لمبی اونچی سیڑھیاں ہیں جو سیدھا آسمان تک جاتی ہیں ان سیڑھیوں کا دوسرا سرا نظر نہیں آ رہا
قاسم علی ان سیڑھیوں سے اوپر کی طرف جا رہا ہے مگر اس کے آگے چھوٹے چھوٹے کچھ بڑے بےشمار سانپ ہیں۔ وہ اسے اوپر چڑھنے نہیں دے رہے۔۔ وہ کبھی ادھر جاتا ہے کبھی اُدھر۔۔
کبھی بے بسی سے انہیں ہٹانے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی پیچھے کو آتا ہے۔۔ مگر اسے اوپر جانا ہے اس لیے پھر کوشش کرتا ہے اوپر جانے کی مگر سانپ پھر راستے میں حائل ہو جاتے ہیں اوپر جانے نہیں دیتے۔۔
قاسم علی پسینے سے نہا چکا ہے۔۔ آخر وہ درد بھرے چہرے کے ساتھ منال کو دیکھتا ہے۔۔
یک دم منال کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ منال کا پورا جسم پسینے سے بہایا ہوا تھا۔۔
اے میرے رب یہ کیسا خواب تھا۔۔ قاسم علی مجھے مشکل میں کیوں نظر آئے۔۔وہ اپنا پسینہ صاف کرتے ہوئے بڑبڑانے لگی۔۔
کہیں وہ واقعی تو کسی مشکل میں نہیں۔۔ نہیں نہیں وہ ماشاءاللہ اللّٰهُ کے نیک بندے تھے وہ کیسے مشکل میں هو سکتے ہیں۔۔ انہوں نے کبھی نماز قضا نہیں کی کبھی قرآن پاک سے غفلت نہیں کی۔ کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ پھر اسے کیسے کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے۔۔ وہ بستر پہ بیٹھی سوچ رہی تھی۔ منال نے اٹھ کر وضو کیا اور تہجد ادا کی اور اپنے شوہر کے لیے نفل ادا کیے ابھی فجر میں وقت تھا تو وہ پھر سے لیٹ گئی۔۔ سوچا لیٹ کر تسبیح کرتی ہوں آذان ھوتی هے تو اٹھتی ہوں۔۔
وہ جیسے لیٹی اسے پتہ نہیں چلا وہ بھی نیند میں چلی گئی۔۔
جیسے ہی آنکھ لگی وہی خواب پھر سے اس کے سامنے تھا۔۔ اس بار قاسم علی زور زور سے رو رہا تھا۔۔ اس نے دور کھڑی منال کی طرف بے بسی سے دیکھا۔۔ منال کو اس کی آنکھوں سے خوف آنے لگا وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔
استغفراللہ استغفراللہ۔۔ پھر سے وہی خواب۔۔ میں سو کیسے گئی میں تو ورد کر رہی تھی پھر۔۔ وہ حیرت سے سوچنے لگی۔۔ اس کا مطلب یہ خواب نہیں مجھے اشارہ کیا گیا ہے۔۔
میں صبح ہی اس کی تعبیر کا پتہ کرتی ہوں۔۔ وہ کہنے لگی۔۔
اتنے میں فجر هو گئی اس نے نماز ادا کی اور کمرے سے باہر آ گئی باہر دیکھا تو ساس سسر دونوں نماز پڑھ کر تسبیح پڑھ رہے ہیں۔۔۔
ابو جی چائے لا دوں یا کچھ کھانے کو۔۔ وہ پاس آتے ہوئے بولی۔۔
نہیں بیٹا طلب نہیں۔۔ ناظم علی کے آہستگی سے کہا۔۔
امی آپ کو کچھ چاہیے۔۔
نہیں بیٹا کچھ نہیں چاہیے۔۔ تم بچوں کو اٹھاؤ نماز پڑھ کر باپ کی قبر پر فاتحہ خوانی کر آئیں۔۔
جی امی کہتی وہ بچوں کو اٹھانے چلی گئی۔۔
