اٹھ کر بیٹھ گئے جب آدھی رات ہوئی
پھر محرابِ تہجد میں ہر بات ہوئی
بنجر دل میں اُگتی یہ ہریالی سی
مجھ کو گنبدِ خضرا کی سوغات ہوئی
روضے کی جالی کے سامنے کیا آیا
سامنے میرے ساری کائنات ہوئی
رُوح کا صحرا یوں نکھرا کہ چمک اُٹھا
نُورِ محمد ؐ کی ایسی برسات ہوئی
جانے وہ اک کیسا انوکھا لمحہ تھا
جب ہم جیسوں سے بھی نفئ ذات ہوئی
ہم سے گمراہوں کی بخشش کا باعث
صرف انہیں کی ذاتِ بابرکات ہوئی
ٹاٹ ایسا دل مخمل جیسا کر لائے
مسجد نبوی میں اک ایسی بات ہوئی
کملی والےؐ سے اک نسبت کے صدقے
جیت میں ڈھل گئی جب بھی اپنی مات ہوئی
حیدر ؔ اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے
نعت کہی تو ہے لیکن کب نعت ہوئی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا رسول ؐاللہ
ابھی جو آپ سے دل نے کہا ہے یا رسولؐ اللہ
وہ سب کچھ آپ نے سُن ہی لیا ہے یا رسول ؐاللہ
زمیں ہے تنگ اور کرب و بلا ہے یا رسولؐ اللہ
بنا محشر کے اک محشر بپا ہے یا رسولؐ اللہ
ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یا رسولؐ اللہ
ہمارے ہی گناہوں کی سزا ہے یا رسولؐ اللہ
یقیناََ شامتِ اعمال اس انجام تک لائی
خدا ناراض، دنیا بھی خفا ہے یا رسولؐ اللہ
ابھی نہلا گئے ساتوں سمندر خشک آنکھوں کو
ابھی بھی میل اندر جا بجا ہے یا رسولؐ اللہ
ابھی کچھ اور بھی چشمِ کرم کا لطف فرمائیں
ابھی بھی ذہن،دل سے کچھ جدا ہے ، یا رسولؐ اللہ
کسی زہد و ریاضت کے نتیجہ کی نہیں حالت
یہ سر بارِ گنہ سے جھک گیا ہے ، یا رسولؐ اللہ
زباں کی لغزشیں اللہ تعالیٰ بخش دے شاید
کہ اب وردِ زباں صلِّ علیٰ ہے یا رسولؐ اللہ
نئی تختی سجائی ہے، درِ دل پر ابھی حیدرؔ
اور اس تختی کے اوپر لکھ لیا ہے یا رسولؐ اللہ