س۔ اچھا اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ حکومت میں آ جائیں گے تو کیا آپ اپنی فوج تشکیل نہیں دیں گے؟
ج۔ جی ہاں۔
س۔ آپ کا ڈیکلریشن آف پرنسپلز کہتا ہے کہ مزدور ریاست میں پیشہ ور فوج نہ ہوگی بلکہ اس کا انحصار عوامی مزدور ملیشیا پر ہوگا جس میں ہر قسم کے امتیازات، ماسوائے تکنیکی مہارت کے حوالے سے، کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور افسروں پر سپاہیوں کو جمہوری اختیار حاصل ہوگا۔
ج۔ یہ ہمیشہ سے فوج کا مارکسی تصور رہا ہے۔
س۔ کیا آپ اس کی تشریح کرنا پسند کریں گے۔
ج۔ ہم پیشہ ور فوجیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر محروم ہونے والے سرمایہ دار طبقہ سے مزدور ریاست کا معاہدہ ہو بھی جاتا ہے کہ اگر وہ اکثریت کی مرضی کو تسلیم کر کے پنشن پر چلے جائیں تو اس کے باوجود بھی کچھ عرصہ کے لئے یہاں فوج کے ادارے کی ضرورت ہوگی۔ ممکن ہے کہ سرمایہ دار یورپ، ہٹلر یا اس قسم کی کوئی چیز، ہمارے ملک کے لئے خطرہ بن جائے اور ملک کے دفاع کے لئے ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
ہمارا آئیڈیا یہ ہے کہ ماسوائے تکنیکی مہارت رکھنے والے فوجیوں کے، پیشہ ور فوجیوں کا طبقہ نہیں ہوگا۔ ہر صحت مند شہری کے لئے فوجی خدمات لازمی ہوں گی۔ لوگوں کو مسلح کیا جانا چاہیے۔
س۔ میرے خیال سے میں یہ بات سمجھتا ہوں مگر کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ اس بات کا کیا مطلب ہے (ڈیکلریشن آف پرنسپلز پڑھتے ہوئے:’’تمام امتیازات، ماسوائے وہ جو تکنیکی مہارت کے حوالے سے ضروری ہوں گے، کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور افسروں پر سپاہیوں کو جمہوری کنٹرول حاصل ہوگا‘‘۔ پہلے ہم پہلے جملے کی بات کرتے ہیں۔ ’’تمام امتیازات، ماسوائے وہ جو تکنیکی مہارت کے حوالے سے ضروری ہوں گے، کا خاتمہ کر دیا جائے گا‘‘۔ اس سے کیا مراد ہے؟
ج۔ ملٹری کے ادارے میں کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو تکنیکی مہارت رکھتے ہوں مثلاً توپ خانہ، فضائیہ وغیرہ، جن امتیازات کا ہم خاتمہ کرنا چاہتے ہیں وہ ہیں مراعات کے حوالے سے امتیازات، وہ امتیازات جن کی بدولت افسر سپاہیوں سے زیادہ مراعات حاصل کرتے ہیں، نہ صرف زیادہ بلکہ اس قدر زیادہ کہ افسروں کی دنیا سپاہیوں سے مختلف ہوتی ہے۔ افسر کے لئے تو ممکن ہے کہ وہ شادی کرے، سوشل لائف گزارے، انسانوں کی طرح زندہ رہے مگر سپاہی، جس کی تنخواہ انتہائی قلیل ہوتی ہے، ان تمام چیزوں سے محروم رہتاہے۔ اگر ہمارا نظام موجود ہوتا تو ہم مراعات کے حوالے سے ان امتیازات کا خاتمہ کر دیتے اور ملٹری کے ادارے میں کم و بیش ہر فرد کو ایک جیسی تنخواہ اور مراعات حاصل ہوتیں۔ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ اس بات کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا۔ ہمارے نظرئیے کے مطابق اس کا اطلاق عمومی طور پر پورے معاشرے پر ہوتا ہے۔
س۔ اگر ایک انتہائی مثال لی جائے تو اس کے مطابق ایک پرائیویٹ میجر جنرل کے برابر ہونا چاہیے۔ میرے خیال سے آپ کا نظریہ یہ کہتا ہے۔
ج۔ فوجی علم اور فوجی پوزیشن کے حوالے سے برابر نہیں لیکن باعزت زندگی گزارنے کا حق رکھنے کے حوالے سے برابر۔ اسے یہ حق کیوں حاصل نہ ہو؟
س۔ میں آپ سے پوچھ رہا ہوں۔ ایک کیپٹن کی مثال لیں، کیا وہ اپنے پرائیویٹس کو آرڈر دینے کا مجاز ہوگا؟
ج۔ جی ہاں
س۔ کیا وہ آرڈر پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے؟
ج۔ جی ہاں! ڈسپلن اور کمانڈ کے بغیر ملٹری کا ادارہ نہیں چل سکتا۔
س۔ ’’افسروں پر سپاہیوں کا کنٹرول‘‘ سے کیا مراد ہے؟
ج۔ ہم اس بات کے حامی ہیں کہ ملٹری کے اداروں میں سپاہیوں کو اپنے افسر منتخب کرنے کا حق ہونا چاہیے بالکل اسی طرح جس طرح انہیں معاشرتی زندگی میں شہر کے نمائندے یا یونین میں یونین کے عہدیدار منتخب کرنے کا حق ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس انداز میں وہ بہت افسروں کو منتخب کریں گے اور ایسے افسروں میں ان کا اعتماد زیادہ ہوگا ۔ بہ نسبت ان افسروں کے جو ان پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ سپاہیوں کو افسر منتخب کرنے کا جمہوری اختیار دے کر بہتر ڈسپلن قائم کیا جا سکتا ہے۔
س۔ کیا کوئی سیاسی کومیسار، اگر میں درست لفظ استعمال کر رہا ہوں تو، بھی مقرر کیا جائے گا جسے افسروں پر اختیار حاصل ہوگا؟
ج۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا افسر قابل بھروسہ ہیں یا نہیں۔
س۔ میرے خیال سے سویت روس میں ایسا ہی تھا؟ کیا میں درست کہہ رہا ہوں!
