جتنی سچائی اس میں ہے کہ معاف کر دینے سے مرنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا ہو جاتی ہے۔۔ اتنی سچائی اس بات میں بھی ہے کہ معاف کر دینے سے دلوں کا بوجھ ہلکا ھوتا هے اور برسوں سے جمی ہوئی میل دل سے اتر جاتی ہے۔۔
کسی کے لیے دل میں نفرت رکھنے سے دل سخت هو جاتے ہیں۔۔ اور معاف کر دینے والے پانی سے دل نرم نازک پاک شفاف هو جاتے ہیں۔۔
فرواہ کے معاف کر دینے سے قاسم علی کے راستے کی ہر دیوار گر چکی تھی۔۔ اب اس کی قبر قبر نہیں رہی تھی۔۔ کیوں کہ نیک تو وہ پہلے بہت تھا رہی سہی کسر بیوی بچوں اور والدین کی دعاؤں نے پوری کر دی تھی۔
ایک دو رکاوٹیں تھیں وہ بھی اللّٰهُ تبارک تعالیٰ کے کرم و فضل سے دور ہو چکی تھیں۔۔ تبھی تو کہتے ہیں اللّٰهُ تبارک تعالیٰ کبھی بھی اپنے نیک بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔ قاسم علی نے اپنے رب کواپنی زندگی میں ہی راضی کر لیا تھا۔۔ تبھی تو اللّٰهُ تبارک تعالیٰ نے مرنے کے بعد بھی اس کی ہر رکاوٹ کو احسن طریقے سے دور کر دیا۔۔
قاسم علی کی قبر ایسے روشن ہو چکی تھی جیسے ہزاروں وارڈ کا بلب جلایا گیا هو اس کی قبر اتنی کشادہ کر دی گئی مانو پوری زمین پر پھیل گئی ھو۔۔
۔۔۔۔۔۔
اسلام عليكم ورحمه الله وبركاته۔۔ ایک بہت ہی خوبصورت روشن چہرے والے شخص نے قاسم علی کو سلام کیا۔۔
سورت ملک ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا خوبصورت مرد نہیں دیکھا تھا۔۔
دراز قد روشن آنکھیں رنگت ایسی کہ دودھ بھی سامنے کالا لگے۔۔ ہونٹ ایسے گلاب کی پنکھڑی بھی سخت لگے۔۔ سرخ ایسے کہ بولے گا تو لہو ٹپکنے لگے گا۔۔ گردن ایسی کے کچھ کھائے گا تو سامنے والے کو نوالہ اترتا نظر آئے۔۔۔ لباس ایسا کہ میں نے کبھی کسی ملک میں کسی بازار میں ایسا نہیں دیکھا۔۔ ہلکا زرد رنگ۔۔ باریک ایسا کہ آر پار شیشے کی طرح نظر آئے اور نفیس ایسا کہ ہاتھ تو کیا نظر بھر کر دیکھو تو لگے کہیں داغ نہ لگ جائے
اور پردہ دار ایسا کہ جسم نظر نہیں آئے۔۔ چمک ایسی کے اس کے آنے سے لگا سورج میری قبر میں اتر آیا ھو اور مہک دار ایسا کے میری قبر میں دنیا جہاں کے عطر پرفیوم کی ملی جلی خوشبو بھر گئی ھو
میں اسے سر سے پاؤں تک دیکھے جا رہا تھا۔۔
سلام کا جواب نہیں دو گے قاسم علی۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔ آواز ایسی جیسے سات سُر چھیڑ دئے گئے هو۔
وعلیکم السلام ورحمته الله وبركاته۔۔ میں نے ہکلاتے ہوتے کہا۔۔
ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔ وہ پھر سے بولا۔۔
