میں سجدے میں زور زور سے رو رہا تھا اور اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا جس نے مجھے ہمت اور توفیق دی کہ میں سیدھے راستے پر چلا اور اپنے رب کو راضی کر سکا۔۔
سورت ملک اور دونوں فرشتے میرے پاس کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔۔
میرے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔
اخیر صالح فرشتہ آگے بڑھا اور مجھے اٹھاتے ہوئے چپ کرانے لگا۔۔ کہنے لگا۔۔
قاسم علی اب کیوں روتے هو اب تو انعام کی باری ہے اب تو پھل پک چکا ہے اب تو کھانے کی باری ہے۔۔ خوش هو جاؤ کہ تم نے بہترین مال کمایا۔۔ خوش هو جاؤ کے تم نے عمدہ بیج بویا۔۔ اب اپنے چاروں طرف دیکھو کیسی فصل اگی ہے۔۔ تیرے رب کا وعدہ پورا ہو رہا ہے۔۔ وہ اللّٰهُ کبھی بھی اپنے اوپر ادھار نہیں رکھتا۔۔ بلکہ ایک کے بدلے ستر گناہ دیتا ہے۔۔
مگر دیکھ اپنے رب کی شان عالیشان کے وہ نیکیوں کا بدلہ تو ستر گناہ بڑھا کر دیتا ہے مگر گناہ کا بدلہ وہی جو انسان نے کمایا هو دیتا ہے۔۔۔
میں نے شکر الحمد اللہ عزوجل کہتے ہوئے آنسو صاف کر لیے۔۔
دوسرا فرشتہ جو کافی دیر سے خاموش کھڑا دیکھ اور سن رہا تھا۔۔ میرے قریب آیا۔۔
مجھے معاف کر دینا قاسم علی۔ صالح کے کہنے پر میں نے تجھے خوف میں مبتلا کر دیا۔۔ کہنے لگا۔۔
نہیں نہیں معافی کی ضرورت نہیں بلکہ اچھا ہوا آپ نے مجھے اپنا وہ روپ دکھایا۔۔ ورنہ شاید میں اللّٰه تبارک تعالیٰ کے شکر میں کمی کر دیتا۔۔ اب مجھے پتہ ہے میں کہاں سے بچا لیا گیا ہوں اب میں بہتر طریقے سے اپنے رب کا شکر ادا کر پاؤں گا۔۔ میں نے کہا۔۔
وہ مسکرانے لگا اور بولا۔۔ تم واقعی بہت اچھے هو قاسم علی۔ ہر بات میں مثبت پہلو ڈھونڈ لیتے هو۔۔ مبارک ہو۔۔ اب مجھے اجازت دو ان شاء الله روزِ محشر ملاقات ھو گی۔۔ اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔۔
میں نے مصافحہ کیا تو وہ چلا گیا۔۔
سورت ملک میرے قریب آیا ایک بار پھر مجھے سینے سے لگایا۔۔ میرے اندر مزید ٹھنڈک اتری تو میں پرسکون هو گیا۔۔
اب چلیں عالم برزخ۔۔ صالح فرشتہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔
ہاں چلو۔۔ میں پرجوش هو گیا۔۔
جیسے ہی ہم چلنے کے لیے تیار ہوئے میری داہنی طرف ایک بڑا سا دروازہ نمودار ہوا۔۔
فرشتہ صالح نے اشارہ کیا چلو۔۔
میں تھوڑا آگے ہوا تو میرا خاکی جسم وہیں ڈھیر هو گیا۔۔ میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔۔ مجھے مایوسی سی ہوئی کے شاید میرے نصیب میں یہاں رہنا ہی لکھا ہے۔۔ میں کبھی برزخ نہیں جا پاؤں گا شاید مجھے یہاں سے ہی روزِ محشر اٹھایا جائے گا۔۔ میں درد بھری نظروں سے اپنے جسم کو دیکھنے لگا۔۔
کیا ہوا قاسم علی۔۔ صالح نے پوچھا۔۔
لگتا ہے میرا جسم اس قابل نہیں کہ وہاں جا سکے۔۔ میں نے مایوسی سے کہا۔
یہ جسم اب روزِ قیامت ہی اٹھے گا۔۔۔ تمہیں اس جسم کے ساتھ عالم برزخ میں جانا ہے۔۔ صالح نے کہا۔
میں چونک کر اس کی طرف دیکھا تو ہوبہو میرے جسم جیسا نوری جسم میرے سامنے تھا۔۔ میں اس کے قریب ہوا تو وہ میرے اوپر لباس کی طرح جڑ گیا۔ وہ بلکل ہلکا پھلکا ہوا کی مانند تھا۔۔
میں نے حیرت سے صالح کی طرف دیکھا۔۔ اور پوچھا یہ سب کیا ہے۔۔
لگتا ہے تجھے برزخ کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔۔ صالح کہنے لگا۔۔
