شور کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی تھی۔
اپنے آس پاس اس کی خوشبو محسوس کرتے وہ دو پل کے لئے آنکھیں موند گئی تھی۔ اور ایک لمبی سانس اپنے اندر کھینچی تھی۔
اس بات سے انجان کے جس کی خوشبو اسے آ رہی تھی وہ بہت قریب ہی لیٹا اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔
ایسے سانس کیوں لے رہی ہو؟؟ اس کی آواز پر اس نے پھٹ سے آنکھیں کھولی تھیں۔
جس سحر میں وہ کچھ پل پہلے ایسا محسوس کر رہی تھی جیسے خواب میں ہوں، اب اسی میں اس کا دم گھٹنے کو تھا۔
وہ بجلی کی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور ایک سرد نگاہ ابان پر ڈالی تھی۔
آپ میری سوچ سے بڑھ کر گھٹیا ہیں۔ آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی؟ آپ بھی باقی مردوں کی طرح سطحی سوچ رکھنے والے نکلے۔۔۔ جب آپ مجھے دھتکار چکے تھے، پھر کیوں لے کر آئے مجھے اپنے کمرے میں۔۔۔۔۔ کیوں؟
آپ بس اپنے حقوق جانتے ہیں، میرے حقوق کا کیا؟ آپ کا جب دل چاہے گا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے نکال دیں گے اور جب چاہے گا اپنا حق استعمال کرتے ہوئے واپس لے آئیں گے؟ مطلب میں زرفشاں لغاری ابان لغاری کے لیے ایک کھلونا ہوں؟ جسے جب دل چاہا اپنے پاس رکھ لیا اور جب دل چاہا باہر پھینک دیا۔۔۔۔۔
زری!!!!!! وہ دھاڑا تھا۔۔۔۔۔
لیکن آج اس کی دھاڑ پر زرفشاں لغاری کانپی نہیں تھی وہ نہ ہی اپنی آنکھیں بند کی تھیں۔
پتہ نہیں اس میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی تھی جو آج ابان لغاری کے سامنے کھڑی اپنے دھتکارے جانے کی وجہ مانگ رہی تھی۔
وہ اٹھا تھا اور اس کی طرف بڑھا تھا اور اس کے عین سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔
وہ حیران تھا جو لڑکی رات تک اپنی بات کہنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔ سامنے کھڑی کانپ رہی تھی۔
اب وہ کس بہادری سے نہ صرف اپنی بات کہہ گئی تھی بلکہ ابان لغاری کو آئینہ بھی دکھا گئی تھی۔
آئندہ کے بعد اگر تم نے اپنی زبان سے اپنے لئے اتنے بے ہودہ الفاظ استعمال کیے تو زبان گُدی سے کھینچ لوں گا۔
تم ابان لغاری کے لئے کوئی کھلونا نہیں ہو بلکہ جیتی جاگتی سانس لینے کی وجہ ہو۔
اور رہی بات حق کی، تو یہ سچ ہے کہ ابان لغاری زرفشاں لغاری پر پورا حق رکھتا ہے اور یہ حق اسے پانچ سال سے حاصل ہے۔
جب چاہے وہ اپنا حق استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے لئے اسے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
اور گھٹیا ہونے کی بات۔۔۔۔ تو یہ تم نے میرے علم میں ایک نئی بات کا اضافہ کیا ہے۔ وہ اس کے بالوں کو بگاڑ ے، بغیر فریش ہوئے کمرے سے باہر چلا گیا۔
وہ اپنا سر ہاتھوں میں گرائے بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
مطلب وہ شخص صرف اپنا حق وصول کرنا جانتا تھا باقی کسی کا وقار، غروہ، انا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ سوچ کر رو دی۔
______________
السلام علیکم! خالہ جانی وہ نیچے آیا، تو ہال میں سب موجود تھے۔
