صبح کی روشن کرنیں اس کے گہرے بھورے رنگ کے بالوں پر برس رہیں تھیں۔ سانولی رنگت سلیٹی رنگ کے ہوڈ اور سیاہ جینز میں ڈھکی ہوئی تھی۔ قیمتی چمکتی گاڑی سے نکل کر اس نے اپنی تیکھی نظروں سے سیاہ چشمے کے پردے کو ہٹایا اور سیاہ اونچی ایڑی کی نفیس سینڈلز پاوں کی زینت بنائے وہ عالیشان عمارت میں داخل ہوگئ۔ اس کے پیچھے باوردی سوٹ میں کسرتی جسامت والا ایک آدمی بھی عمارت میں داخل ہوا۔
"عقرب میں بہت ایکسائٹڈ ہوں۔ کیا آج کی پارٹی کے لیے تم ایکسائٹڈ ہو؟" اس نے مطلوبہ جگہ کی جانب چلتے ہوئے پیچھے آنے والے شخص سے سوال کیا۔
"میڈم میں بھی اکسائٹڈ ہوں۔" آدمی کی باروب اور سنجیدہ لہجے پر لڑکی نے رخ موڑ کر اسے ایک نظر داد دیتی نگاہوں سے دیکھا پھر مطلبی مسکراہٹ نچھاور کرکے رخ موڑ گئی۔
"ایکسکیوز می میڈم یہ ہال آج شام ایک پرائیوٹ پارٹی کے لیے بُک کیا گیا ہے... آپ یہاں..." ایک نوجوان کو خود سے مخاطب دیکھ کر لڑکی نے پاس لہراتے گیس کے غبارے پر ہاتھ مارا۔
"میں مس ایلیاء کلماتی... یہاں انتظامات دیکھنے آئی ہوں..." ایلیاء نے ہال کا نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ عقرب نے قریب رکھی کرسی اٹھا کر ایلیاء کے قریب رکھی۔ وہ تشکرانہ مسکرا کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
"یعنی آپ مسٹر عارف کلماتی کی بیٹی ہیں؟" نوجوان کے سوال پر ایلیاء نے ایک دم عقرب کی سمت دیکھا جو مودبانہ ہاتھوں کو باندھے کھڑا۔
"میرے لاسٹ نیم سے تو یہی مطلب نکلتا ہے نا؟ " ایلیاء کے طنز پر عقرب بھی طنزیہ مسکرایا۔ سامنے کھڑے نوجوان نے جھینپ کر دونوں کو دیکھا۔ اس کی جھجک دیکھ کر ایلیاء نے ہاتھ کو ہوا میں ہلایا جیسے مکھی اڑائی ہو۔
"خیر... بیٹا یہ سفید پھولوں کی جگہ فوراً رنگین پھول ڈالو۔ اففففف اتنا سفید رنگ دیکھ کر مجھے کلر بلائنڈ جیسی فیلنگ آرہی ہے۔" ایلیاء نے اپنے گھنے کھلے بالوں کو ہاتھ سے جھٹکتے ہوئے کہا۔
"لیکن میڈم..." اس جوان کی بات پر ایلیاء نے اسے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کروایا۔
"شششش... عقرب تم نے سنا میں نے کیا کہا؟" ایلیاء کے سوال پر عقرب نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ہائے صدقے.. چلو شاباش اس بچے کی مدد کرو۔ تمھیں تو معلوم ہے آج کل کے بچے کتنے سست ہیں۔" ایلیاء نے معصومیت سے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا اور عقرب اس نوجوان کو گردن سے پکڑ کر ایک جانب لے گیا۔ نوجوان تو بس یہ سر ، وہ سر کرتا ہی رہ گیا۔ ان کے جاتے ہی ایلیاء نے پھر سے ہال کو دیکھا۔
"کامیابی مبارک ہو پاپا۔" جملہ ادا کر کے اس کے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ بکھر گئی۔
••••••••
"عاص.."
