احمد صاحب کافی برہم ہوئے تھے کہ انہیں رات کو ہی ابان کی حالت کے بارے میں کیوں نہیں بتایا۔
وہ صبح ہی آمنہ بیگم کو ساتھ لیے ہسپتال چلے گئے تھے۔
ہسپتال میں فہد اکیلا نہ تھا، بلکہ سبحان اور اس کی بیوی (ردا) اور بیٹا (ماہر) بھی موجود تھا۔
اسلام علیکم آنٹی۔۔۔۔ ردا نے ہی آمنہ بیگم کو سلام کیا تھا۔ وہ سبحان کی موم، ڈیڈ کو پہلے بھی کافی بار تصویروں میں دیکھ چکی تھی۔
احمد صاحب نے ردا کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دیا۔ جبکہ چار سالہ مائر خود احمد صاحب کی گود میں چڑھ گیا تھا۔
دادا جانی آپ کو میں اتنی بار تصویروں میں دیکھ چکا ہوں۔ بابا جانی کہتے ہیں کہ یہ میرے دادا جان ہیں۔ کیا آپ سچ میں ہمارے ساتھ چلیں گے؟
جی میری جان اب ہم ساتھ رہیں گے۔
آپ کے بابا کہاں ہیں؟
وہ چاچو کے پاس ہیں۔ انہیں چوٹ آئی ہے نا اس لیے۔۔۔۔۔
وہ مائر کو اٹھائے اندر کی طرف بڑھ گئے، جہاں ابان موجود تھا۔
ڈیڈ۔۔۔۔
سبحان ان کی طرف بڑھا تھا، مگر وہ ہاتھ کے اشارے سے ہی اسے روک چکے تھے۔
آمنہ بیگم نے ہی آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو سینے سے لگایا تھا۔
چھٹی کا کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر؟ احمد صاحب نے فہد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
جی انکل اب ہم اسے گھر لے کر جا سکتے ہیں۔ کچھ فارمیلٹیز ہیں میں وہ پوری کر کے آتا ہوں۔ آپ یہاں بیٹھ کر انتظار کریں، پھر چلتے ہیں۔
آمنہ بیگم ابان کے پاس آئی اور اسے بھی پیار کیا۔ موم ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔ بس ذرا سی چھو کر گزری ہے۔
اس نے ایک نظر احمد صاحب پر ڈالی جو کہ صوفے پر جا بیٹھے تھے۔
____________
وہ گھر آگیا تھا۔
گھر میں کافی زیادہ لوگوں کے آ جانے سے کام بھی بڑھ گیا تھا۔ جس کی وجہ سے ذری کو اس کے پاس زیادہ دیر رہنے کا موقع نہ مل سکا۔
یوں سب کے آ جانے سے کچن میں لگی رہی تھی۔
ردا نے بھی اس کی مدد کرنے کے لئے کہا تھا جسے وہ بڑی سہولت سے انکار کر گئی تھی۔
ذری مجھے بھی کوئی کام بتاؤ؟ میں بھی تمہاری مدد کروا دیتی ہوں۔
نہیں بھابھی آپ آج آرام کریں۔ پھر بعد میں آپ کو ہی میرے ساتھ کچن میں کام کروانا پڑے گا۔
ہاں۔۔۔ ہاں کیوں نہیں ضرور۔۔۔۔۔ +
اس نے اس کے لئے دوپہر کے کھانے میں سوپ بنایا تھا۔
وہ اس کے لئے لے جانے ہی لگی تھی کہ سمعیہ آ گئی۔
آغا جان اپنی دوا کے لئے کہہ رہے تھے۔ تم انہیں دوا دے او۔۔۔
یہ کیا ہے؟
ابان کے لیے سوپ ہے۔
وہ خود ابان کو اپنے ہاتھوں سے سوپ پلانا چاہتی تھی۔
میں سوپ ابان کو دے آتی ہوں، تم پہلے آغا جان کو ان کی دوا دے او۔
اس نے نا چاہتے ہوئے بھی باؤل سمعیہ کو دے دیا۔
اس کے بعد پورا دن اسے موقع ہی نہ مل سکا ابان کے پاس جانے کا۔
ماہی اور عاشی بھی رات کے کھانا بنانے میں اس کی مدد کے لیے آ گئی تھیں اور اب وہ رات کے کھانے کے برتن نجمہ سے دلوانے کے بعد اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