فرزانہ بیگم کی پوری فیملی تھی۔ انہیں ابھی دو گھنٹوں تک فلائٹ کے لئے نکلنا تھا۔ وہ سب سے مل کر صوفے پر یاسر کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
رابیعہ بیگم بھی فرزانہ کو عمرے کی مبارک باد دے گئی تھیں۔
آمنہ بیگم بھی وہیں موجود تھیں۔ جس پر ابان نے کوئی تاثر شو نہیں کروایا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس طرح اس کی ماں کو کسی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔
زری نظر نہیں آرہی؟ یہ یاسر کی آواز تھی۔جس نے ماہی کی طرف منہ کیے پوچھا تھا، لیکن ساتھ بیٹھا ابان اس کی بات سن چکا تھا۔ اور اس کا ذری کہنا اسے ناگوار گزرا تھا۔
میں اسے لے کر آتی ہوں۔۔۔۔۔
ماہی کی آواز پر وہ ایک دم چونک پڑتا تھا۔
ایسا کرتے ہیں آپ سب ناشتہ کریں میں فریش ہو کر آتا ہوں، تو پھر سب ائیرپورٹ چلتے ہیں۔ اسے ماہی کو کمرے میں جانے سے روکنے کے لیے یہی صحیح لگا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ پاگل اس وقت رونے کا شغل فرما رہی ہوگی۔
بھائی ہم سب جائیں گے؟
ہاں۔۔۔ کیوں نہیں، جلدی سے سب اپنے اپنے کام نپٹاؤ۔ وہ یہ کہہ کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
_______________
فرزانہ بیگم اور ان کے شوہر خیر و عافیت سے پہنچ گئے تھے۔
سمعیہ لغاری ہاؤس میں ہی تھی، یاسر بھی کبھی کبھار لغاری ہاؤس آ جایا کرتا تھا۔
آج چھٹی کا دن تھا ابان گھر پر ہی موجود تھا۔ وہ سٹڈی روم میں بیٹھا کوئی فائل دیکھ رہا تھا، جب آمنہ بیگم اندر داخل ہوئیں۔۔۔
ابان! میرے بچے کب تک یوں ہی اپنی ماں سے خفا رہو گے؟
تمہاری یہ ناراضگی تمہاری ماں کو دن بدن موت کے منہ کی طرف لے کر جا رہی ہے۔
وہ اپنی ماں کی بات سنئے اٹھ کھڑا ہوا تھا اور ان کے سینے سے جا لگا تھا۔
میں آپ سے ناراض نہیں ہوں، لیکن جو آپ نے کیا وہ غلط تھا موم۔۔۔ آپ کیسے اس لڑکی کے خلاف بول سکتی ہیں جو آپ کے بیٹے سے منسوب تھی؟
میں مانتی ہوں کہ میری غلطی ہے۔ لیکن میں یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ لڑکی میرے بیٹے کے لئے اتنی اہم ہے۔ تم اس کی وجہ سے باہر پڑھنے گئے تھے، ہم سب سے دور۔۔۔۔ میں ان سب کا ذمہ دار اسی کو مانتی تھی۔
نہیں موم۔۔۔۔۔ مجھے کچھ بننا تھا۔ ڈیڈ مجھے شروع سے نالائق سمجھتے تھے۔ مجھے انہیں کچھ بن کر دیکھانا تھا۔ اور یہ پڑھائی کے بغیر ممکن نہ تھا۔
تمہارے ڈیڈ تمہیں نالائق نہیں سمجھتے بس وہ تمہیں ناسمجھ جانتے ہیں۔
نہیں موم وہ مجھے کچھ نہیں سمجھتے۔ وہ دکھ بھرے لہجے میں بولا تھا۔
جب تم سارا پیار اپنی ماں سے کروگے اور باپ کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا، تو وہ نالائق ہی کہے گا ناسمجھ اولاد کو۔۔۔۔ احمد صاحب کی آواز پر وہ دونوں الگ ہوئے تھے اور دروازے کی طرف دیکھا تھا جہاں احمد صاحب کھڑے تھے۔
ڈیڈ۔۔۔۔
احمد صاحب ان دونوں کی طرف بڑھے تھے وہ ان سے بغل گیر ہوا تھا۔
میں اپنے بیٹے کو بہت سمجھدار سمجھ رہا ہوں۔ وہ اسے اپنے سامنے کھڑا کرتے ہوئے بولے۔۔۔
ایک بات بتاؤ۔۔۔۔۔ کیا تمہارے بھائی کا دل نہیں کرتا کہ وہ اپنی ماں، باپ سے ملے؟
