س۔ سرمایہ داروں کو دبانے کے لئے قدرتی امر کے طور پر آپ حکومت کو دبائیں گے۔ کیا یہ درست ہے کہ نہیں؟
ج۔ اگر ہمیں اکثریت حاصل ہو جائے اور ہم پرامن جمہوری انداز میں حکومت حاصل کر لیں تواس صورت میں ہم حکومت کا ڈھانچہ قطعی تبدیل کر کے اسے نمائندہ کو نسلوں کی بنیاد پر تشکیل دیں گے جیسا کہ آج صبح میں نے وضاحت کی تھی۔
س۔ چلیں فرض کریں حکومت کائونٹ کارولی کی مثال پر عمل نہیں کرتی۔ اور آپ کے خلاف متحرک ہوجاتی ہے۔ کیااس صورت میں آپ حکومت کو الٹ دیں گے؟
ج۔ آپ کی مراد ہے کہ اگر حکومت جمہوری الیکشن کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اکثریت کو روکنے کی کوشش کرے تو؟
س۔ اوہ! تو کیا یہ اکثریت آپ الیکشن کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ج۔ ہم مسلسل الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اکثریت یا اقلیت ثابت کرنے کا مناسب موقع مہیا کرنے سے قبل اس ملک کا حکمران طبقہ تشدد پر اتر آئے گا۔
س۔ اچھا یہ بتائیں یہ سب اس ملک میں کس طرح سے عمل میں آئے گا۔ برائے مہربانی اس سوال کا جواب کسی دوسرے ملک کے انقلاب کی مثال دے کر واضح نہ کریں۔ مگر یہ بتائیں اس ملک میں یہ سب کیسے ہوگا؟ اس سلسلے میں مجھے آپ کے خیالات کے دھارے کی وضاحت کر لینے دیجئے: آپ نے کہا کہ اگر انہوں نے اکثریت کو روکنے کی کوشش کی۔ اس سے آپ کی کیا مراد ہے، آپ کے ذہن میں جو پروگرام ہے اس کی وضاحت کیجئے؟
ج۔ موجودہ حالات کے اندر جو کسی حد تک آنے والے دنوں میں بھی ہم بطور ایک اقلیتی پارٹی کے اپنے نظریات کی ترویج کرتے رہیں گے، ممبر سازی کریں گے، بڑی پارٹی بننے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ مقبولیت اور حمایت میں اضافے کی کوشس کریں گے۔
اگر حالات موجودہ نہج پر ہی چلتے رہے اور ہمیں اپنے پروگرام کی اثر پذیری پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے تو قدرتی بات ہے ہم تیزی سے ترقی نہیں کریں گے مگر ہم بطور مارکسسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخی ارتقاء کے نتیجے میں ہمیں مدد ملے گی۔ موجودہ نظام کا مکمل دیوالیہ پن، مسائل حل کرنے میں اس کی نااہلی، اس نظام کی وجہ سے لوگوں کے حالات زندگی میں گراوٹ اور ناامیدی کے نتیجے میں لوگ سڑکوں پر نکلیں گے اور حل تلاش کریں گے۔ ان حالات میں ہمارے پروگرام کو لوگ مناسب اور درست سمجھیں گے اور ہم ایک بڑی پارٹی بننے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ ہمارے جیسا پروگرام رکھنے والی کئی پارٹیاں اس طرح ہی بڑی پارٹیاں بنیں۔
س۔ میں آپ کی بات سمجھ گیا۔ آپ ٹھیک جا رہے ہیں۔ مگر آپ سمجھنے کی کوشش کریں میں آپ سے یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ یہ سب اس ملک میں کیسے عمل میں آئے گا؟