______________
وہ اپنے بیڈ پر لیٹا آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔ اس کو زری پر غصہ آیا تھا۔
وہ جب سے آیا تھا۔ وہ ایک بار ہی آئی تھی وہ بھی کچھ پل کے لئے اس کے بعد اس نے دوبارہ کمرے میں قدم رکھنا گوارا نا کیا تھا۔
دوپہر میں سوپ بھی سمعیہ لائی تھی۔ جو کہ ابان کے پوچھنے پر اس نے اسے بتایا تھا۔
کیا یہ سوپ تم نے بنایا ہے؟
ہاں۔۔۔۔۔ بہت محنت سے میں نے یہ سوپ تمہارے لیے بنایا ہے۔
پی کر بتاؤ کیسا بنا ہے؟ وہ سپون اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
ایک دم سے اس کے ذہن میں وہ گاڑی والا منظر لہرایا تھا، جب ذری اسے اپنے ہاتھوں سے آئسکریم کھلا رہی تھی۔
نہیں میں خود کھا لوں گا۔ وہ اس کا بڑھایا ہوا ہاتھ واپس باؤل کی طرف کرتے ہوئے بولا۔۔۔
سمیہ کے جانے کے بعد وہ کچھ دیر سو گیا تھا۔
اور رات سات بجے کے قریب ہی اس کی انکھ کھولی تھی۔
اور رات کا کھانا آمنہ بیگم نے اسے اپنے ہاتھوں سے کروایا تھا۔
اور تب بھی وہ دشمن جان نہیں آئی تھی اور اب نو بجے کے قریب وہ بیڈ پر لیٹا اسے سوچنے میں مصروف تھا۔
دروازہ کھلا تھا۔
اب کوئی شک نہ تھا کہ وہ دشمن جاں ہی ہوگی۔
وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے ایسے ہی لیٹا رہا۔
جب زری دروازہ بند کیے اندر داخل ہوئی وہ اس کی طرف آئی تھی جو ہنز ایسے ہی لیٹا تھا۔
سائیڈ ٹیبل پر دودھ کا گلاس ایسے ہی موجود تھا جیسے اس نے بھجوایا تھا۔
مطلب اس نے میڈیسن نہیں لی؟
اس نے ہاتھ بڑھایا تھا کہ اس کا ہاتھ اس کی آنکھوں سے ہٹا سکے، مقابل اسی ہاتھ سے ہی اس کا ہاتھ جھٹک گیا تھا۔
آپ نے میڈیسن نہیں ملی ابھی تک؟
تمہیں اس سے کیا؟ تم اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔۔۔ وہ اس سے یہ کہہ نا پایا کہ تمہیں اب فرصت ملی ہے۔
زری کو اس کا یوں کہنا دل پر لگا تھا۔ وہ بنا کچھ اور کہے صوفے پر جا بیٹھی تھی اور آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔
وہ انتظار میں تھا کہ وہ اس سے کچھ کہے گی۔ لیکن اس کے ہاتھ اٹھانے پر وہ وہاں کھڑی نہ تھی، بلکہ سوفے پر بیٹھی رونے کا شغل فرما رہی تھی۔
وہ اٹھ بیٹھا تھا یوں جلد بازی میں اٹھنے سے اسے اپنے بازو میں تکلیف ہوئی تھی۔
زری یہ کیا طریقہ ہے؟ مجھے منانے کی بجائے تم خود منہ پھلائے دو میل دور جا بیٹھی ہو۔
اس کے بولنے پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔
اب میڈیسن دوگی یا میں خود اٹھ کر لوں؟
وہ اس کے بولنے پر جلدی سے اٹھی تھی اور اس کو میڈیسن نکال کے دی تھی۔
کیا آپ مجھ سے خفا ہیں؟
کیا مجھے نہیں ہونا چاہیے؟
نہیں۔۔۔۔ خفا ہونے کیلئے وجہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
کیا یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ تم ایک بار بھی مجھے دیکھنے نہیں آئی؟
آپ نے کہا ہی نہیں۔
کیا؟
یہی کی زرفشاں لغاری میرے پاس آؤ؟
میرے کہنے سے تم آ جاتی؟
ہاں۔۔۔۔ میں آ جاتی۔
کیا تم خود نہیں جان سکتی؟
کیا؟