پتہ تو هے مگر شاید میں بھول گیا ہوں۔۔ کیا چلنے سے پہلے ایک بار مجھے بتاؤں گے تاکہ میری تمام غلطیاں درست هو جائیں۔ میں نے کہا۔۔
تم فکر کیوں کرتے ہو قاسم علی ہم تمہارے ساتھ ہیں۔۔ چل پھر بھی تمہیں بتائے دیتا ہوں۔۔
برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں اس سے مراد موت سے قیامت تک کا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسب مراتب برزخ میں رہیں گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِO لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَO
المومنون، 23 : 98 - 100
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو) وہ کہے گا اے میرے رب! مجھے (دنیا میں) واپس بھیج دے۔ تاکہ میں اس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ہرگز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطور حسرت) کہہ رہا ہو گا اور ان کے آگے ایک دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گےo‘‘
عالم برزخ کا کچھ تعلق دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور کچھ آخر کے ساتھ۔ دنیا کے ساتھ تعلق اس طرح ہے جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب میت کے ثواب کیلئے صدقہ و خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا۔
غافر، 40 : 46
’(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔‘‘
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
لفظ ”برزخ“ لغوی لحاظ سے دو چیزوں کے درمیان حائل چیز کو کہاجا تا ہے اس کے بعد ہر دو چیز کے درمیان حائل ہونے والی چیز کو برزخ کہا جانے لگا، اسی وجہ سے دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے عالم کو ”برزخ“ کہا جاتا ہے۔
اس عالم کو کبھی ”عالمِ قبر“ یا ”عالمِ ارواح“ بھی کہا جاتا ہے ، اس پر قرآن کریم کی بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض اس معنی میں ظاہر ہیں اور بعض واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔
جن آیات سے واضح طور پر عالم برزخ کا اثبات ہے وہ شہداء کی حیات کے بارے میں ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:
<وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ(1
) ”اور خبر دار ! راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں“۔
یہاں پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وآلہ وسلم ) سے خطاب ہوا ہے لیکن سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۵۴/ میں تمام مومنین سے خطاب ہوا ہے:
< وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتٌ بَلْ اٴَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لاَتَشْعُرُونَ ”
اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے “
نہ صرف یہ کہ بلند مرتبہ مومنین مثل شہداء ِراہ خدا کے لئے برزخ موجود ہے
بلکہ فرعون اور اس کے ساتھی جیسے سرکش کفار کے لئے بھی برزخ موجود ہے،
جیسا کہ سورہ مومن میں ارشاد ہوتا ہے:
<النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ(2
) ”وہ جہنم جس کے سامنے ہر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو“