ج۔ ہماری پارٹی کی ترقی درحقیقت ٹریڈ یونینوں اور مزدور تحریک کی بڑھوتری کا عکس ہوگی۔ یونینیں مجبور ہوں گی کہ وہ جارحانہ اقدام کریں کیونکہ امریکی سرمایہ دار کے خیال میں مزدور کو یہ حق نہیں کہ وہ اچھی زندگی گزارے اور اس کے اوقات کار مناسب ہوں۔ وہ اسی کوشش میں رہے گا کہ مزدور کا زیادہ سے زیادہ خون نچوڑا جائے۔
سرمایہ دار ’’قومی دفاع‘‘ اور جنگ کے خطرات کو بہانہ بنا کر مزدوروں کو حق ہڑتال سے محروم کرنے کوشش کریں گے۔ ایک بار جب وہ حب الوطنی کے نام پر حق ہڑتال چھین لیں گے تو اس کے بعد وہ تنخواہوں میں کمی کریں گے۔ مراعات دینے سے انکار کریں گے اور مزدوروں کو مجبور کریں گے کہ وہ اس صورت حال کو بدلنے کے لئے زیادہ جفاکش اقدامات کریں گے اور اس کے نتیجے میں ہماری پارٹی ترقی کرتی چلی جائے گی۔
ان ساٹھ خاندانوں اور ان کے حامیوں کا ممکن ہے اگلا اقدام یہ ہو کہ سرمایہ داروں کے مخالف نظریات کی مقبولیت کو روکا جائے اور قانون سازی کے ذریعے مزدور تنظیموں کو روکا جائے۔ مینی سوٹا میں سٹاسن اینٹی سٹرائک لاء اس کی ابتداء ہے۔
لوگوں کو اپنے خیالات کے سچے اظہار کی پاداش میں گرفتار کر کے، جھوٹے مقدموں میں پھانس کر، جیلوں میں ڈالا جائے گا۔ فاشسٹ غنڈوں کے جتھے تشکیل دیئے جائیں گے جیسا کہ جرمنی میں سٹیل کا کاروبار کرنے والے ارب پتی فرٹز تھیسن (Fritz Thyssen) نے اقرار کیا تھا کہ اس نے ہٹلر کی غنڈہ تنظیم کو کروڑوں مارک فراہم کئے۔ ہٹلر کے غنڈوں کا کام یہ تھا کہ وہ مزدوروں کے جلسے الٹائیں اور انہیں ان کے جمہوری اور شہری حقوق سے محروم کریں۔
س۔کیا سرمایہ دار قانون سازی کا سہارا لیںگے؟
ج۔ جی ہاں ! وہ قانون سازی جو آئین کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ پہلی ترمیم اس قسم کی قانون سازی سے منع کرتی ہے۔ اور ان حالا ت میں وہ جنگ میں جائیں گے اور وہ پندرہ لاکھ کی فوج بنا کر دم نہیں لیں گے‘ وہ پچاس لاکھ کی فوج بنائیں گے۔ وہ لاکھوں امریکی نوجوانوں کو اپنی منڈیوں اور منافع کے تحفظ کی خاطر کی جانے والی سامراجی مہموں پر بھیجیں گے۔ جانیں ضائع ہوں گی۔ اندرون ملک حالات دگرگوں ہوںگے کیونکہ ساٹھ کروڑ سے ایک ارب ڈالر تک اخراجات کا جو تخمینہ لگایا جا رہا ہے جو جنگ کے بے کار مقصد پر خرچ ہوں گے‘ یہ اخراجات کسی نے تو ادا کرنے ہیں اور ان کا بوجھ عوام اور غریب کسانوں پر ڈالا جائے گا۔
زبوں حالی میں اضافہ ہوگا اور وہ لوگ جو آزادی اور حقِ زندگی چاہیں گے‘ جو جنگی جنون ‘ بڑھتی ہوئی فاشزم اور بے روزگاری سے نجات چاہیںگے ان کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔
سں۔آپ کی کہانی کا یہ حصہ دوران جنگ سامنے آئے گا؟
ج۔ اگر جنگ لمبی ہوتی گئی تو دوران جنگ بھی یوں ہوسکتا ہے اور ممکن ہے یہ سب تباہ کن انداز میں جنگ کے اختتام پر ہو جب لاکھوں سپاہی‘ فتح یا شکست جو بھی ہوا‘ گھر لوٹیں گے اور انہیں کوئی نوکری نہ ملے گی اورآج نظر آنے والی خوشحالی کا بلبلہ پھوٹ جائے گا کیونکہ اس کا انحصار جنگی اسلحہ ساز صنعت پر ہے۔
