۔۔۔۔۔۔سوانوبجے زیارات سے واپسی ہوئی تو جرمنی میں گھر پر فون کرکے بچوں کی خیریت معلوم کی۔ رضوانہ اپنے گھر (Fulda) سے آچکی تھی اور سارے بچے خیریت سے تھے۔ پھر اپنے کمرے میں جاکر”ناشتہ کم لنچ “کیااور سوگئے۔ گہری اور مزے کی نیند آئی۔ ظہر کی نماز کے لئے بروقت بیدارہوئے۔ ظہر کی نماز کے لئے میں حرم شریف میں جس جگہ کھڑاہواتھا وہاں سے خانہ کعبہ دکھائی نہیں دیتا۔شاید مسلسل دیدار کے بعد اب تھوڑاساحجاب ضروری ہوگیاتھا۔عصر کی نماز بھی اسی حجاب کے عالم میں اداہوئی۔عصرکی نماز کے بعد پھر تھوڑی سی خریداری کی۔ یہ تھوڑی سی خریداری بھی اتنی زیادہ تھی کہ مجھے تشویش ہونے لگی ہم مدینہ منوّرہ بھی جاسکیں گے یانہیں؟
۔۔۔۔۔۔مغرب کی نماز کے لئے ہم باب النبی سے اندرآئے۔ پھر یادنہیں دائیں مڑے یابائیں۔ جس صف میں جگہ ملی وہاں سے میزاب الرحمت، حطیم، رکن عراقی، ملتزم، مقام ابراہیم اور حجراسود۔۔۔۔ سارے نظارے د کھائی دے رہے تھے۔ صرف حطیم کا کچھ حصہ نظروں سے اوجھل ہورہاتھا۔ میں نے اپنے بائیں طرف والے صاحب پر تھوڑا سا بوجھ ڈالاتو وہ تھوڑاساپرے سرک گئے۔ مجھے تھوڑاسابائیں جانب ہونے کے لئے جگہ مل گئی اور اب حطیم کا وہ حصہ بھی میرے سامنے تھاجسے میں نگاہوں میں رکھناچاہتاتھا۔مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد میں اور مبارکہ پھر مسجد عائشہ کے لئے روانہ ہوئے۔مکہ میں ہماری آمد سے پہلے ڈیڑھ دو ہفتے تک بارشیں ہوتی رہی تھیں۔ یہاں کی سڑکیں Heat Proofبنائی گئی ہیں تاکہ یہاں کی شدید گرمی کے باعث سڑکیں خراب نہ ہوں لیکن مسلسل بارشوں نے سڑکوں کو نقصان پہنچایاہے۔ یہاں اتنی زیادہ بارش شاید آدھی صدی کے بعد ہوئی تھی۔ ہم مسجد عائشہ جانے کے لئے حرم شریف سے باہر نکلے تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی۔ مسجد عائشہ پہنچ کر غسل کرکے، احرام باندھ کے، قریب کی ایک دوکان سے چھتری خریدی۔ پھر دو نفل پڑھے۔ نیت عمرہ کی اور تلبیہ پڑھتے ہوئے حرم شریف آئے۔ یہاں پہنچنے تک بارش رُک گئی تھی۔ حرم شریف کے باہر اور صحنِ کعبہ میں بارش کے پانی کو جذب کرنے کے لئے خود کارمشینیں کام کررہی تھیں۔ دم بھر میں صحنِ کعبہ کافرش چمک اٹھا۔ صفائی کااتنابروقت اور عمدہ انتظام دیکھ کرسعودی بادشاہوں کے لئے دل سے دعانکلی۔ ان کے انتہاپسند ”موحدانہ“ عقائد اپنی جگہ ان کے بہت سارے شاہانہ معاملات اپنی جگہ اور ان کے عالمی سیاسی کردار سے اختلاف کے باوجود ان کی خدمت کعبہ بلکہ خدمت حرمین شریفین کا اعتراف نہ کرناکم ظرفی ہوگا۔اللہ انہیں خدمت کی اس سعادت کے طفیل اپنی خامیاں دور کرنے کی توفیق بخش دے۔ نماز عشا اداکی تو اس میں سعودی خاندان کے لئے یہی دعاکی میں بے تُکی مشرکانہ رسومات کو اچھانہیں سمجھتالیکن سخت دلی والا موحدانہ رویہ بھی کوئی صحت مندرویہ نہیں ہے۔ خدا کوبراہ راست نہ ہم دیکھ سکتے ہیں، نہ جان سکتے ہیں، نہ سمجھ کر مان سکتے ہیں۔ خدا کے پیغمبروں کے وسیلے سے ہی اسے دیکھاہے، جاناہے اور ماناہے۔ پیغمبروں کی عدم موجودگی میں ولیوں اور صوفیوں نے کسی حد تک وسیلے کا کام کیاہے۔ممکن ہے کوئی شخص اپنی روحانی طاقتوں کو بیداراور متحرک کرکے کسی وسیلے کے بغیر بھی خداسے تعلق قائم کرسکتاہو لیکن اس کے لئے جس روحانی اور جسمانی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ عامة الناس کو تو کسی نہ کسی وسیلے پر ہی انحصار کرنا پڑتاہے۔ چاہے وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کا ہواور چاہے حضرت امام عبدالوہاب ہی کاوسیلہ کیو ں نہ ہو۔
عشاءکی نماز کے بعد ہم نے طواف شروع کیا۔آج کے عمرہ میں مبارکہ نے اپنے پانچوں بچوںکے لئے دعائیں کیں جبکہ میں نے اپنے تایاجی کی طرف سے عمرہ اداکیا۔تایاجی کو ہم سب باباجی کہاکرتے تھے۔ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے اباجی پر بھی احسانات کئے تھے اور ہم پر بھی۔ ان کے نزدیک یہ احسانات احسانات نہیں تھے بلکہ صرف بھائی سے اور بھائی کی اولاد سے ان کی محبت تھی۔ باباجی سیدھے سادے مسلمان تھے انہیں کامل یقین تھاکہ مولاپاک انہیں اپنے پیارے حبیب کے صدقے بخش دے گا۔انہیں آنحضرت ﷺکےبارےمیںبھیمکملیقینتھاکہوہضرورانکیشفاعتفرمائیں گے۔ باباجی علم کے گورکھ دھندے سے بچے ہوئے تھے اسی لئے یقین کی دولت سے مالامال تھے۔ میں جب ان کے یقین اور اپنے تذبذب کا موازنہ کرتاہوں تو خودکو بہت ہی غریب اور جاہل محسوس کرتاہوں۔
۔۔۔۔۔طوافِ کعبہ سے سعی تک عمرہ کے تمام مراحل طے کرنے کے بعد ہم نے حجرِ اسود کے سامنے اس کی سیدھ کوظاہرکرنے والی پٹی پر کھڑے ہوکرنوافل اداکئے۔ ا س پٹی سے کھڑے ہوکر دیکھاتو سامنے حجراسود، بائیں جانب رکن یمانی اور دائیں جانب سے ملتزم، مقام ابراہیم، رکن عراقی کے ساتھ حطیم کا ایک کونہ بھی اپنی جھلک دکھارہاتھا۔ میں خانہ کعبہ کو زاویے اور سمتیں بدل بدل کر مختلف مناظر کے ساتھ دیکھ سکتاتھالیکن ایک ہی وقت میں پورے کا پورا کعبہ مکمل طورپرنہیں دیکھ سکتاتھا۔ بقیہ حصہ دیکھنے کے لئے سامنے کی جگہ چھوڑ کر عقبی حصہ میں جانا ضروری ہوجاتاہے گویا ہم کسی شے کو کسی ایک طرف سے پوری طرح، مکمل طورپر نہیں دیکھ سکتے۔ معمولی سا سکہ ہاتھ میں لے کر دیکھ لیں۔ہاتھ میں ہونے کے باوجود ہم ایک وقت میں اس کاایک رُخ ہی دیکھ سکیں گے اور جب دوسرا رُخ سامنے لائیں گے تو پہلا رُخ نظروں سے اوجھل ہوجائے گا۔ وحدت اور کثرت کا معاملہ بھی شاید کچھ ایسا ہی ہے۔ جب وحدت کا رُخ سامنے ہوتاہے تو کثرت کا رُخ غائب ہوتاہے اور جب کثرت کا رُخ سامنے ہوتاہے تو وحدت کا رُخ غائب ہوجاتاہے حالانکہ بظاہر دکھائی نہ دینے کے باوجود اس کے عقب میں ہی موجودہوتاہے۔ وحدت اور کثرت کے کھیل پر سوچتے ہوئے اپنے کمرے میں گئے۔ کھانا کھایااور پھر وحدت و کثرت دونوں سے بے خبر ہوکر سوگئے۔
٭٭٭