اس بنا پر عالم برزخ کے موجود ہونے پر تو کوئی بحث نہیں ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہاں کی زندگی کیسی ہے ، اگرچہ اس سلسلہ میں مختلف صورتیں بیان ہوئی ہیں لیکن سب سے واضح اور روشن یہ ہے
کہ انسان کی روح اس دنیاوی زندگی کے خاتمہ کے بعد لطیف جسم میں قرار پاتی ہے اوراس مادہ کے بہت سے عوارض سے آزاد ہوجاتی ہے،
اور چونکہ ہمارے اس جسم کے مشابہ ہے تو اس کو ”قالب مثالی“ یا ”بدن مثالی“ کہا جاتا ہے، جو نہ بالکل مجرد ہے اور نہ صرف مادی، بلکہ ایک طرح سے ”تجرد برزخی“ ہے۔
بعض محققین نے روح کی اس حالت کو خواب سے تشبیہ دی ہے ، مثلاً اگر انسان خواب میں بہترین نعمتیں دیکھے تو واقعاً محظوظ ہوتا ہے اور ان سے لذت حاصل کرتا ہے، یا ہولناک مناظر کو دیکھ کر غمگین اور غم زدہ ہوتا ہے، اور کبھی کبھی اس کے بدن پر بھی اس کا اثرظاہر ہوتا ہے
اور خطرناک خواب دیکھ کر چیختا اورچلاتا ہے، کروٹیں بدلتا ہے اور اس کا بدن پسینہ میں شرابور ہوجاتا ہے۔
بلکہ بعض حضرات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہر انسان کے بدن میں ایک مثالی بدن ہوتا ہے، لیکن موت کے وقت اور برزخی زندگی کے آغازمیں الگ ہوجاتا ہے
جس طرح سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ بدن مثالی اسی مادی بدن کے اندر ہوتا ہے تو پھر تناسخ کا جواب روشن تر ہوجاتا ہے، کیونکہ روح اپنے بدن سے دوسرے بدن میں منتقل نہیں ہوئی ہے بلکہ بدن کے ایک حصہ سے جدا ہوکر دوسرے حصہ کے ساتھ
عالم برزخ میں زندگی بسرکرتی ہے۔(5)
سمجھ آیا کچھ قاسم علی۔۔ صالح مسکرانے لگا۔۔
جی جی سب سمجھ آ گیا۔۔ مطلب یہ بدن پہلے سے میرے جسم میں موجود تھا اب خاکی وجود سے نکل کر روح اس بدن میں رہے گی قیامت کے دن تک۔۔ میں نے کہا
جی بلکل صالح نے کہا۔۔
میں خوش هو گیا کہ کم از کم اس اندھیری زندگی سے تو نجات ملی۔۔
اچانک وہ بڑا سا دروازہ کھلا ایک دودھیا روشنی چاروں طرف پھیل گئی۔۔ مجھے دروازے کے پار سوائے روشنی کے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔
سورت ملک اور صالح میرے آگے آگے دروازے کی طرف چل دئے۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے جانے لگا۔۔
ہر طرف سفید دودھیا چمک دار روشنی ہی روشنی تھی اور ہر طرف دلفریب خوشبوئیں۔۔
یہ ایک ایسی جگہ ہے یہاں لگتا ہے زمین بادلوں کی ہے اور ہم پاؤں رکھیں گے تو گر جائیں گے۔۔
میں نے ڈرتے ڈرتے قدم آگےبڑھائے۔ مگر یہ کیا میں نہ گرا اور نہ ہی یہ جگہ اتنی نرم ہے۔۔
میں نے دوسرا قدم بھی رکھا۔۔ اب مجھ میں اعتماد پیدا ہو گیا اور میرے اندر سے ڈر نکل گیا۔۔ ویسے بھی دل میں سوچا کہ مر تو چکا ہوں اور کیا هو گا اب۔
ہاہاہاہا بہت مزاح کرتے هو قاسم علی۔۔ صالح میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔
میں میں نے تو کچھ کہا نہیں۔ میں ہڑبڑا گیا۔۔
یہ دنیا نہیں ہے کہ تیرے من کی بات کوئی نہیں سنتا۔۔ یہاں سب سنا جاتا ہے اور پورا بھی ھو جاتا ہے۔۔
مجھے شرمندگی سی ہوئی۔۔
ارے قاسم علی۔۔ میں تو تجھے دنیا میں بھی سنتا تھا اور یہاں بھی۔۔ مجھ سے کیسی شرم صالح ہنستے ہوئے کہنے لگا۔۔
سچ ہی تو کہہ رہا تھا وہ تو میرے ہر عمل ہر بات کا گواہ ہے تو پھر اس سے کیا پوشیدہ ہے۔۔