آااپ کون ہے۔۔ کیا آپ میرے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم ہے۔۔ کیونکہ میں نے ایسا حسن ایسا شخص کبھی نہیں دیکھا۔۔۔
ہاہاہا۔۔ میں کوئی نبی یا رسول نہیں ہوں میری اتنی اوقات کہاں۔۔ میں تو ایک معمولی سا فرشتہ ہوں جو آج تک تیری نوکری کرتا آیا ہوں۔۔ اس فرشتے نے کہا۔۔
میری نوکری۔۔ میں سمجھا نہیں۔۔ قاسم علی نے حیرت سے کہا۔
ہاں تمہیں پتہ ہے نا دو فرشتے تیرا اعمال نامہ لکھتے ہیں۔۔ ایک نیکیاں اور دوسرا گناہ بدیاں۔۔۔۔
ہاں جانتا ہوں۔۔
میں وہی ہوں جو تیری نیکیاں لکھتا تھا۔۔ میں تو ہر وقت ہر لمحہ تیرے ساتھ رہا ہوں پھر بھی تم نے نہیں پہچانا۔۔ فرشتے نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
یہ سچ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ فرشتے ہوتے ہیں ہمارا اعمال نامہ لکھتے ہیں مگر انسانی آنکھ انہیں نہیں دیکھ سکتی۔۔ شاید کوئی بہت علم والا۔ یا۔ اللہ والا هو جو دیکھ پائے۔۔ واللہ اعلم۔
بلکل انسانی آنکھ ہمیں نہیں دیکھ سکتی۔۔ مگر ہم تو انہیں ہر لمحہ ہر پل دیکھ اور لکھ رہے ھوتے ہیں فرشتے نے مسکرا کر کہا۔۔
آپ اب کیوں آئے ہے اب تو اعمال نامہ بند ہو گیا ہے نا۔۔ میں نے حیرت سے پوچھا
میری قیامت کے دن تک تمہارے ساتھ رہنے کی ڈیوٹی لگی ہے۔۔
دنیا میں تم نے ایک لمحہ کے لئے مجھے سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔۔ اب میری باری ہے اب ہر لمحہ میں تجھے تنگ کروں گا باتیں کر کرکے۔۔ فرشتہ ہنسنے لگا۔۔
ہاہا ہا میں نے دنیا میں آپ کا کیا بگاڑا ہے۔ کیوں سکون کا سانس نہیں لیا آپ نے۔۔ مجھے بھی ہنسی آ گئی۔۔
سکون کا سانس میں کیسے لیتا تم تھے کہ ہر کام اللّٰهُ کی رضا کے لیے کرتے تھے
اس لیے اللّٰهُ تبارک تعالیٰ نے تمہارا چلنا پھرنا اٹھنا بیٹھنا ہر عمل کو نیکی میں بدل دیا اس لیے میں لکھتاجاتا مجھے ایک پل کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔۔
جبکہ میرا دوسرا ساتھی سکون سے بیٹھا آرام کرتا رہتا۔۔
میرا سینہ سکون سے بھر گیا کہ شکر ہے یہاں میں کامیاب ہو گیا۔۔
میں نے سنا اور پڑھا تھا فرشتے نور سے بنے ہیں اور بہت خوبصورت ھوتے ہیں آج آپ کو دیکھ کر یقین آ گیا۔۔ میں نے کہا۔۔
۔ تیرے یقین نے تجھے یہاں تک پہنچایا ہے قاسم علی اب تو تو مشاہدہ کر رہا ہے۔۔ فرشتے نے کہا۔۔
تیرا اللّٰهُ پہ یقین اپنے دین پہ یقین اپنے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم پہ یقین۔ اپنے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پہ یقین۔۔ آسمانی کتابوں پہ یقین۔ تمام انبیاء کرام علیہم اجمعین پہ یقین۔ موت پہ یقین مرنے کے بعد جی اٹھنے پہ یقین قیامت کے دن پہ یقین اور جنت دوزخ پہ یقین۔