یہی کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے؟
آپ چاہتے ہیں کہ میں خود سے آؤں؟
ہاں ۔۔۔۔
کیوں؟ زرفشاں لغاری ہی کیوں ہمیشہ پہلے قدم بڑھائے؟
تم کیا چاہتی ہو؟
میں آپ کو اپنے پاس دیکھنا چاہتی ہوں؟
تم جانتی ہو یہ خطرناک ہے۔
ہاں۔۔۔۔ لیکن اب مجھے خطروں سے ڈر نہیں لگتا۔
تو پھر کس سے لگتا ہے؟
آپ کو کھو دینے سے۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے سوالوں کے جوابات دینے میں اتنا مگن تھے کہ دروازہ بجنے کی آواز تک سنائی نہ دی۔
زری ہی پہلے اس سحر سے نکلی تھی اور دروازہ کھولنے کے لیے بڑھی تھی۔
چاچی۔۔۔۔۔ چاچو۔۔۔۔ کو بھاگ کر ابان کے پاس بیڈ پر آ گیا تھا۔
میرے شیر۔۔۔۔ کیا تم ابھی تک سوئے نہیں؟
میں آج آپ کے ساتھ سؤں گا۔
یار تم بڑے ہو گئے ہو۔ بہادر بنو تمہیں اب اپنے کمرے میں سونا چاہیے۔۔۔۔۔ وہ اسے سمجھانے کے انداز میں بولا تھا۔
چاچو آپ تو مجھ سے بڑے ہیں۔ تو پھر آپ چاچی کے ساتھ کیوں سوتے ہیں؟ کیا آپ کو ڈر لگتا ہے؟ مائر کی بات سنے زری کا بلند قہقہہ گونجا تھا۔
یار تم کتنے شیطان ہو۔ میں تو تمہیں ایک اچھا بچہ سمجھ رہا تھا۔ ابان منہ بگاڑتے ہوئے بولا۔۔۔
چاچی آپ بھی بیڈ پر آجائیں۔
ذری اپنی ہنسی روکتی بیڈ پر آ گئی تھی۔
اور مائر ان دونوں کے درمیان میں لیٹ گیا تھا۔
زری بھی لائٹ آف کیے لیٹ گئی تھی۔
مائر آپ ذرا میری طرف ہو جاؤ آپ کے چاچو کو چوٹ لگی ہے نا تو انہیں درد ہوگا۔ ۔۔۔
گھر میں آج کافی شور و گل تھا۔
احمد صاحب اپنے کمرے میں موجود تھے، جب ابان اور سبحان کمرے میں داخل ہوئے تھے۔
ڈیڈ بھائی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہیں کہ انہیں موقع ہی نہیں دے رہے۔
کیا ضرورت تھی اتنی رات کو آئس کریم کھانے کی؟ احمد صاحب ابان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولے تھے۔
اتنے میں ذری چائے لئیے اندر داخل ہوئی۔
ڈیڈ آپ کی بہو ہی ضد کر رہی تھی، اگر اسے آئسکریم نہ لے کر دیتا تو پھر آپ کو یا آغا جان کو شکایت آنی تھی میری۔۔۔۔۔ یہ سب ابان نے زری کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
جبکہ زری تو حیران رہ گئی۔۔۔ کیسے اپنے بچاؤ کے لیے اسے آگے کردیا۔
اگر ہماری بیٹی کے کہنے پر گئے تھے تو پھر معاف کیا۔ وہ ذری ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے بولے۔ ڈیڈ بھائی سے بھی ناراضگی ختم کریں۔۔۔
میں ناراض نہیں ہوں اسے کہہ دو کہ کل سے فیکٹری آنا شروع کرے۔ اب تم لوگوں کا باپ بڑھا ہو رہا ہے۔
ابھی تو آپ ینگ ہیں ڈیڈ۔۔۔۔ سبحان اٹھ کر ان کے گلے لگتا ہوا بولا۔۔۔
وہ سب مسکرا دیئے۔
آج ظفر صاحب اپنے بیٹے دانیال کے ساتھ ماہی کے رشتے کے لئے آ رہے ہیں۔
میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ بھی اس وقت گھر پر موجود ہو۔
دانیال۔۔۔۔ ؟؟
ہاں! زری کی خالہ کا بیٹا۔ اس کی ماں اس دنیا میں نہیں رہیں، اکیلا بھائی ہے اور اس کے باپ کا اپنا بزنس ہے۔
اس کے والد صاحب فیکٹری آئے تھے۔
اب تم دونوں بھی دیکھ بھال لو۔ مجھے تو یہ رشتہ ٹھیک لگا ماہی کے لیے۔۔۔۔