ان کی بات سنے، اس نے آمنہ بیگم کی طرف دیکھا اور پھر اپنے ڈیڈ کی طرف۔۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ کیا میں لاعلم ہوں کہ تم اس سے کانٹیکٹ میں ہو؟
میں اسے سمجھ دار سمجھتا تھا۔ لیکن اصل نالائق تو وہی نکلا۔
میں جانتا ہوں کہ وہ اس وقت کراچی میں ہمارے پوتے اور بہو کے ساتھ ہے اور اپنا اسٹیٹ کا بزنس کھولے بیٹھا ہے۔
اسے کہو کہ ہمارے پوتے اور بہو کو لے کر واپس آئے، اور بہن کی خوشیوں میں شامل ہو اور پیار و محبت سے رخصت کرے۔
انہوں نے ایک نگاہ آمنہ بیگم پر ڈالی۔
وہ جانے ہی لگے تھے جب ابان بول پڑا۔۔۔
ڈیڈ جب سب ٹھیک ہونے جارہا ہے تو پھر آپ اور موم۔۔۔۔۔
یہ ہمارا آپس کا مسئلہ ہے، جسے ہم خود حل کرلیں گے۔ بہتر ہے کہ تم وہ کرو جو میں کہہ رہا ہوں۔ وہ یہ کہ کر کمرے سے نکل گئے۔
موم میں شروع سے ہی کہتا آ رہا ہوں کہ آپ کے مزاجی خدا کا مزاج سمجھ سے باہر ہے۔ وہ اپنی ماں کا اداس چہرہ دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔
اور میں تمہیں بھی شروع سے کہہ رہی ہوں اپنے کام سے کام رکھا کرو۔۔۔۔
اووو۔۔۔ مطلب پارٹی چینج؟؟؟ وہ انہے اپنے ساتھ لگاتا ہوا بولا۔۔۔
______________
زری! آج رات کا کھانا صرف آغاجان، موم، ڈیڈ اور چچی لوگوں کے لیے بنانا۔۔۔۔۔
کیوں؟؟؟؟
کیونکہ یاسر بھائی کو نوکری ملنے کی خوشی میں ہم باہر جا رہے ہیں اور کھانا بھی باہر کھائیں گے اور تم یہ چھوڑ دوں نجمہ سب دیکھ لے گی۔
یاسر بھائی باہر حال میں موجود ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ہم سب نکلیں گے، تو پھر ٹائم کم ہے تم بھی جا کر ریڈی ہو جاؤ۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ مجھے نہیں جانا تم سب لوگ جاؤ اور انجوائے کرنا؟
تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ کیوں ایسی ہو گئی ہو؟ کیا تم اب ایسے بیہو کیا کروں گی؟ کسی کی خوشی میں شامل ہونا تو اچھی بات ہے اور تم ہو کہ۔۔۔۔۔۔ وہ منہ بنائے بولی۔
ٹھیک ہے میری ماں میں چل رہی ہوں۔
ٹھیک ہے جاؤ اور تیار ہو جاؤ۔ میں امی وغیرہ کو بتا کر آتی ہوں۔
وہ اپنے کمرے میں آئی تھی، جہاں ابان پہلے سے موجود تھا، وہ بیڈ پر بیٹھے اپنے سامنے لیپ ٹاپ کھولے کافی مصروف دیکھ رہا تھا۔ وہ صبح سے ہی کافی مصروف تھا۔
چھٹی ہونے کے باوجود بھی سٹڈی میں یا کبھی اپنے کمرے میں تھا۔
وہ بنا کچھ کہے الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگی وہ ایک سادہ سوٹ نکالے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
وہ بظاہر مصروف دیکھ رہا تھا، مگر وہ زری کی ساری حرکتیں نوٹ کر چکا تھا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ نیچے یاسر انہیں ڈنر پر لے جانے کے لیے آیا ہوا ہے۔
وہ کپڑے بدلے ڈریسنگ کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔
کہیں جا رہی ہو؟
وہ اس کے سامنے بہت کم آتی تھی اور اس وقت وہ کچن میں ہی پائی جاتی تھی، لیکن اس طرح تیار ہوتا دیکھ وہ پوچھ بیٹھا تھا۔
جی۔۔۔
کہاں؟ اور کس کے ساتھ؟ وہ وہیں بیٹھے بیٹھے پوچھ رہا تھا۔