جس لمحے وہ جنگی جہاز‘ بمبار طیارے‘ بندوقیں‘اسلحہ اور دیگر جنگی سامان بنانا بند کریں گے‘ اس ملک میں پچیس سے تیس ملین افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔ چھوٹے کاروبار بیٹھ جائیں گے اور کسان جو پچھلے پچیس تیس سال سے بحران کا شکار ہے‘ اس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
اس ملک کے باشندے اس بحران کے سیاسی حل کے لئے سنجیدگی سے سوچنے لگیں گے جو موجودہ رہنمائوں کا پیدا کردہ ہوگا مگر یہ رہنما اس کا کوئی حل نہ دے پائیں گے۔ اس بنیاد پرہی میں اپنی پارٹی کے ارتقاء بارے پر امید ہوں۔تب ہم کیا چاہیں گے؟ ہم اپنے خیالات کی تبلیغ کا حق چاہتے ہیں۔ ہم آزادی تحریر و تقریر اوراکٹھ کی آزادی چاہتے ہیں۔
سں۔درست مگر میرے خیال سے آپ موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔ آپ اپنی کہانی میں اس نقطے پر پہنچے ہیں کہ امریکہ میںیہ سب کیسے ہوگا جب ہر شخص ناخوش بلکہ … ناخوش سے بھی بدتر… غصے میں ہوگا۔ بتائیں اس کے بعد کیا ہوگا؟
ج۔ میںیہی بتانا چاہ رہا ہوں۔ میں نے کہا اس صورت میں ہم کیا چاہیں گے۔ ہم یہ موقع چاہتے ہیں کہ امریکی عوام کو بتا سکیں اس بحران کو ہم کس طرح حل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ ہمارا مطالبہ ہے اور اگر یہ مطالبہ پورا ہوگیا تو ہم اپنا پروگرام الیکشن میں پیش کریں گے۔ہم یونینوں میں قراردادیں پیش کریں گے ۔ ہم کسان تنظیموں میں قراردادیں پیش کریں گے۔ ہم کسانوں اور شہر کے مزدوروں کی کانفرنسیں منعقد کرنے کی کوشش کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا اس بحران کے حل کے لئے کوئی مشترکہ پروگرام تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
ہم الیکشن میں حصہ لیں گے‘ اور اگر ہم منتخب ہوگئے اور ہمیں ہمارے انتخابی حق سے محروم نہ کیا گیا تو ہم اس مسئلے کو کانگرس میں زیر بحث لائیں گے۔اس معمولی شرط پر کہ ہمارے آئینی حقوق سے ہمیں محروم نہیں کیا جاتا‘ ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم لوگوں کی اکثریت کو اپنے پروگرام کے حق میں جیت لیںگے۔
اور جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا اکثریت کی مرضی کا اظہار معمول کے مطابق اور جمہوری انداز میں ہوگا‘ اس کا فیصلہ ساٹھ خاندان کریں گے‘ انہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ تشدد شروع کرنا چاہتے ہیں یا پر امن حل کو قبول کرتے ہیں۔
س۔ ایک منٹ رکئے! ابھی آپ حکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے لئے منتخب نہیں ہوئے، آپ ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں آپ نے ایک آدھ الیکشن جیتا ہے، آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ حکومت بنانے کی حد تک الیکشن میں کامیابی حاصل کر لیں گے؟
ج۔ جی ہاں! ایسا سوچا جا سکتا ہے۔
س۔ میرا مطلب ہے کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟ آپ کا مطمع نظر یہ ہے؟
ج۔ امیدواراوں کا مقصد یہی ہے کہ وہ منتخب ہوں۔
س۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ انتخاب کے ذریعے حکومتی اختیارات سنبھال سکتے ہیں؟
ج۔ جی ہاں بشرطیکہ سرمایہ دار تشدد کے ذریعے ہمارا راستہ نہ روکیں۔
س۔ آپ کا مطلب ہے کہ سرمایہ دار آپ کو منتخب نہیں ہونے دیں گے؟
ج۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پارلیمانی طریقہ کار کے ذریعے معاشرتی تبدیلی ایک فریب ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے یا یہ کہ ہم اس طریقہ کار کو بخوشی قبول نہیں کریں گے۔ اس امکان کو رد کرنے کی بنیاد تاریخ بارے ہمارا علم ہے، اس کو رد کرنے کی بنیاد امریکی حکمران طبقے کے لالچ و غارت گری بارے میں ہمارا علم ہے، امریکی حکمران طبقہ کبھی اس حل کو قبول نہیں کرے گا۔
س۔ ہم اپنے سوال کی طرف واپس جاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ساٹھ خاندان وغیرہ وغیرہ آپ کو الیکشن کے ذریعے اقتدار حاصل نہیں کرنے دیں گے؟
ج۔ درست۔
س۔ وہ ایسا کس طرح کریں گے… کیا وہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روک دیں گے؟
ج۔ وہ مختلف طریقوں سے ہمیں روک سکتے ہیں۔
س۔ کس طرح؟
ج۔ وہ الیکشن منسوخ کر سکتے ہیں۔
س۔ برائے مہربانی اس بار ے میں ہمیں بتائیے؟
ج۔ایسا کئی ملکوں میں کئی بار ہوچکا ہے اور یہ کوئی ان ہونی بات نہیں۔
س۔ وہ یہ سب کس طرح کریں گے؟
ج۔ الیکشن کینسل کر دیں گے اور ایسا صرف ہم ہی نہیں سوچتے۔
س۔ آپ کا مطلب ہے وہ الیکشن کرانے کی اجازت نہیں دیں گے؟
ج۔ لنڈبرگ جیسی معروف شخصیت نے سنجیدگی سے اس بابت نشاندہی کی ہے کہ شاید 1942ء میں کانگرس کے لئے انتخابات نہ ہوں۔ میرے خیال سے اس نے قبل از وقت یہ بات کی ہے مگر یہ کوئی ٹراٹسکی اسٹ آئیڈیا نہیں کہ وہ الیکشن روک دیں گے۔
س۔ شائد میں نے اپنے سوال کی وضاحت نہیں کی۔ میں یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ سرمایہ دار آپ کو منتخب ہونے سے کیسے روکیں گے؟ آپ نے کہا ان کے پاس کئی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ الیکشن سبوتاژ کر دیں گے۔ اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ سرے سے الیکشن ہی نہیں ہونے دیں گے؟
ج۔ جی ہاں! یہ ممکن ہے۔
س۔آپ کے خیال میں آپ کو حکومت بنانے سے روکنے کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے۔
ج۔ جی ہاں! یسا ہوچکا ہے۔
س۔ یہاں؟
ج۔ یہاں تو ابھی تک نہیں ہوا۔ فرانس میں۔ پٹین حکومت منتخب نہیں ہوئی تھی مگر اب وہ الیکشن نہیں کرانا چاہتی۔ اس حکومت نے جمہوری پارلیمنٹ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ میرے خیال سے۔۔۔۔
عدالت: مسٹر کینن! میرے خیال سے آپ سوال کے متن تک محدود رہیں۔ ہم کارروائی کے اس مرحلے پر فرانس کے الیکشن میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