ج۔ جی ہاں! انقلاب کے بعد جو فوج تھی اس میں بے شمار افسر ایسے تھے جنہوں نے زار شاہی کے دوران تربیت حاصل کی تھی۔
س۔ کیا سیاسی کومیسار کے تقرر سے آپ کی مراد افسروں پر جمہوری کنٹرول ہے؟
ج۔ نہیں یہ ایک بالکل مختلف بات ہے۔ جمہوری کنٹرول سے ہماری مراد ہے سپاہیوں کو افسر منتخب کرنے اور افسروں کو (ری کال واپس بلانے) کا حق۔
س۔ مگر کیا آپ ریاستی انتظامیہ کا کوئی نمائندہ، وہ کچھ بھی کہلائے، فوجی دستوں کے ساتھ افسروں پر کنٹرول کے لئے موجود ہوگا؟
ج۔ کیا آپ روسی فوج میں کومیساروں کے ادارے کی بات کر رہے ہیں؟
س۔ معلوم نہیں۔ میں آپ سے پوچھ رہا ہوں؟
ج۔ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں مگر وہ مختلف چیز ہے۔ انقلاب کے بعد ٹراٹسکی کی منظم کردہ اور نوتشکیل شدہ فوج میں ہزاروں ایسے افسر تھے جنہوں نے زار شاہی کے دور میں تربیت حاصل کی تھی۔ مزدوروں کے پاس کوئی موقع موجود نہ تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو افسر بننے کے لئے تیار کر سکتے۔ بہت سے افسر مختلف وجوہات کی بنا پر سویت حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ کچھ انقلاب کے حامی بن گئے تھے۔ کچھ تھے جو انقلاب کے تو مخالف تھے مگر محب وطن تھے اور حملہ آوروں کے خلاف ملکی دفاع کے لئے لڑنا چاہتے تھے۔ کچھ ایسے تھے جنہوں نے حالات سے سمجھوتہ کر کے ان کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان میں سے بہت سے ایسے تھے جن پر سیاسی طور پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان پر کومیسار کو جو کنٹرول حاصل تھا اس کی نوعیت اس سے مختلف ہے جس کی ہم بات کرتے ہیں یعنی الیکشن کے ذریعے۔ یہ کنٹرول حکومت کے مقتدر حلقے کا تھا۔ کومیسار کو مرکزی حکومت قابل بھروسہ نمائندہ کے طور پر مقرر کرتی اور اس کا فرض تھا افسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا اور یہ دیکھنا کہ افسر وفاداری سے اپنے فرائض نبھا رہے ہیں۔ یہ ایک تجربہ تھا جو روس میں کیا گیا۔
ہم نے اپنے پروگرام میں اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ معلوم نہیں یہاں کیا صورت حال ہوگی۔ میں یہاں یہ اضافہ بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جوں جوں افسر نئی حکومت کا حصہ بنتے گئے اور جوں جوں نو تربیت یافتہ افسر آتے گئے، اسی مناسبت سے کومیسار کا ادارہ گھٹتا چلا گیا۔
س۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا سیاسی کومیسار مقرر کرنے کی شق سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے پروگرام میں شامل ہے؟
ج۔ نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ہمارے پروگرام کا حصہ ہے۔
س۔میں آپ سے پوچھ رہا ہوں۔
ج۔ یہ نہ پروگرام کا حصہ ہے نہ ہی اسے رد کیا گیا ہے۔ یہ ان بہت سے نظریات میں سے ایک ہے جن کا جواب دینا باقی ہے۔
س۔کیا سپین میں ہونے والی حالیہ خانہ جنگی میں بھی ایسا ہی نہیں کیا گیا تھا؟
ج۔ جی ہاں! کسی حد تک۔
س۔ کیا آپ ہمیں تھوڑا بہت اس بارے میں بتائیں گے کہ ٹریڈ یونین کے زیر اہتمام ٹریننگ کے بارے میں آپ کا پروگرام کیا چاہتا ہے اور آپ سپین کی مثال دے سکتے ہیں۔ برائے مہربانی اس بارے میں ہمیں بتائیے؟
ج۔ میں نے پہلے ذکر کیا کہ پیپلز فرنٹ نے الیکشن میں اکثریت حاصل کی۔ رجعت پسند اقلیت نے اس کے خلاف بغاوت شروع کر دی اور فوج کے ایک بڑے حصے کی مدد سے سرکشی شروع کر دی۔ دوسری جانب، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، فوج کا ایک حصہ آئینی طور پر بننے والی حکومت کا وفادار رہا جیسا کہ ہمارے ہاں خانہ جنگی کے دوران ہوا… فوج تقسیم ہوگئی۔