وہ یاسر بھائی اپنی نوکری لگنے کی خوشی میں ہم سب کو ڈنر پر لے جا رہے ہیں۔
وہ صرف اس کے سوالوں کے جواب دیا کرتی تھی۔ وہ خود سے کچھ نہیں بولتی تھی، نہ پوچھتی تھی۔ اس کا جواب سنے اس کے ماتھے پر تیوڑی چڑھی تھی۔ کہ وہ خود سے کچھ پوچھے بنا بتاتی نہ تھی، اب بھی وہ اس کے پوچھنے پر ہی بتا رہی تھی۔ حالانکہ اسے خود اسے آکر بتانا چاہیے تھا، اجازت چاہے نہ لیتی کم از کم آکر بتا تو سکتی تھی۔
وہ اس کے سر پر جا کھڑا ہوا تھا۔
تم کہیں نہیں جا رہی۔۔۔۔۔۔
کیوں؟ وہ بھی چییر سے اٹھی اور اس کے مقابل آ کھڑی ہوئی تھی۔
تم ایسے کیسے کسی کے ساتھ بھی جا سکتی ہو؟ وہ کہنا چاہتا تھا کہ تمہیں کم سے کم مجھے بتانا تو چاہیے تھا، لیکن وہ کچھ اور کہہ گیا تھا۔
کیوں؟ میں کیوں نہیں جاسکتی؟ کیا آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے؟
یا آپ کو میرا کرکٹر صاف۔۔۔۔۔ وہ پچھلی بات کا حوالہ دیتے ہوئے بولی تھی۔
زری! تم یہ سب باتیں کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟
تم چاہتی ہو کہ ابان لغاری تمہارے سامنے جھک جائے؟
میں سچ میں اپنے پچھلے الفاظ پر نادم ہوں۔
زری نے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔ اور بنا کچھ کہے کمرے سے نکل گئی تھی۔۔۔
تم پر جچتی ہی نہیں شرمندگی
اپنی نظریں اٹھاؤ جاؤ معاف کیا
ایک دو دن میں کچھ لوگ ماہی کے رشتے کے لئے آ رہے ہیں۔ احمد صاحب اپنے کمرے میں موجود آمنہ بیگم سے مخاطب تھے۔
کون لوگ ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں؟
جی۔۔۔۔۔ وہ کل آئیں گے تو آپ بھی جان جائیں گی۔
وہ ان کی اور ناراضگی مول نہیں لے سکتی تھی اسی لیے وہ خاموش ہو گئی تھی۔
وہ بنا کچھ کہے باہر آ گئی تھی، جہاں سب لوگ جانے کی تیاری میں تھے۔
وہ زری کو سیڑھیوں سے آتا ہوا دیکھ چکی تھی۔
زری کو لگا کے ابھی اور ذلالت ہونا ابھی باقی ہے۔
وہ آئی اور آمنہ بیگم کے پاس ہی کھڑی ہو گئی۔
تم بھی جا رہی ہوں؟ آمنہ بیگم کے پوچھنے پر وہ ہاں میں سر ہلا گئی تھی۔
نجمہ اکیلی اتنے کام کیسے کر ے گی؟ اگر تم بھی چلی جاؤ گی تو؟
موم نجمہ پہلے بھی سارے کام اکیلی ہی دیکھتی تھی۔ یہ ابان کی آواز تھی جو زری کے پیچھے ہی آ گیا تھا۔
چلیں۔۔۔۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے باہر لے آیا، جہاں سب پہلے سے موجود تھے۔
بھائی آپ بھی جائیں گے؟
بھئی اگر میری بیوی کو لے کر جانا ہے تو پھر میرا جانا شرط ہے۔ اس کا ہاتھ دبایا جو کچھ دیر پہلے پکڑے باہر آیا تھا۔
اس کے اس طرح کہنے پر سمیہ نے ناگواریت سے زری کو دیکھا۔
وہ اسے وہاں سے لئے اپنی کار کی طرف بڑھ گیا جبکہ ماہی اور سمعیہ یاسر کی گاڑی میں بیٹھی تھیں۔
وہ خوشگوار ماحول میں کھانا کھائے اب واپسی کے راستے پر تھے۔
کیا تم آئس کریم کھاؤ گی؟
نہیں۔۔۔۔
لیکن مجھے کھانی ہے۔ وہ یہ کہہ کر گاڑی ایک آئس کریم پارلر پر روک چکا تھا۔
وہ گاڑی میں بیٹھے اردگرد دیکھ رہی تھی جب اسے تھوڑے سے فاصلے پر دو بائیک دیکھیں۔ جس پر چار لوگ سوار تھے۔ جن میں سے دو ابان کو دیکھ رہے تھے، اور دو اردگرد کا جائزہ لے رہے تھے۔