وہ تیزی سے اپنے کمرے سے نکل کر ہال سے گزر رہا تھا۔ جب عقیل کے پکارنے پر رک کر اس کی جانب دیکھا۔
"اتنی تیزی میں کہاں جارہے ہو؟" عقیل اور اس کی بیوی منتہی صوفے پر بیٹھے تھے۔
"تھوڑی دیر پہلے ایونٹ مینجر سے بات ہوئی تھی۔ اس نے بتایا عارف انکل کی بیٹی ڈیکوریشن میں کچھ تبدیلی چاہتی ہے۔ وہی دیکھنے جارہا ہوں."اس کی بات سن کرعقیل نے حیرت سے بھویں اٹھائیں۔
"اوہ یعنی ایلیاء واپس آگئی؟" عقیل سوال پر عاص کو بھی حیرت ہوئی۔ بھلا وہ عارف انکل کی بیٹی کو کیسے جانتا تھا؟
"آپ اسے جانتے ہیں؟" عاص نے حیرت کو چھپاتے ہوئے نارمل انداز میں سوال کیا۔
"میں بھی جانتی ہوں۔ ایک ، دو بار فیملی گیدرنگ پر اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ تم کبھی فیملی گیدرنگ میں گئے نہیں اس لیے اس سے لا علم ہو... ویسے اچھی لڑکی ہے۔" منتہی نے سوچتے ہوئے شرارتی انداز میں عاص کو جواب دیا۔
"یہ تو جاکر ہی پتا چلےگا کہ اس اچھی لڑکی کو کیا تکلیف ہوئی ہے؟" عاص نے آنکھیں گماتے ہوئے کہا اور رخ موڑ کر باہر کی جانب چل دیا۔
"آل دی بیسٹ..."منتہی کی آواز پر جہاں عقیل مسکرایا تھا وہیں عاص تھمز-اٙپ دکھا کر ہال سے باہر نکل گیا۔
دوسری جانب ہوٹل کے عالیشان ہال میں سفید اور سنہرے رنگ کی آرائش میں اب رنگین مختلف پھولوں کا اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ ہاتھ میں کافی مگ پکڑے سلیٹی رنگ کر ہوڈ کو سر پر ڈالے زینے پر رنگین پھول سجتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
اسی وقت ہال میں داخل ہوتے ہوئے وہاں کی خوبصورتی دیکھ کر عاص بھی حیران رہ گیا تھا۔ سفید پھولوں کی جگہ اب مختلف رنگین پھول واقعی بہت حسین لگ رہے تھے۔ عاص کی نظریں اس سیاہ ہائی ہیل کے بوٹس پہنے ہوئے، سیاہ جینز اور سیلٹی ہوڈی میں محفوظ وجود پر ٹھہر گئی۔ جو اس کی جانب پشت کیے کھڑی تھی۔ عاص نے اس کی جانب قدم بڑھائے لیکن اس تک پہچنے سے پہلے ہی کوئی ہلیپر ایلیاء سے ٹکرا گیا۔ ہوٹ کافی ایلیاء کے ہاتھ کو جلا گئی۔
"اندھے ہو؟" اس کی آواز نے سب کو متوجہ کیا تھا اور عاص اپنی جگہ پر ساکت رہ گیا۔ وہ ہیلپر معزرت کرتا رہ گیا۔ شکر کافی اتنی گرم نہیں تھی ورنہ اس کی سانولی رنگت جل جاتی۔
"دیکھ کیا رہے ہو جاکے چینی کا پانی لاو۔ فوراً..." ایلیاء نے الفاظ چبا کر ادا کیے۔ ہیلپر فوراً حکم کی تعمیل کرنے بھاگ گیا۔
"سوری اس نے آپ کو پیچھے ہٹتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔" عاص نرم لہجے میں ایلیاء سے مخاطب ہوا۔ اس کی جانب دیکھتے ہی ایلیاء کے تکلیف سے کھینچے نقوش پر ایک سکوت طاری ہوگیا تھا۔
زخم کی جلن پر شاید اس کی نظروں کی ٹھنڈک اثر کر رہی تھی۔ اس لیے ایلیاء کو اب اپنے زخم کا احساس نہیں ہورہا تھا۔ وہ بنا پلک جھپکائے عاص کو دیکھ رہی تھی۔
"میم..." ہیلپر نے ایک کپ میں پانی لاکر دیا۔ ایلیاء نے اس کی جانب پہلے تو حیرت سے دیکھا پھر حقیقت میں لوٹ کر اس کے ماتھے پر شکن لوٹ آئی۔
"اس پانی کو کافی میں ملاوں؟ بڑے برتن میں پانی چاہیے تھا ایڈیٹ میں نے ہاتھ ڈبونا تھا۔" ایلیاء نے غصے میں اسے جھڑک دیا اور وہاں سے جانے لگی۔
"مس کلماتی... آپ کو میں ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں۔" عاص کی پیشکش سن کر ایلیاء نے اس کی جانب دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں بس پلٹ کر وہاں سے چلی گئی۔
"ایلین.." عاص نے اس کی عجیب حرکت پر زیر لب اسے اس نام سے نوازا اور پھر خود ہی اس نام پر مسکرا دیا۔