۔ یہ سب تجھے اس مقام پر لایا ہے۔۔ فرشتہ کہنے لگا۔۔
ایک بندہ مومن تب تک بن ہی نہیں سکتا جب تک ان سب باتوں پہ پختہ یقین نہیں کرتا۔میں نے کہا۔۔ ۔
بلکل۔ سورت ملک اور فرشتے نے ایک ساتھ کہا۔۔
آپ کا نام کیا ہے۔
تم مجھے صالح کہہ سکتے ہو۔۔ فرشتے نے کہا۔
اچھا اب مجھے آپ دونوں بتاؤں عالم برزخ میں کب چلنا ہے۔۔
جب تمہارا دل کرے اب تمہیں کوئی پابندی نہیں۔ صالح نے کہا۔۔
ویسے تجھے عالم برزخ میں جانے کی اتنی جلدی کیوں هے۔ سورت ملک جو کب سے خاموش تھا بولا۔۔
مجھے وہاں جانے کی جلدی نہیں مجھے اپنے آقا صلی اللّْــــــــــــــــہ علیہ والہ وسلم سے ملنے کی جلدی ہے۔۔ مجھے ڈر ہے کہیں میرے جانے سے پہلے آقا صلی الله علیه وآلہ وسلم آ کر نا چلے جائیں۔۔
کیسی باتیں کر رہے هو۔۔ یہ دنیا نہیں کہ کوئی آ کر چلا جائے گا یا آپ سے پہلے کوئی آپ کی جگہ لے لے گا۔۔
یہ وہ جہاں ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا یہاں ہر انسان کی اپنی دنیا هے یہاں وقت ٹھہرا دیا گیا ہے۔ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔۔ ناممکن جیسی کوئی چیز نہیں۔ اس لیے اپنے دل سے تمام خدشے نکال دو۔ نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم خود تمہیں بلائیں گے اور دیدار کریمی کروائیں گے۔۔ صالح کہنے لگا۔۔
اچھا بتاؤ تمہیں مرے کتنی دیر ہوئی هو گئی تمہارے حساب سے۔ سورت ملک کہنے لگا۔۔۔
دو دن یا ایک دن ہوا ہے ابھی۔۔ میرا خیال ہے۔۔ ارے نہیں نہیں شاید تین دن ھو گئے ہیں کیونکہ دو خواب بھیجے تھے نا ہم نے۔ میں نے سورت ملک سے تصدق چاہی۔۔
ہاہا ہا ہا ہا 3 سال ھو چکے ہیں تجھے مرے ہوئے دنیا میں۔۔ اور تیرے خوابوں میں 6 6 ماہ کا وقفہ تھا سورت ملک سے پہلے صالح کہنے لگا۔۔
میرا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔۔
ایک بات پوچھوں فرشتہ صالح۔۔ میں نے کہا۔۔
ہاں پوچھو۔۔ یہاں تمہیں اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔۔
نامہ اعمال لکھنے والے فرشتے تو ہر انسان کے ساتھ ھوتے ہیں تو کیا مرنے کے بعد بھی تمہاری طرح ان کے ساتھ ھوتے ہیں۔۔
بلکل وہ ساتھ ھوتے ہیں مگر میری طرح نہیں۔۔ فرشتے نے کہا۔
کیا مطلب ساتھ بھی ہوتے ہیں اور تمہاری طرح نہیں۔۔ مجھے حیرت ہوئی۔
دیکھو قاسم علی۔۔ ہر انسان کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا هو۔۔ تم نے نیکیاں کمائی اس لیے میں تمہارے ساتھ ہوں اچھا سلوک کمایا تو میرا اچھا سلوک دوستانہ رویہ تمہارے ساتھ ہے۔۔ اچھا اخلاق بانٹا تو میرا اچھا اخلاق تجھے ملا۔۔
اسی طرح