اسے کچھ ٹھیک نہیں لگا تھا ان لوگوں کا اس طرح ابان کو دیکھنا اور ان میں سے ایک نے گاڑی کی طرف بھی اشارہ کیا تھا۔
ابان جیسے ہی گاڑی میں آ کر بیٹھا تو اس کا دل کیا کہ وہ اسے بتا دے لیکن پھر خاموش ہوگئی۔
یہ پکڑو آئس کریم۔۔۔ وہ آئس کریم اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے نہیں کھانی۔۔۔۔۔
میں نے کب کہا ہے کہ تمہارے لئے ہے؟ میرے لئے ہے۔وہ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے بولا۔
تو آپ مجھے کیوں دے رہے ہیں؟
تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا، میں گاڑی چلا ؤ یا آئسکریم کھاؤ؟ اگر تمہارا دل چاہے تو تم بھی کھا سکتی ہو۔ وہ اس کی طرف ایک آنکھ دباتے ہوئے بولا۔
زری اس کی بات سے خاموش ہو گئی تھی۔
یہ میرے حلال کے پیسوں کی ہے، جسے تم ضائع کرنے پر تلی ہو۔ رزق کو ضائع کرنے سے بھی گناہ ملتا ہے۔
اس کے یوں درس دینے پر زری نے آئس کریم کا ایک سپون اس کی طرف بڑھایا تھا۔ جسے وہ بڑے مزے سے کھا گیا تھا۔
وقفے وقفے سے وہ اسے 4، 5 سپون کھلا گئی تھی۔ گاڑی کافی سنسان راستے پر آ گئی تھی۔
وہ ان سب باتوں میں بائیک والوں کو بھول گئی تھی، اس نے شیشے سے دیکھا تھا۔
وہ دو بائیک ابھی بھی ان کے پیچھے ہی تھیں۔
اس نے ایک نظر ابان کو دیکھا تھا۔
کیا ہوا؟ ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟
ابان۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے شاید پہلی بار اس کے سامنے اسے نام سے پکارا تھا۔
کیا کہا تم نے ابھی؟ میرا نام لیا، تمہارے منہ سے کافی اچھا لگ رہا ہے، چلو شکر ہے تم نے آپ، جناب کے بجائے میرا نام لیا اور اب ہم میں دوستی پکی ہے۔ صحیح کہہ رہا ہوں نا میں؟
ابان دو بائیک ہمارا پیچھا کر رہی ہیں۔ اس نے جلدی سے بولا۔
ابان نے جلدی سے شیشے سے دیکھا تھا۔
تمہیں کیسے پتہ چلا؟
یہ سب آئس کریم پالر سے ہمیں نوٹ کر رہے تھے؟
تو بیوقوف پہلے کیوں نہیں بتایا؟ وہ چلایا تھا۔ وہ اکیلا تو ان سب سے نپٹ لیتا یوں زری کے ساتھ ہوتے اسے اس کی فکر ہوئی تھی۔
آپ نے ابھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور اب آپ مجھ پر چلا رہے ہیںن وہ اداسی سے بولی تھی۔
جب ایک بائیک ان کے سامنے آ رکی تھی اور گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔
تم باہر نہیں نکلو گی۔
میں آپ کو بھی جانے نہیں دوں گی۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ چکی تھی۔
وہ لوگ گاڑی کے پاس آکر کھڑے ہوئے تھے جب کسی ایک نے گاڑی کا شیشہ بجایا تھا۔
ابان نے اپنی طرف کا شیشہ نیچے کیا تھا۔
باہر آؤ۔۔۔۔
نہیں ابان آپ باہر نہیں جائیں گے۔ وہ رو پڑی تھی۔
ابان گاڑی سے اترا تھا۔
جو بھی ہے نکال دے۔
ان میں سے ایک شخص ابان کی کمر پر بندوق تانے کھڑا تھا۔
زری یہ دیکھتے ہی باہر آ کھڑی ہوئی تھی۔
ابان۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کی طرف بڑھنے کو تھی جب ایک شخص اسے پکڑ چکا تھا۔
انہیں چھوڑ دیں۔۔۔۔۔ یہ لیں، یہ سب لے لیں وہ اپنے زیور اتار چکی تھی۔ ان میں وہ دو کنگن بھی تھے جو ابان نے اسے منہ دکھائی پر دیے تھے۔