س۔ (ازمسٹر شیون ہاٹ):۔ میں بات لمبی نہیں کرنا چاہتا لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں۔ میں دوبارہ یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ امریکی سرمایہ دار آپ کو الیکشن کے ذریعے حکومت بنانے سے کس طرح روکیں گے! آپ نے بہت سے طریقوں میں سے ایک کا ذکر کیا ہے۔ وہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔
ج۔جی ہاں۔
س۔ یہ بتائیں دیگر کون سے طریقہ کار ہو سکتے ہیں؟
ج۔ ایک اور طریقہ قانون سازی کا ہے جس کے ذریعے مزدور پارٹیوں پر ضابطے لگائے جا سکتے ہیں۔
س۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت کیجئے۔
ج۔ پارلیمانی فتح کے لئے کی جانے والی ضروری کارروائیوںپر پابندی، ان کے اظہار عمل اور کام پر مختلف پابندیاں۔
س۔ کوئی اور طریقے؟
ج۔ جی ہاں ! ایک اور طریقہ اور زیادہ امکان ہے۔ ساٹھ خاندان اس طریقہ کار کو اپنائیں گے کہ فاشسٹ تحریک کو منظم کر کے بذریعہ طاقت مزدور تحریک کو تباہ کر دیا جائے۔ قبل اس کے کہ وہ الیکشن میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے۔
اٹلی میں اس طرح ہوا اور میں دوسرے ملکوں کی مثال اس لئے دے رہا ہوں کہ اس طرح ہم اس پراسیس کو سمجھ سکتے ہیں جو یہاں دہرایا جا سکتا ہے۔ میرا ارادہ ہرگز یہ نہ تھا کہ میں ان مثالوں کے ذریعے کوئی غیر متعلقہ مسئلہ اٹھائوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مختلف ملکوں میں سرمایہ داری نظام ایک جیسے حالات اور ایک جیسے اصولوں کے تحت چلتا ہے۔
س۔ آپ ان اقدامات کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ میرے خیال سے آپ ان اقدامات کو ان کے اٹھائے جانے سے قبل روکنے کی کوشش کریں گے؟
ج۔ جی ہاں
س۔ آپ ان اقدامات کو کیسے روکیں گے؟
ج۔ سب سے پہلے تو ہم اپنا حق استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ سب سے پہلے تو ہم لوگوں کی بھرپور حمایت اس مسئلے پر حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، چاہے وہ لوگ ہمارے سیاسی نظرئیے سے اتفاق کریں یا نہ کریں، کہ تمام لوگوں کے شہری حقوق اور جمہوری عمل جاری رہے۔
جب ہم دیکھیں گے کہ فاشسٹ جتھے اس مقصد کے تحت تشکیل دیئے جا رہے ہیں کہ مزدور تحریک کو توڑا جائے اس صورت میں ہم مزدوروں سے کہیں گے کہ وہ ورکرز ڈیفنس گارڈ بنائیں، اس سے قبل کہ دیر ہو جائے اور ہم مزدوروں سے کہیں گے کہ وہ فاشسٹوں کو ان کے جلسے اور تنظیمیں تباہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔ یہ دو اہم ترین اور فوری خیالات ہیں جو ہماری نظر میں مزدور حقوق کے تحفظ اور جمہوری انداز میں مزدور تحریک کے ارتقاء کے حوالے سے ذہن میں آتے ہیں۔
س۔فرض کریں الیکشن منسوخ نہیں ہوتے۔ کیا یہ درست ہے کہ آپ پراپیگنڈہ جاری رکھیں گے؟
ج۔ درست
س۔ حکومت میں آنے کی کوشش کریں گے؟
ج۔ درست
س۔ اس میں چاہے کتناہی وقت لگ جائے؟
ج۔ ہم وقت کا کوئی تعین نہیں کر سکتے۔
س۔ سرمایہ دار الیکشن کس طرح منسوخ کریں گے؟ اس مقصد کو وہ کس طرح حاصل کریں گے؟