جو انسان جو کمائے گا وہی ملے گا بلکہ اس کے کئی گناہ بہتر اور بڑھ کر ملے گا۔۔۔
جو برائی کمائے گا تو میرا دوسرا ساتھی منتظر ملے گا وہ اپنی تمام تر برائی کے ساتھ ملے گا۔۔ صالح فرشتے نے سنجیدہ ھوتے ہوئے کہا۔۔
مجھے خوف سے جھرجھری سی آ گئی۔۔
قاسم علی دیکھا چاہو گے اپنے دوسرے ساتھی کو۔۔ فرشتہ چہرے پر ڈھیروں سنجیدگی سجائے ہوئے پوچھ رہا تھا۔۔
مجھے تو پہلے ہی سوچ کر وحشت ہو رہی تھی کہ اگر میرے دامن میں گناہ ھوتے تو میرا کیا حشر ھوتا۔ فرشتے نے مجھے خاموش اور پرسوچ دیکھا تو سمجھا میں دیکھنا چاہتا ہوں۔۔
وہ فورن غائب ہو گیا چند لمحوں کے بعد دوبارہ میرے سامنے تھا مگر اس بار اکیلا نہیں ایک فرشتہ اور اس کے ساتھ تھا۔۔ جو ہوبہو اسی کے جیسا تھا۔۔
مجھے اسے دیکھ کر سکون ملا کے شکر هے یہ بھی خوش شکل ہے اور اسے دیکھ کر مرنے والوں کو سکون ملتا هو گا۔۔
اس نے بھی آتے مجھے سلام کیا۔
میں نے خوش ہوتے ہوئے جواب دیا۔۔
کیا سوچ کر خوش ہو رہے هو قاسم علی۔۔ صالح فرشتے نے کہا۔۔
میں یہ دیکھ کر خوش ہو رہا ہوں کہ شکر ہے گناہ گار کو اپنے ساتھی کو دیکھ کر تو سکون ملتا هو گا۔
نہیں قاسم علی یہ فرشتہ اس وقت تمہارے سامنے اپنی اصل شکل میں اس لیے ہے کہ تم نیک انسان هو۔ یہ نہیں چاہتا کہ تم ہلکا سا بھی خوفزدہ ہو۔
مگر یہ گناہ گار کے سامنے اپنی دوسری شکل میں جاتا ہے کہ دیکھنے والے کا دیکھ کر ہی خون خشک ہو جائے۔۔
پھر اس نے اس فرشتے کے کان میں کچھ کہا تو وہ ایک نظر میری طرف دیکھ کر اثبات میں سر ہلا گیا۔۔
یک دم اس فرشتے کا روپ بدلا۔۔
اس کا قد اتنا بڑا هو گیا کے ہم اس کے پیروں میں چونٹیاں لگنے لگے اسکے پاؤں کی سب سے چھوٹی انگلی بھی مجھ پر پڑ جاتی تو میں زمین میں دھنس جاتا۔۔ اس کا رنگ کالے سے بھی کئی گناہ سیاہ اور خوف ناک هو گیا۔۔ اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور انگارے اگلتی ہوئی تھی۔ کان بڑے بڑے جیسے کیلے کے پتے۔۔ اس کے ایک ہاتھ میں لوہے کا بہت بڑا پتھر جس پہ لمبے لمبے کانٹے دار تار لپٹی ہوئی تھی اور اوپر موٹی لوہے کی زنجیر سے بندھا ہوا تھا اس پتھر سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔۔ جبکہ دوسرے ہاتھ میں بھی آگ کا
ہی کوئی خوفناک ہتھیار موجود تھا۔۔
میں تو اسے دیکھتے مانو بےہوش هو گیا۔۔ خوف کی ایک لہر میری روح میں اتر گئی۔۔
وہ فرشتہ چند سیکنڈ کے لیے اس روپ میں آ کر واپس اپنی اصل شکل میں آ گیا۔۔ ان چند سیکنڈ میں قبر میں اتنی گرمی هو گئی جیسے میں آگ کے بلکل درمیان میں کھڑا ہوں اور آگ کی تپش مجھے جھلسا رہی ہے۔۔
میرا جسم پسینے سے نہا گیا۔۔
اور میں تھرتھر کانپنے لگا۔۔