حماد۔ احمد۔ بلال تینوں نماز پڑھ کر یسین پکڑے قبرستان چلے گئے۔۔ اور وہ ساس سسر کے پاس بیٹھ گئی۔
ابو مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔
ہاں بیٹا بولو۔
ابو جی مجھے خواب میں اشارہ ہوا ہے۔۔ مجھے نہیں پتہ تعبیر کیا ہے۔۔ مگر خواب دو بار آیا تہجد سے پہلے اور تہجد کے بعد۔۔ اس لیے مجھے لگتا ہے یہ کوئی اشارہ ہے۔۔
کیسا خواب بیٹا۔۔
ابو میں نے دیکھا بہت لمبی سیڑھیاں هے جن کا دوسرا سرا آسمانوں میں ہے۔۔ اور اوپر بہت زیادہ روشنی ہے۔۔
قاسم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا چاہتے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے بڑے بڑے ہر سائز کے سانپ ان کا راستہ روک لیتے ہیں۔ وہ بہت کوشش کرتے ہیں انہیں پیچھے ہٹانے کی مگر بےسود۔
آخر میں تھک کر پسینے پسینے هو جاتے ہیں اور درد بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہے۔۔
ابو مجھے بہت ڈر لگا ان کی آنکھوں سے۔۔ پلیز آپ کسی عالم کے پاس جائیں اس خواب کی تعبیر پوچھیں۔۔
ٹھیک ہے بیٹا میں ابھی مسجد جانا ہوں امام صاحب سے پوچھتا ہوں۔۔
ناظم علی اٹھا اور مسجد چلا گیا۔۔ منال ناشتہ۔ بنانے لگی۔۔
اسلام عليكم ورحمه الله وبركاته أمام صاحب۔۔
وعلیکم السلام ورحمته الله وبركاته بابا جی آئیں بیٹھیں۔۔ امام صاحب بڑے پیار سے ملے۔۔
امام جی ایک مسئلہ درپیش ہے۔۔
جی حکم کریں۔۔
ایک خواب کی تعبیر معلوم کرنی ہے اور اس کا حل بھی۔۔
جی جی بتائیں۔ امام صاحب کہنے لگے۔
ناظم علی نے مکمل خواب سنایا۔۔ اور تعبیر پوچھی۔
بابا جی جہاں تک مجھے علم ہے اور میں جانتا ہوں۔۔ ایسے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ بندے پہ قرض هے اور وہ قرض سانپ کی شکل میں راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔۔
قرض۔۔۔۔۔ مجھے نہیں یاد قاسم نے کوئی قرض لیا هو۔۔ ناظم علی سوچنے لگا۔۔
مگر کاروبار میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے هو سکتا ہے لیا هو۔۔
اس کا حل کیا ہے امام صاحب۔
بابا جی اس کا حل ادائیگی هے۔۔ جس سے قرض لیا ہے اسے واپس کیا جائے یا پھر وہ شخص اسے معاف کر دے اپنا قرض۔
اور اگر ہمیں پتہ ہی نہیں کس سے لیا ہے تو۔۔ ناظم علی نے پوچھا۔۔
تو پھر کچھ مخصوص رقم۔ مرحوم کی طرف سے قرض کی ادائیگی کے طور پر کسی مستحق کی مدد کر دی جائے۔۔ اس طرح بھولا ہوا قرض۔۔ ادا هو سکتا ہے۔۔
لیکن اگر انسان زندہ ہے تو کوشش کرے جس سے لیا ہے اسے ہی واپس کرے۔۔
یہ دیکھیں بابا جی۔۔ میں اپنے بچپن سے لے کر اب تک کے سبھی قرض اس میں درج کرتا رہتا ہوں تاکہ بھولے نہیں۔۔ امام صاحب نے ایک ڈائری دیکھاتے ہوئے کہا۔