ج۔ مختلف طریقوں سے کر سکتے ہیں۔۔۔ قانون بنایا جا سکتا ہے، کانگرس سے ووٹ لیا جا سکتا ہے کہ ایمرجنسی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ الیکشن کی جدوجہد میں نہ پڑا جائے اور اس دوران اختیارات صدر یا کسی اور شخص کو دے دیئے جائیں۔ یہ عرصہ لمبا بھی ہو سکتا ہے اور مختصر بھی مگر زیادہ امکان ہے کہ یہ عرصہ لمبا ہوگا۔
فرانس کے عوام کی منتخب کی ہوئی پارلیمنٹ کے ساتھ بالکل یہی ہوا۔ سوشلسٹ، ریڈیکل سوشلسٹ، کمیونسٹ، کنزرویٹو اور دیگر پارٹیوں کی نمائندگی کو محدود کر دیا گیا۔ پارلیمنٹ تحلیل کر دی گئی اور ایک آمر کو اختیارات کے ساتھ تاحکم ثانی نامزد کر دیا گیا۔ بالکل اسی طرح ہوا (اشارہ کرتے ہوئے)
س۔ فرض کریں جن مفروضوں کا آپ ذکر کر رہے ہیں۔ واقعات اس انداز سے وقوع پذیر نہ ہوں، وہ یہ سب کچھ نہ کریں اور آپ سینٹ، ہائوس اور حکومت کا کنٹرول بذریعہ الیکشن حاصل کر لیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ فوج اور نیوی آپ کے خلاف ہو جائیں گی اور آپ کی اتھارٹی کی مزاحمت کریں گی۔
ج۔ میرے خیال سے وہ چند افسر جو حکمران طبقے کے مقتدر حلقوں سے تعلق رکھتے ہوںگے ایسا کر سکتے ہیں۔ کچھ افسر عوامی حکومت کی اتھارٹی کو متنازعہ بنا سکتے ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں۔
س۔ جی ہاں! مجھے معلوم ہے آپ مثالیں دے رہے ہیں مگر میں اس ملک کی بات کر رہا ہوں۔ اب آپ الیکشن کے ذریعے حکومت بنا چکے ہیں۔ بتائیں اس صورت میں آپ کے خلاف مزاحمت کی شکل کیا ہوگی۔ یہ مزاحمت کون کرے گا اور کس طرح کرے گا؟
ج۔ محروم ہو جانے والے کے خطرے سے دوچار حکمران طبقے کے ایجنٹ کریں گے۔
جس طرح لنکن نے کیا
س۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت کی نیوی اور آرمی اپنی بندوقوں کا رخ آپ کی طرف کر دیں گی اگر آپ الیکشن کے ذریعے حکومت حاصل کر لیں تو؟
ج۔ میرا خیال ہے کچھ افسر ایسا کر سکتے ہیں مگر سب نہیں۔ اگر آرمی اور نیوی کے تمام لوگوں میں یہ سوچ پائی جا رہی ہوگی تو یہ اس بات کا اظہار ہوگا کہ ہم منتخب نہیں ہو سکتے کیونکہ آرمی اور نیوی کم و بیش عام عوام کا ہی عکس ہوتے ہیں۔ اگر ہم اقلیتی ووٹ حاصل کر کے منتخب ہوتے ہیں تو یقین رکھیں اس کا عکس آرمی اور نیوی کے اداروں میں بھی نظر آئے گا۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
س۔ آپ اس سرکشی کا مقابلہ کیسے کریں گے؟
ج۔ جس طرح لنکن نے 1861ء میں کیا۔
س۔ کیا آپ حکومت میں آنے سے پہلے ہی آرمی بنا لیں گے یا اس وقت جو فوج موجود ہوگی، جب آپ حکومت میں آئیں گے، اسے استعمال کریں گے۔
ج۔ ہم وہ اقدامات اٹھائیں گے جو ممکن ہوں گے۔ 1861ء میں امریکی فوج کے ایک بڑے حصے اور افسران نے لنکن کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ جو لوگ بغاوت میں شریک نہیں ہوئے لنکن نے ان کو ساتھ ملایا، کچھ نئے لوگ بھرتی کئے اور باغیوں کا مقابلہ کیا۔ میں ہمیشہ یہ سمجھتا آیا ہوں کہ یہ زبردست حکمت عملی تھی۔