کیسا لگا اس کا یہ روپ تمہیں قاسم علی۔۔ صالح فرشتے نے مجھے پوچھا۔۔
خوف اور ڈر سے کانپتے ہوئے مجھ سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔۔ میں نے بمشکل تھوک نگلا۔۔
سوچو تم نے صرف ایک جھلک دیکھی ہے تو تمہارا یہ حال ہے ان کا کیا حال ھوتا ہوگا جن پر اسے مسلط کیا جاتا ہے۔۔
اس کے ہاتھ میں جو ہتھیار تھے اگر یہ ایک بار زمین پر مارے تو زمین پلٹ جائے اور اس کی گرمی سے کبھی فصل پیدا نہ ہو۔۔
یہ ہر روز گناہ گار کو مارتا ہے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے پھر اس کے ٹکڑے جڑتے ہیں یہ پھر مارتا ہے۔۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔۔
یہ سزا تو صرف میں اس فرشتے کی بتا رہا ہوں۔۔ ان پہ تو اللہ تبارک تعالیٰ ناجانے کن کن کو مسلط فرماتا ہے۔۔
استغفراللہ ربی من کل زنب اتوب علیہ۔۔
تم خوش نصیب هو۔۔ تم امت مسلمہ امت محمدی میں پیدا ہوئے اور تم حق پہ رہے ہمیشـــــــہ اللّٰهُ سے ڈرے اور ویسے بنے جیسا بننے کا حکم تھا۔۔ صالح فرشتہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔۔
میرے جسم پہ ابھی کپکپی طاری تھی اور خوف سے بولا نہیں جا رہا تھا۔۔میری حالت دیکھ کر سورت ملک میرے قریب آیا اور مجھے سینے سے لگا لیا۔۔
میرے ہونٹوں پر سورت ملک جاری هو گئی۔۔ جیسے جیسے میں پڑھتا گیا میرے اندر سکون اترتا گیا۔۔ جہاں تک کے میں نارمل ہو گیا۔۔
مجھے نارمل دیکھ کر سورت ملک مجھ سے الگ ہوا۔۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ھو گئے۔۔
میں سجدے میں گر گیا اور زور زور سے رونے لگا اور اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا۔۔ جس نے مجھے ثابت قدم رکھا۔۔ اور میرا خاتمہ ایمان پر کیا۔۔
جاری۔۔۔۔۔۔
جنھیں نصیب نہ تھا اعتبار پیغمبرؐ
سمجھ میں ان کی نہ آیا وقار پیغمبرؐ
خود اپنے جیسا سمجھتے ہیں بے بصیرت لوگ
نہ دیکھ پائے پس انکسار پیغمبرؐ
گلے میں اترا نہ قرآں کبھی تو کیا کرتے
نظر نہ آیا کوئی ورثہ دار پیغمبرؐ
قلم دوات نہ دے کر تھے مطمئن لیکن
چھپی نہ مرضی پروردگار پیغمبرؐ
جو بوترابؑ نہ ہوتے سوار اسپ تراب
مٹا دیا گیا ہوتا مزار پیغمبرؐ
پھرا جو ان سے پھرا وہ خدا کی رحمت سے
یہ اہلبیتؑ ہیں آئینہ دار پیغمبرؐ
غدیر خم میں پڑھو یا پڑھو شب معراج
کھلی کتاب ھے لیل و نہار پیغمبرؐ
زبان حال سے قرآن بولتا بھی ھے
بغور سنیے صدائے شعار پیغمبرؐ
یہ مہر و ماہ و انجم یہ کہکشاں یہ فلک
بہت بلند ھے ان سے وقار پیغمبرؐ
نقوش چھوڑ گئے سخت پتھروں پہ قدم
تھا نرم مٹی پہ اک پھول بار پیغمبرؐ
غضب خدا کا یہ حد ھے نمک حرامی کی
سعودیہ کہا جائے دیار پیغمبرؐ