تو بیٹا لکھتے کیوں هو ادا کرتے جاؤ ساتھ ساتھ۔۔ ناظم علی کہنے لگا۔
کرتا ہوں بابا جی۔۔ مگر دنیا داری ہے قرض ضرورت کے بعد ہی ادا ھوتا هے اس لیے جب کبھی بھی اضافی پیسے آتے ہیں تو ادا کر دیتا ہوں۔۔ نہیں تو لکھ لیتا ہوں۔۔
اور جنہوں نے تیرے دینے ہیں۔۔ ناظم علی نے تجسس سے پوچھا۔
بابا جی جو تو 100 50 یا۔ تھوڑے زیادہ ہوں تو ہر رات معاف کرکے سوتا ہوں۔۔ اور جو زیادہ ہوں وہ بھی لکھ لیتا ہوں تاکہ میرے بعد گھر والے وصول کرکے ضرورت پوری کریں یا معاف کر دیں۔۔ امام صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔۔
اللّٰهُ لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔ ناظم علی نے دعا دی۔۔
گھر آ کر منال کو تعبیر بتائی۔۔
ابو آپ کاروباری لوگوں سے پوچھیں اگر کسی کے دینے ہے تو ہم ادا کریں گے۔
میں پوچھ لونگا امی جان آپ بے فکر رہیں۔۔ اندر سے آتے حماد نے کہا۔۔
۔ تم کہاں جا رہے ہو۔ منال نے پوچھا۔۔
دوکان پہ امی اج کے بعد دوکان کی زمیداری میری هے اور ان شاء الله آپ سب کو کبھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔۔ کام تو پہلے ہی پاپا سیکھا گئے ہے۔۔ اب تو بس چلانا ہے۔۔ حماد پر اعتماد بولا۔۔
منال کے ساتھ ساتھ ناظم علی اور خدیجہ بی بی کو وہ اس وقت بلکل قاسم علی لگ رہا تھا سب کی آنکھیں نم ہو گئی۔
دادی نے آگے بڑھ کر ماتھا چوما۔۔ ماں نے بھی پیار کرکے رخصت کیا۔۔
دوسرے دن ہی سب سے پوچھا گیا کہ کسی کا قرض ہے تو ہر کسی نے انکار ہی کیا اور ساتھ کہا اگر ہیں بھی تو ہم نے معاف کیا۔۔ پ
باقی منال اور ناظم علی نے کچھ رقم یتیم خانے بھیجوا دی قرض کی ادائیگی کے طور پر۔۔
اس طرح قاسم علی کا سارا ادھار قرض ادا هو گیا۔۔
____________________________________
سورت ملک بلکل میرے برابر بیٹھ گیا اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔
اس کے جسم سے بہت دلنشین خوشبوئیں اٹھ رہی تھی۔۔اور وہ خوشبو میری روح تک کو تازگی بخش رہی تھی۔۔ اب نہ گھٹن تھی۔ نہ گھبراہٹ۔۔ بلکہ ہلکی ہلکی ٹھنڈک کا احساس هو رہا تھا اس کے میرے قریب آنے سے مجھے احساس ہوا کہ اس کے جسم سے یہ ٹھنڈک پیدا ہو رہی ہے۔۔ وہ مکمل نور ہی نہیں بلکہ کوئی برف کا ٹکڑا بھی لگ رہا تھا۔۔
شکر ہے تم میرے قریب تو آئے۔۔ قاسم علی کہنے لگا۔۔
قریب تو آنا ہی تھا راستہ جو صاف هو گیا۔۔ سورت ملک بولا۔
مطلب۔ کیسے صاف ہوا۔
تمہارا قرض ادا هو گیا اور کچھ نے معاف کر دیا۔۔۔
سچ میں میرا قرض ادا هو گیا۔۔ اس کا مطلب منال فرشتے کا اشارہ سمجھ گئی۔۔۔ قاسم علی خوش ہوتے ہوئے کہنے لگا۔۔
ہاں تمہـاری بیوی واقعی سمجھدار ہے۔۔ سورت ملک کہنے لگا۔۔
