عاشق ، محبوب ہوا
کھیل انوکھا تھا
جاذب ، مجذدب ہوا
کس نُور کا درشن تھا
سامنا ہوتے ہی
روشن مرا تن من تھا
کثرت کی زبانی ہیں
کعبہ کی دیواریں
وحدت کی نشانی ہیں
پوچھو نہ مزہ ہم سے
پیاس بجھائی تھی
جب بئرِ زم زم سے
لطف آ گیا جینے میں
نوُر مناظر کا
جب بھر گیا سینے میں
قربت میں کمال ہوا
ناز قبول اور عجز
بلند اقبال ہوا
جو یار سے دُور ہوا
عجز، ریا اس کا
ا ور ناز ، غرور ہوا
٭٭٭