل: مبارک ہو علی، گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر عادل نے مبارک دی اور نور کی جانب بڑھ گیا۔
نور چپ چاپ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جو عادل کے مبارک دینے پہ جیسے چونک گئی تھی وہ اپنے خیالوں سے نکل آئی تھی اور عادل کے چہرے کو دیکھ کر جیسے نور کا دل بھر آیا تھا وہ دل کی بات کو نظروں سے پڑھ لیے جانے سے ڈرتی تھی،اس نے یک دم اپنا سر جھکا لیا اور فقت سر کو ہلانے میں مصلحت جانی،
عادل اپنے ماموں اور ممانی کو مبارک دینے کے بعد واپس سے لان میں چلا آیا،عادل کا دماغ پرسکون تھا وہ جانتا تھا کہ ایسا ہی کرنا ہے ماموں نے لکیں اس بات کے پیچھے کون سی ایسی بات ہے جس کا علم عادل کو نہیں۔۔۔
تمام مہمانوں کت جانے کے بعد عادل اپنی امی کےکمرے میں داخل ہوا،،،امی سو رہی ہیں کیا؟ اور یہ کمرا اندھیرا کیوں کر رکھا ہے۔
عادل نے کافی کے مگ میز پہ رکھے اور لائٹ آن کر دی،
زرینہ بیگم عادل کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے اٹھ بیٹھی اور آنسو صاف کرتے ہوئے گویا ہوئیں،،
بیٹا بس تمھارے بارے میں سوچ کر اداس ہو گئی تھی،بیٹا آج بھی جو کچھ ہوا ہتے یہ بھی تو،،،،ماں بس کریں چھوڑ دیں میں کون سا نور کے عشق میں گھل رہا تھا،لیکن ایک بات ہے امی۔
عادل نے کافی کا مگ ماں کے ہاتھوں میں دیا اور خود ماں کے پاؤں گود میں رکھ کر دبانے لگا،
امی بڑے ماموں ہمیشہ سے ہی ایسے سخت مزاج کے ہیں، میں نے جب سے ہوژ سنبھالا ہے تب سے خاور ماموں کو ایسا ہی پایا جبکہ یاور ماموں تو اپنے بچوں اور ہمارےساتھ بھی بہت پیار سے پیش آتے ہیں،مگر خاور ماموں اس کے بلکل برعکس ہیں وہ ہم سے تو دور اپنے بچوں سے بھی ایسے پیش آتے ہیں جیسے اولاد ان کی نہیں مامی اپنے ساتھ میکے سے لائی ہوں۔۔۔
عادل کے آخری جملہ کو سن کر زرینہ بیگم کے لبوں پہ ایک بہت پھیکی سی مسکان آئی اور وہیں دم توڑ گئی ۔۔
عادل بیٹا تمھاری اس کیوں کے پیچھے بہت لمبی کہانی ہے،تھارے نانا اور دادا کی آپس میں بہت دوستی تھی جس کو انہوں نے رشتہ میں بدلنے کے لیے اپنے بچوں کی منگنیاں تہ کر دی،میری تمھارے بابا کے ساتھ اور خاور بھائی کی تمھاری پھوپی فلک کے ساتھ۔
یہ رشتہ تہ جب ہوا تب میں ابھی اسکول میں تھی اور خاور بھائی اس وقت پڑھائی ختم کر کے بزنس کا آغاز کرنے لگے تھے،تب اچانک ایک دن خبر ملی کے جہان کی بہن نے کسی سے شادی کر لی ہے اور تمھارے دادا نے ان کو گھر سے نکال دیا ہے،یہ خبر خاور بھائی کی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی لے کر آئی۔
انہوں نے بابا پر زار دے کر میری اور جہان کی منگنی بھی ختم کروا دی،منگنی سے لے کر منگنی ختم ہونےکے دوران میں جہان اور میں ایک دوسرے کو دل دے چکے تھے ہم نے عہد کیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ہم شادی کریں گے تو آپس میں ورنہ جان دے دیں گے۔
عادل جو سب کچھ توجہ سے سن رہا تھا اور ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا،ماں کے رکنے سے عادل نے سوال کیا۔
امی تو آپ کی منگنی ختم کرنے سے ماموں کو کیا ملا؟
وہ ضد میں آکر یہ سب کر رہے تھے بیٹا کیوں کہ وہ جہان سےحسد کرتے تھے وہ دونوں ہم عمر تھے اور ہمیشہ سے ایک مقابلہ تھا جو چلا آرہا تھا وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے اور گئے بھی،
مگر تمھارے یاور ماموں دونوں خاندانوں میں وہ واحد شخص تھے جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا اور تمھارے بابا کی ڈیتھ کے بعد واپس گھر لے آئے کیوں کہ تمھارے دادا نے بھی اپنے بیٹے کو معاف نہیں کیا تھا وہ شرمندہ تھے کہ میرا دوست کیا سوچے گا،مگر تب تک ابا میاں کا انتقال ہو چکا تھا تو تمھارے چھوٹے ماموں مجھے گھر لے آئے، خاور بھائی نہیں جانتے کہ ہم ان کی کمائی پہ نہیں بلکہ تمھارے بابا جو کچھ ہمارے نام کر گئے تھے یہ سب ہم وہ استعمال کر رہے ہیں۔۔۔
اگر اس بات کی بھنک بھی ہوتی ان کو وہ کبھی ہمیں یہاں نہ رہنے دیتے۔
تو امی پھر نانی نے کیوں میرا رشتہ نور سے کرنا چاہا؟؟