یہ چین۔۔۔۔
زری نے چین پر ہاتھ رکھا تھا۔ نہیں۔۔۔۔ میں یہ نہیں دے سکتی۔
وہ شخص زری کی چین کی طرف ہاتھ بڑھائے ہوئے تھا ،جب ابان زری کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔
ہاتھ نہیں لگانا اسے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ زری کی طرف مڑا تھا۔ زری چین اتار دو۔۔۔
نہیں۔۔۔ میں نہیں دوں گی۔
زری میں کہہ رہا ہوں نا کہ اتار دو۔۔۔۔۔۔ وہ اس کی چین اتارنے کو تھا، جب زری پیچھے ہوئی تھی۔
نہیں۔۔۔۔۔ اس چین کی اہمیت میری نظر میں دگنی ہوگئی ہے کیونکہ یہ میرے بابا نے دی تھی اور اس میں پہنا لوکٹ آپ نے۔۔۔۔
میں اور ایسی بہت سی چین لے آؤں گا۔۔۔ پلیز۔۔۔۔
یہ ایسے ہی ڈرامے کریں گے۔ تو نکال چین لڑکی کے گلے سے۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک شخص اپنے ساتھی سے بولا تھا۔
وہ شخص آگے بڑھا اور زری کو کھینچا تھا۔
وہ گاڑی کے بونٹ سے جا لگی تھی۔
ابان نے اندھا دھن لڑائی شروع کر دی تھی۔
گولی چلنے کی آواز پر زری کی سانسیں تھم گئی تھیں۔
گولی ابان پر چلی تھی۔
گولی کے چلتے ہی وہ لوگ اپنی بائیک لیے بھاگے تھے۔
ابان۔۔۔۔۔۔۔۔
_____________
ڈاکٹر ابان کیسا ہے؟
وہ سب اس وقت ہوسپٹل میں موجود تھے۔ جب فہد نے ڈاکٹر سے پوچھا، جو ابھی آئی سی یو سے باہر آئے تھے۔
ہم نے گولی نکال دی ہے۔ انہیں گولی بازو کے مسلز پر لگی ہے۔ صبح تک ہوش بھی آجائے گا۔
عاشی تم زری اور ماہین لوگوں کو لے کر جاؤ۔
یاسر بھی وہیں موجود تھا، فہد نے اسے کچھ بھی کہنا مناسب نا سمجھا۔
بھائی مجھے انہیں ایک بار دیکھنا ہے۔
وہ زری کو ابان کے پاس لے گیا تھا۔
زری نے دیکھا وہ واقع ہی ایک رات میں ہی مرجھا گیا تھا۔ ڈاکٹر کے مطابق خون کافی بہہ چکا تھا۔
عاشی کو کار چلانی آتی تھی وہ خود ڈرائیو کر کے سب کو لے آئی تھی۔
گھر میں اغاجان، آمنہ بیگم، احمد صاحب اور رابیعہ بیگم سب ابان کی حالت سے لاعلم تھے۔
اسی لئے وہ سب آرام آرام سے اپنے کمرے میں جلے گئے۔
ماہی اور سمیعہ ایک کمرے میں ہی چلی گئی تھیں۔
عاشی نے زری کے ساتھ ہی رہنا مناسب سمجھا تھا اس کی حالت کے مدنظر، لیکن زری نے بڑی سہولت سے اسے انکار کر دیا تھا۔
عاشی میں کچھ دیر اکیلا رہنا چاہتی ہوں۔
ہاں۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔۔ وہ اسے اس کے کمرے کے دروازے پر چھوڑ کر واپس ماہی لوگوں کے پاس چلی گئی تھی۔
______________
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ آج خالی تھا ورنہ وہ جب کمرے میں آتی تھی تو وہ پہلے سے موجود ہوتا تھا وہ بیڈ کے پاس آئی تھی اور وہ لیپ ٹاپ اٹھایا تھا جس پر وہ کچھ کام کر رہا تھا وہ کچھ پل ایسے ہی اس کے بارے میں سوچتی رہی اب ان کو جب گولی لگی تھی تو زری کو لگا کہ وہ سانس نہیں لے پائے گی وہاں وہ اس کی طرف لپکی تھی اور اپنا دوپٹہ زور سے اس کی بازو پر دبانے کے انداز میں رکھا تھا وہ ہوش میں تھا مگر جیسے ہی درد کی شدت بڑی بھوک میں خوش ہوتا گیا تھا وہ بھی تھی اور وضو کے نماز ادا کرنے لگی تھی اور اپنے سائن کے لئے خدا سے گڑگڑا کر دعائیں مانگی تھی