اور بیٹا تم بھی ماہی سے ایک بار اپنے طریقے سے پوچھ لو۔۔۔۔
جی تایا ابو۔۔۔۔
_____________
وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی جب ابان کو خود سے شرٹ پہنتے دیکھا۔
وہ اس کی طرف بڑھی تھی اور اس سے شرٹ لی تھی۔ مگر مقابل اپنی شرٹ واپس لے چکا تھا۔
تم یہ جانتی تھی کہ دانیال رشتہ بھیجنا چاہتا ہے؟وہ بنا جواب دیے شرٹ لینے کے لئے آگے ہوئی۔۔۔
میں کچھ پوچھ رہا ہوں؟
ہاں۔۔۔۔۔ جانتی تھی۔
تو مجھے کیوں نہیں بتایا؟
میں بتانا چاہتی تھی لیکن آپ نے مجھے کمرے سے باہر نکال دیا تھا۔ وہ دوسری طرف منہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
اسے اپنے سوال کرنے پر پچھتاوا ہوا۔
اس نے اسے اپنی طرف موڑا۔
زری اگر کبھی میں تمہیں خود سے بھی کہوں کہ مجھے چھوڑ دو یا مجھ سے دور چلی جاؤ تو بھی تم مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جانا۔۔۔۔۔ وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔
اچھا اب شرٹ پہنا دو۔۔۔۔
خود ہی پہنیں اپنی شرٹ۔۔۔ وہ شرما گئی تھی۔
ایسے کیسے پہنچوں گا؟ کیا تم جانتی نہیں تمہاری وجہ سے گولی کھائی ہے؟
اس کے بولنے پر زری نے فٹ سے اسے دیکھا۔
آپ مجھے قصوروار مانتے ہیں؟
اس کے اس طرح دیکھنے سے وہ جان گیا تھا کہ وہ غلط کہہ گیا ہے۔
وہ جانے کو تھی۔ جب وہ اس کی چین پکڑ گیا تھا۔ تم چاہتی ہو کہ یہ ٹوٹ جائے؟ تو شرافت سے میری طرف دیکھو۔۔۔
وہ اس کی طرف مڑی تھی۔
یار ذری میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہہ نہیں پاتا اور میرے منہ سے کچھ غلط ہی نکل جاتا ہے۔
اچھا ٹھیک ہے۔ اب مجھے چھوڑیں، مجھے ماہی کو بھی تیار کرنا ہے۔ اور آپ بھی جلد ہی نیچے آ جائیں۔
_____________
ماہی میں معافی چاہتی ہوں کہ میں نے تمہیں اس کے بارے میں پہلے نہیں بتایا۔ وہ اسے تیار کرتی ہوئی بولی۔۔۔
تم کیوں معافی مانگ رہی ہوں۔ اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے اور ویسے بھی میرے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ میری وجہ سے میرے دونوں بھائی اکٹھے ہوگئے ہیں۔ اس طرح ہماری فیملی پھر سے پوری ہوگئی ہے۔ اور سب اس رشتے سے راضی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
آمنہ بیگم نے بھی اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، وہ بھی اسی میں راضی تھیں کہ ان کا پورا خاندان پھر سے ایک ہوگیا ہے۔
اور ویسے بھی دانیال کھاتے پیتے گھر کا تھا نہ کوئی بہن بھائی اور نہ ہی کوئی لمبا چوڑا خاندان وہ مطمئن تھیں کہ ان کی بیٹی خوش رہے گی۔
شادی کی تاریخ ایک ماہ بعد کی رکھی گئی تھی۔۔۔
__________
آمنہ بیگم نے ذری اور ردا کو اپنے کمرے میں بلوایا تھا۔
وہ دونوں اس وقت آمنہ بیگم کے کمرے میں موجود تھیں۔
میں تم دونوں کو کچھ دینا چاہتی ہوں۔۔۔۔ آمنہ بیگم نے دو ڈبے اپنی الماری سے نکالے تھے ایک ذری کی طرف بڑھایا تھا اور دوسرا ردا کی طرف۔۔۔