مزدور ہتھیاروں کا مطالبہ کر رہے تھے مگر پیپلز فرنٹ کی حکومت انکار کرتی رہی۔ تاخیر سے کام لیتی رہی یہاں تک کہ مزدور اسلحہ استعمال کرنے کی کوئی تربیت حاصل نہ کر سکے۔ سپین میں فاشزم کی فتح کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ مزدور تنظیمیں فاشسٹوں کی سب سے زیادہ مخالف تھیں۔ سپین میں ہماری پارٹی نے گو پیپلز فرنٹ حکومت کی حمایت نہیں کی مگر فاشسٹوں کو شکست دینے کے لئے اس نے مسلح جدوجہد کی حمایت کی، اس میں حصہ لیا اور ری پبلیکن، ڈیموکریٹ اور دیگر پارٹیوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑائی لڑی۔
یونینوں اور مزدور تنظیموں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی مشینری کے ذریعے لوگوں کو خود منظم اور مسلح کر کے، بہ نسبت پیپلز فرنٹ حکومت کے ذریعے، بہتر انداز میں لڑ سکتے ہیں۔ وہاں کی مضبوط یونینوں نے اپنے دستے تشکیل دیئے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے دستے تشکیل دیئے جو محاذ پر ری پبلیکن اور باضابطہ آرمی کے شانہ بشانہ جنگ میں لڑے۔ ان کے بغیر سپین میں سنجیدہ فوجی جدوجہد ممکن نہ تھی۔ مگر شروع کے سالوں میں سپین کے مزدوروں کو فوجی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا ہوتا، بالخصوص انہیں افسر بننے کے لئے تربیت کا موقع ملا ہوتا تو سپین کی خانہ جنگی کا نتیجہ مختلف ہوتا۔
س۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا حکومت کی وفادار فوج نے اسی قسم کا جمہوری کنٹرول نافذ نہیں کر رکھا تھا جس کی بات آپ کا پارٹی پروگرام کرتا ہے۔
ج۔ میرے خیال سے ابتدا میں ایسے کچھ دستوں میں یہ کنٹرول موجود تھا جن کو یونینیں کنٹرول کر رہی تھیں۔ میرے علم میں نہیں کہ کیا پوری فوج میں ایسا تھا۔ میں سپین کی خانہ جنگی میں ملٹری کے حوالے سے زیادہ علم نہیں رکھتا۔
س۔ کیا آپ کی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ امریکی فوج کو بھی اس انداز میں چلایا جائے؟
ج۔ جی ہاں! ہم سمجھتے ہیں کہ سپاہیوں کو افسر منتخب کرنے کا حق ہونا چاہئے۔
س۔ ابھی سے؟
ج۔ جی ہاں ! ابھی سے۔
س۔ اور اگر ہمیں جنگ میں جانا پڑ جائے تو؟
ج۔ اس صورت میں تو اس کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ یہ زیادہ اہم اس لئے ہو جاتا ہے کہ سپاہی اپنی مرضی سے وہ افسر چن سکیں جن پر انہیں بھروسہ ہو۔ وہ خطرات کا مقابلہ کرنے جا رہے ہوں گے۔ یہ انتہائی ناخوش کن صورت حال ہے کہ ان کی زندگی کو خطرے میں ڈالا جائے اور ان کی کمان ایسے افسر کے ہاتھ میں ہو جن پر سپاہیوں کو بھروسہ نہ ہو۔
س۔ کیا یہ درست نہیں کہ آپ کی پارٹی کے ارکان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ فوج میں جا کر بھی پارٹی سے وفادار رہیں۔
ج۔ انہیں ایسی کوئی ہدایت نہیں کی جاتی مگر اس بات کو یقینی سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی شخص جس کی تربیت ہماری تحریک نے کی ہو، وہ کسی بھی قسم کے حالات میں اپنے اصول ترک نہیں کرے گا۔
مسٹر شیون ہاٹ ۔ یور آنر! کیا آپ اس موقع پر کارروائی روکنا چاہیں گے؟
عدالت۔ جیوری کے معزز خواتین و حضرات! کل تھینکس گوینگ ڈے (Thanks giving Day) ہے اور ہم یہ دن منائیں گے۔ اس دن کے لئے نیک خواہشات۔
عدالت کی ہدایات کو ذہن میں رکھیں۔
جمعہ کی صبح دس بجے تک کارروائی ملتوی کی جاتی ہے۔
(اس پر 4:35 شام تا 10:00 بجے صبح، بروز جمعہ، 21نومبر 1941ء تک باقاعدہ وقفہ کیا گیا)