میں جانتا تھا اور کوئی سمجھے نہ سمجھے منال ضرور سمجھے گی۔۔۔
اچھا تو اب چلیں۔۔ قاسم علی جلد بازی میں کہنے لگا۔۔
کہاں۔۔۔۔۔
عالم برزخ۔
ابھی تم پہ ایک قرض اور باقی هے۔۔ اس کے بعد جا سکیں گے۔۔
قرض۔۔ ابھی تم نے کہا سب قرض اتر گیا۔۔ تو اب کون سا قرض رہ گیا۔۔
کوئی دل سے تم سے ناراض ہے۔۔ تیری وجہ سے اس کا دل دکھا هے کوئی اپنی ہر محرومی کا زمادار تمہیں مانتا ہے۔ اس نے اپنے ہر درد کی وجہ تمہیں ٹھہرایا ہے۔۔ جب تک وہاں سے معافی نامہ نہیں آتا ہم نہیں جا سکتے۔۔
قاسم علی کو حیرت کے شدید جھٹکے لگے۔۔
میں نے کس کا اتنی بڑی طرح دل دکھایا ہے۔۔ کے وہ ہر چیز کا زمے دار مجھے سمجھتا ہے۔۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ۔ ایک فلم اس کے سامنے چلنے لگی۔۔
ہیلو بھائی۔۔ جی کیسے ہے۔۔ نعمان اس کا تو زکر مت کریں میرے سامنے۔۔ آپ اسے نہیں جانتے۔۔ ایک نمبر کا لوفر لفنگا انسان هے۔۔
اچھا جی۔۔ اپنے منگیتر کو بچانے کا اچھا طریقہ ہے۔۔ هاهاهاهاها۔
میں بچا نہیں رہی بھاڑ میں جائے میری بلا سے۔۔ مجھے تو شادی نہیں کرنی اس سے۔۔
ارے گڑیا ایسا نہیں کہتے۔۔ چل بعد میں بات هو گی۔۔
اللّٰهُ حافظ۔۔
اللّٰهُ حافظ۔۔ پتہ نہیں بھائی میری بات کو سیرس کیوں نہیں لیتے۔۔ فرواہ آنکھیں صاف کرتے ہوئے فون رکھ رہی تھی۔۔
اور قاسم علی دیکھ کر روئے جا رہا تھا۔۔
پھر شادی کے دوران کا منظر سامنے آنے لگا۔۔ کیسے وہ خوش خوش پھر رہا تھا اور وہ کمرے میں بیٹھی اپنی قسمت کو کوس رہی تھی۔۔ کیسے سب اسے بلانے جا رہے ہیں اور وہ سر درد کا بہانہ بنا کر ٹال دیتی ہے اور اکیلے میں کہتی ہے جب میری زندگی ایک جاہل کے ہاتھ میں دے کر برباد کر دی ہے تو میں ان کی خوشیوں میں شامل کیوں ہوں۔۔
قاسم علی پھر رونے لگتا ہے۔۔
پھر جب فرواہ نعمان کی بد سلوکی کے بعد اللّٰهُ تبارک تعالیٰ سے شکوہ شکایت کرتی ہے تب تب کی فلم قاسم علی کے سامنے چلنے لگتی ہے۔۔
وہ بہت زیادہ روتا ہے شرمندہ ھوتا هے۔۔
یہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔ میں اسے جانتا ہوں جتنا میں اس کے قریب تھا کوئی نہیں تھا۔۔ وہ بھائی کی طرح نہیں سہیلی کے طرح اپنی ہر بات مجھ سے شعیر کرتی تھی۔۔ اور میں اس سے۔۔ مگر شادی کے بعد وہ مجھ سے دور ہو گئی اتنی دور کے مجھے دیکھائی دینا بند ہو گئی۔۔ اور میں بھی تو اپنی زمیداریوں میں اس قدر الجھا رہا کہ اسے صرف اپنے گھر والی سمجھ کر۔ اپنے گھر میں مصروف سمجھ کر اگنور کرتا رہا۔۔۔ میں اکیلا بھائی تھا اس کا اکیلا دوست اکیلا سہارا دنیا میں۔۔ اور میں نے ہی اس کی نہیں سنی۔۔
وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی
ایک کوشش تو کرنی پڑے گی۔۔ سورت ملک نے کہا۔۔
اب اس کے لیے کیا کر سکتے ہے کیا پھر سے خواب میں اشارہ کرنا پڑے گا۔۔ قاسم علی پوچھنے لگا
اس کے علاوہ اور کوئی حل ہے۔۔
قاسم خاموش ہو رہا۔۔۔
__----______------&____::::::::
یہ اتنا پانی کہاں سے آ گیا پانی کے اُس پار کتنا پیارا باغ ہے کاش میں اس باغ میں جا پاؤں۔۔ وہ کنارے پر کھڑی سوچ رہی تھی۔۔ مگر بیچ میں یہ دریا بہت بڑا ہے کیسے جاوں وہاں۔۔
میں تجھے وہاں لے جاؤں گا۔۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو قاسم علی مسکرا رہا تھا اور کہہ رہا تھا میں تمہیں وہاں لے جاؤں گا۔۔
تو پھر لے چلو دیر کس بات کی ہے۔۔ اس نے خوش ہوتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔۔
نہیں ابھی نہیں جب وقت آئے گا تمہیں لے چلوں گا۔۔ فلحال پہلے مجھے وہاں جانا ہے۔۔ مگر یہ پانی میرے راستے کی دیوار بنا ہوا ہے۔۔
ہاں پانی تو مجھے بھی نظر آ رہا ہے۔۔
تم میری مدد کرو اس پار جانے میں منال۔
میں کیسے مدد کروں۔ وہ حیرت سے پوچھتی ہے۔۔
کسی بھی طرح کرو مگر صرف تم میری مدد کر سکتی هو۔۔ میرے راستے میں صرف یہ ایک دیوار هے۔۔۔۔
منال کی آنکھ کھل جاتی ہے۔۔
الٰہی کرم۔۔ اب یہ کیسا خواب ہے اب یہ کیسی رکاوٹ ہے۔۔۔ وہ بیڈ پہ بیٹھی سوچ رہی تھی۔۔ دور کہیں فجر کی اذان ہونے لگی۔۔
منال نے پھر ناظم علی کی مدد سے تعبیر معلوم کروائی۔۔ تو پتہ چلا کوئی مرنے والے سے ناراض هے یا اس کی یاد میں ہمہ وقت روتا رہتا ہے۔۔ اسے کہیں وہ معاف کر دے یا پھر رونا بند کرے۔۔
اب ایک نئی پرابلم سامنے تھی کہ وہ کون ہے۔۔
قاسم علی کو مرے 6 ماہ سے زیادہ ھو چکا تھا اور اب تو آہستہ آہستہ سب کو صبر آ گیا تھا تو پھر کون ہے جو مسلسل رو رہا ہے۔۔
منال نے سبھی بہنوں اور قریبی رشتہ داروں کو بلایا اور قاسم علی کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی کا اہتمام کیا۔۔ جب دعا مانگنے لگے تو منال نے کھڑے ہو کر کہا۔۔
دیکھیں میں آپ سب سے معافی مانگتی ہوں اپنی طرف سے اور اپنے مرحوم شوہر کی طرف سے۔۔ اگر میرے شوہر نے آپ سب میں سے کسی کا دل دکھایا ہے کوئی چوٹ پہنچائی ہے تو مہربانی فرما کر اللّٰهُ کے لیے اسے معاف کر دیں۔۔ اپنا دل صاف کر لیں۔۔
کیا آپ سب کو اچھا لگے گا کہ آپ کا بھائی آپ کا بھانجا آپ کا بیٹا محض اس لئے تکلیف میں هو کہ آپ ان سے ناراض ہیں۔۔
سب نے کہا ہم بلکل بھی ناراض نہیں اس سے ہمارے دل صاف ہیں ہم نے اسے ہر چیز معاف کی۔۔
فرواہ نے بھی آنکھیں بند کر کے اپنے بھائی کے ایصال ثواب کیلئے کچھ سورتیں پڑھی اور دعا کی اور ہر گلا شکوہ شکایت ناراضگی معاف کر دی۔۔