یہ میں نے اپنی بہوؤں کے لئے رکھے تھے اب جب کہ مجھے میری دونوں بہوئیں مل گئی ہیں تو پھر دیر کیسی۔۔۔۔
تھینک یو سو مچ آنٹی۔۔۔۔
آنٹی نہیں بیٹا تم بھی مجھے موم کہا کرو سبحان کی طرح۔۔۔
شکریہ تائی امی۔۔۔
وہ دونوں باری باری آمنہ بیگم کے گلے لگیں ۔۔۔
_____________
ایک ماہ بعد:
ماہین لال جوڑے میں سجی سنوری دلہن بنی بہت پیاری لگ رہی تھی اور اس کے ساتھ بیٹھا دانیال خوب جچ رہا تھا۔
کیا تم واقعی ہی خوش ہو ماہی؟
ہاں میں خوش ہوں۔۔۔۔ وہ ہال میں نگاہ دوڑاتے ہوئے بولی جہاں اس کے ماں باپ، بھائی بھابھی، آغا جان چچی سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔
زری کب سے ادھر سے ادھر پھرے جا رہی تھی اور ابان اسے یو پھرتے دیکھ غصے میں آیا تھا۔
اور اس کے پاس آ کھڑا ہوا تھا۔
وہ سٹیج پر چڑھنے کو تھی، جب وہ اس کا ہاتھ پکڑے فاصلے پر لے آیا تھا۔
یہ کیا حرکت ہے؟
تم کیوں بھول جاتی ہوں کہ ڈاکٹر نے کیا کہا تھا؟
آج میری بہن کی شادی ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں میں خوش بھی نہ رہوں ؟
یار یوں مٹکتی مٹکتی مت پھرو۔۔۔ یہ ہماری ڈول کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔
وہ اس کے لفظ مٹکتی مٹکتی پر مسکرا دیی۔
ابان آپ کو ایسے الفاظ کہاں سے مل جاتے ہیں؟
تمہارے ملتے ہی مجھے دنیا کی ہر چیز مل گئی تھی، تو یہ الفاظ کیا چیز ہیں؟ وہ اسے اپنے قریب کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
آپ کو مجھ سے محبت کب ہوئی تھی؟
تمہیں کس نے کہا کہ مجھے تم سے محبت ہے؟
مطلب آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے؟
یار بیوی سے محبت کسے ہوتی ہے؟
کیوں بیوی سے محبت کیوں نہیں ہو سکتی؟ وہ منہ بنائے بولی تھی۔
چھوڑیں مجھے اگر آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے تو۔۔۔۔
میں نے آپ کا نام صحیح رکھا تھا۔ "ستمگر"
ہاہاہا یہ کیسا نام ہوا بھلا؟
آپ ہیں ہی ستمگر۔۔۔۔۔ وہ یہ کہہ کر جانے کو تھی جب وہ اسے تھام چکا تھا۔
ابان لغاری کے لیے زرفشاں ابان لغاری سانس لینے کی وجہ بن گئی ہے۔ میں خود نہیں جانتا کب سے لیکن یہ سچ ہے کہ ابان لغاری کو زرفشاں لغاری سے محبت ہے اور اس محبت کی انتہا وہ خود نہیں جانتا۔۔۔۔ وہ اسے اپنے سینے سے لگائے بولا تھا۔
تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا
یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرہ نہیں ملتا
ہر اک تدبیر اپنی رائیگاں ٹھہری محبت میں
کسی بھی خواب کو تعبیر کا رستہ نہیں ملتا
بھلا اس کے دکھوں کی رات کا کوئی مداوا ہے
وہ ماں جس کو کبھی کھویا ہوا بچہ نہیں ملتا
زمانے کو قرینے سے وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے
مگر میرے لیے اس کو کوئی لمحہ نہیں ملتا
مسافت میں دعائے ابر ان کا ساتھ دیتی ہے
جنہیں صحرا کے دامن میں کوئی دریا نہیں ملتا
جہاں ظلمت رگوں میں اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے
اسی تاریک رستے پر دیا جلتا نہیں ملتا !
ختم شدہ
_______________