اب اسے کون بتاتا کہ جس عشق کے تیر سے وہ زخمی ہوئی ہے اس کا علاج کسی طبیب کے پاس نہیں۔ یہ مرض لاعلاج ہے۔ جو ایلیاء کو پہلی نظر میں عاص سلطان سے ہوگیا ہے۔
"ارے نہیں... نہیں... یہ نہیں ہوسکتا۔ او نو دل تم دغا نہیں دے سکتے۔" جلے ہاتھ کو سامنے اٹھائے ہوئے وہ دوسرے ہاتھ کو دل پر رکھے تیزی سے خارجی دروازے کی جانب چل رہی تھی اور زیر لب اپنے دل کو سرزرش کر رہی تھی۔
"میم..." ایلیاء کے چہرے کی رنگت اڑی دیکھ کر عقرب اس کی جانب تیزی سے بڑھا اور دوسرا جھٹکا اس کے ہاتھ کی گلابی جلد کو دیکھ کر لگا۔
"مجھے یہاں سے لے چلو۔ جلدی.." ایلیاء کی گھٹی ہوئی آواز پر عقرب نے اسے ہاتھ کا سہارا دیا اور اپنے ساتھ لے کر خارجی راستے کی سمت چلنے لگا۔
"تمھیں آکر دیکھتا ہوں۔" سامنے سے آتے ایونٹ مینیجر کو دیکھ کر عقرب نے گھورتے ہوئے کہا۔ جو سارے واقعی سے لاعلم ہوٹل میں ابھی داخل ہوا تھا۔
"میں نے کیا کیا؟" وہ یہ سوچتے ہوئے حونقوں کی طرح ان دونوں کو خارجی دروازے سے جاتا دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں کسی نے آکر اسے عاص کی ہال میں موجودگی کی خبر دی وہ تیزی سے ہال کی جانب چل دیا۔
"آہ شکر ہے سر آپ آگئے... آپ نے دیکھا اس سر پھری لڑکی نے کیا حال کردیا۔" مینیجر نے دونوں سمت ہاتھ پھیلا کر ہال کی سجاوٹ کی جانب اشارہ کیا جس پر عاص نے مسکرا کا ہال کا پھر سے جائزہ لیا۔
"خیر اتنا برا حال بھی نہیں کیا۔" عاص نے اپنی ہلکی داہڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"لیکن اس سر پھری کا وہ سر پھرا باڈی گارڈ واپس لوٹ کر میرا بہت برا حال کرنے والا ہے۔ معلوم نہیں میں نے اب اس کا کیا بگاڑ دیا۔" مینیجر نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا لیکن اس کی نظر ایک ملازم پر ٹھہر گئی جو فرش صاف کر رہا تھا۔
"تم سے اب تک فرش صاف نہیں ہوا؟" مینجر کے سوال پر عاص نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"مس کلماتی کے ہاتھ پر کافی گِر گئی تھی..." عاص کا جملہ سنتے ہی مینیجر نے اپنے سر پر ہاتھ مارا۔
"ارے یہ کیا ہوگیا... یعنی میری نوکری تو گئی۔" اس نے کہتے ہوئے اس ملازم کو گھورا جو فرش صاف کر کے ہٹا تھا۔ جو خود لاعلم تھا کہ اچھی صفائی کرنے پر بھی یہ کھوسٹ مینیجر اسے کیوں گھوری سے نواز رہا ہے۔
"ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میرے خیال سے مس کلماتی بچی نہیں ہیں۔ جو زرا ہاتھ جلنے پر..." عاص کی بات کے درمیان پھر سے مینیجر بولنے لگا۔
"معاف کیجئے گا سر... لیکن وہ اپنی ناک پر مکھی بیٹھنے نہیں دیتی.. اور یہاں تو اس کا ہاتھ جل گیا ہے۔" مینیجر نے بڑی بڑی آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا پھر محتاط انداز اپناتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ کر عاص کے زرا قریب ہوا۔
"ابھی پچھلے مہینے ہی اس نے کسی ہوٹل کے مینیجر سے سب کے سامنے گٹھنوں کے بل بٹھا کر معافی منگوائی تھی۔ جب کہ اس کی غلطی نہیں تھی۔" عاص اس کی بات بڑے غور سے سن رہا تھا پھر کچھ سوچ کر پیچھے ہوا۔
"پھر تو آپ ابھی میرا سلام آخر لے لیں۔ کیا معلوم اس بار مس کلماتی الٹا لٹکا کر معافی نامہ قبول کریں۔" عاص نے اس کے شانے کو تھپکا کر کہا۔
"ان سے یہی طوقع ہے... اللّه ہی حافظ میرا۔ " مینیجر نے افسوس سے کہا اور دل پر ہاتھ رکھا۔ عاص تو مسکرادیا۔
خیر اسے سادہ طبیعت رکھنے والے اپنے عزیز عارف انکل کی اکلوتی بیٹی سے ایسی گھمنڈی طبیعت کی توقع نہیں تھی لیکن اسے کیا معلوم ایلیاء گھمنڈی نہیں بلا کی ضدی اور خود سر تھی۔
••••••••