س۔ مگر کیا اس دوران آپ ورکرز ملیشیا تشکیل نہیں دینا چاہیں گے؟
ج۔ ورکرز ڈیفنس گارڈ۔ جی میں اتفاق کرتا ہوں۔
س۔ میرا مطلب ہے صرف یونین دفاتر کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ دیگر مقاصد کے لئے بھی۔ کیا یہ درست ہے؟ جب آپ اقتدار کی طرف بڑھ رہے ہوں گے کیا اس دوران آپ ورکرز ملیشیا تشکیل نہیں دیں گے؟ تاکہ جب آپ حکومت حاصل کر لیں تو یہ آپ کی مدد کر سکیں؟
ج۔ ہم ورکرز ڈیفنس گارڈ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ خالص امریکی اصطلاح ہے اور ہم جو اظہار اس اصطلاح سے کرنا چاہتے ہیں وہ بخوبی اس کے ذریعے ہوتا ہے۔ ورکرز ڈیفنس گارڈ اسی حساب سے پھلے پھولیں گی جس حساب سے ان کو کام درپیش ہوگا نہ کہ ہماری مرضی کے مطابق۔
اگر فاشسٹوں میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ یونینوں کے خلاف لڑائی لڑتے ہیں تو یونینوں کو لازمی طور پر ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی ڈیفنس گارڈ بنانی پڑے گی۔ اگر یہ ڈیفنس گارڈ فاشسٹ غنڈوں اور بدمعاشوں کا مقابلہ نہ کر پائیں گی تو یونینوں کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ ہوگا کہ وہ اپنی گارڈ کو مزید مضبوط بنائیں۔ فاشسٹوں اور ورکرز ڈیفنس گارڈ کے درمیان اس جدوجہد میں ہمیں امید ہے ورکرز ڈیفنس گارڈ ترقی کریں گی اور آخرکار زبردست طاقت حاصل کر لیں گی۔
س۔ چلیں معاملے کو ذرا ٹھنڈا کرتے ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ منتخب نہیں ہو سکتے؟
ج۔ ہمارا پروگرام کہتا ہے کہ نہیں اور اس کی وجوہات میں بیان کر چکا ہوں۔
س۔ مگر آپ کو توقع ہے کہ آپ بہرحال اقتدار حاصل کر سکتے ہیں؟
ج۔ جی ہاں! انقلاب کو جبرسے نہیں دبایا جا سکتا کیونکہ انقلاب عوام کی اکثریت کی زبردست معاشرتی تحریک ہوتا ہے۔
س۔ گویا آپ کی پارٹی منتظر ہے کہ سرمایہ داروں اور آپ کے نظریات میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کے نتیجے میں خانہ جنگی لازمی امر ہے؟
ج۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم اس انداز میں منتظر نہیں کہ ہم خانہ جنگی کی خواہش رکھتے ہیں۔
س۔ جی میں آپ کی بات سمجھ گیا۔
ج۔ اور ہم اسے لازمی امر نہیں سمجھتے۔ تاریخی عمل کے کئی رخ ممکن ہیں۔
مگر ہم یہ کہتے ہیں اگر تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے تو زیادہ امکان یہ ہے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ، اس سے قبل کہ ہم کانگرس میں اکثریت حاصل کر یں، مزدوروں کے ساتھ تنازعہ کو فاشسٹ تشدد کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کرے گا یا اگر ایسا مقام آتا ہے کہ ہم جمہوری الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں آجائیں تو حکمران طبقہ ہمارے خلاف غلام داروں کی بغاوت کھڑی کر دے گا۔ ہم اس بغاوت کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
س۔ اور اس مقصد کے لئے آپ پہلے ہی سے ورکرز آرمی تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟
ج۔ اس قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ محض پروگرام کی مدد سے ورکرز آرمی تشکیل نہیں دے سکتے۔ مزدوروں کی فورس یونینوں کے اندر سے، ورکرز ڈیفنس گارڈ کے اندر سے، مسلح افواج میں موجود سپاہیوں اور کسانوں کے اندر سے جنم لے گی۔ جب لوگوں کی اکثریت ہمارے ساتھ ہوگی تو ہم بے وسائل نہ ہوں گے۔
س۔ میں آپ کی بات سمجھ گیا۔ اب یہ بتائیں کیا یہ درست نہیں کہ ہر ٹریڈ یونین کے اندر ورکرز ڈیفنس گارڈ کی تشکیل ممکنہ مزاحمت کے پیش نظر آپ کے پروگرام کو تقویت فراہم کرتی ہے؟
ج۔ جی ہاں۔ یہ ایک لازمی امر ہے۔
س۔ گویا آپ کے حتمی مقصد کے لئے یہ ایک اچھی بات ہے کہ یونین ڈیفنس گارڈ ابھی سے بنائی جائیں؟
ج۔ اگر انہیں تشکیل دیا جا سکے تو یہ اچھا خیال ہے مگر آپ ورکرز ڈیفنس گارڈ محض اس لئے منظم نہیں کر سکتے کہ آپ ایسا چاہتے ہیں۔ جب ان کی زبردست ضرورت محسوس ہوتی ہے تو مزدوروں کو پتہ ہے انہیں ایسا کرنا ہے، ہمارے خیالات سے ان کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
س۔ کیا سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے لئے یہ بات خوش آئندنہ ہوگی کہ ہر ٹریڈ یونین کے اندر اپنے حتمی مقصد کی خاطر ورکرز گارڈ تشکیل دی جائے۔
ج۔ میں اس سے ذرا آگے جا کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب یونینوں کو فاشسٹ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ورکرز ڈیفنس گارڈ کی تشکیل خود بخود عمل میں آجاتی ہے۔
مگر گارڈ کوئی ایسی شے نہیں جسے ہم دو ہاتھوں سے بنا لیں۔ یہ جدوجہد کے ارتقاء کے نتیجے میں قدرتی عمل کے طور پر جنم لیتی ہیں اور ہم اس عمل کو قبل از وقت بھانپنے کی کوشش کرتے ہیں، اس عمل کو تیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس خیال کو مقبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں، مزدوروں کو بتاتے ہیں کہ یہ اچھی حکمت عملی ہے اور انہیں اس بارے میں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے ہم کتنی ہی کتابیں کیوں نہ لکھ ڈالیں اور چاہے کتنا بھی شور مچالیں، اگر کہیں یونین کو مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا تو ورکرز ڈیفنس گارڈ تشکیل نہیں دی جا سکتی۔مینا پولیس میں آپ کہہ سکتے کہ اس کا بہترین اظہار ہوا جہاں یونین کے اندر ہمارے بہت سے کامریڈ ہیں اور بہت سارے بہت اچھے دوست ہیں مگر جب سلور شرٹس کا خاتمہ ہوگیا تو یونین ڈیفنس گارڈ کے کرنے کو کچھ باقی نہ رہا لہٰذا وہ ختم ہوگئی۔ اسے مصنوعی طور پر تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔
س۔ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یونین ڈیفنس گارڈ کا وجود باقی نہیں رہا۔
ج۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ وہ باضابطہ طور پر موجود ہے البتہ وہ متحرک نہیں۔ کم از کم گواہوں سے تو یہی پتہ چلتا ہے۔