انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔ بہت قريب کسی نے بلند آواز میں کہا۔۔ لو جی ایک اور اللّٰهُ کو پیارا هو گیا۔۔
مگر ہوا کون ہے۔۔ میں دیکھ کیوں نہیں پا رہا۔۔ میری آنکھیں بند کیوں ہیں۔۔ مجھے سب سنائی دے رہا ہے مگر دیکھائی کیوں نہیں دے رہا۔۔ یہ کیسا پردہ ہے جو میرے سامنے آ گیا ہے۔۔۔ میں میں جا کہاں رہا تھا۔۔ دماغ پہ زور دیا اب وہاں درد نہیں ہے شکر ہے درد تو کم ہوا۔۔
ارے ہاں آج تو میری لاڈو کی سالگرہ ہے۔۔ مجھے تو گھر پہنچنا ہے جلدی سے میں یہاں کیا کر رہا ہوں۔۔
اٹھا کیوں نہیں جا رہا۔۔ میرا جسم اتنا بھاری کیوں ہے میں تو انگلی نہیں ہلا پا رہا۔۔ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔۔
رکو رکو یہ کیا کر رہے ہو میری جیب سے سامان کیوں نکال رہے هو۔۔
یہ صاحب لاہور کے ہیں قاسم علی نام ہے یہ آئی ڈی کارڈ مل گیا ہے۔۔ کوئی میرا آئی ڈی کارڈ پڑھ رہا تھا۔۔
انسپکٹر صاحب یہ موبائل بھی ملا ہے مگر بری طرح ٹوٹ چکا ہے۔۔ آپ سم نکال کر کسی دوسرے فون میں ڈال کر اس کے گھر اطلاع کر دیں۔۔ کسی نے بہت پاس کھڑے ہو کر کہا۔۔
نہیں ہم باڈی لے کر جا رہے ہیں نا تب ہی پتہ چل جائے گا پہلے ہی کیوں ان پہ قیامت توڑیں۔۔ دوسرے شخص نے افسردگی سے کہا۔۔
اس کا مطلب میں مر چکا ہوں۔۔ یہ سب مجھے لاش کہہ رہے ہیں او میرے خدایا یہ سب کیسے ہو گیا۔۔
اچھا اچھا میں آ رہا تھا وہ سامنے سے آتا ہوا ٹرک آہ آہ آہ
مجھے اس کے بعد کچھ یاد نہیں کیا ہوا مطلب میں مر گیا۔۔
نہیں نہیں میرے پروردگار ابھی نہیں ابھی میں کیسے مر سکتا ہوں۔۔ مجھے تو اپنی لاڈو کے لیے گڑیا لے کر جانی هے۔۔ اس کی سالگرہ کرنی ہے۔۔ ابھی تو رمضان میں عمرہ پہ جانا ہے۔۔
اے اللہ میں نے ہمیشہ ایک ہی دعا مانگی ہے کہ مجھے موت آقا ﷺ کی نگری میں دینا۔۔ مجھے قبر کی مٹی وہاں کی نصیب ہو۔۔ پھر میں یہاں کیسے مر گیا۔
نہیں نہیں میرے اللہ۔۔
اے اللہ ابھی مجھے مہلت دے میرے ماں باپ بوڑھے ہے۔ میرے بچے بہت چھوٹے ہیں ان سب کا میرے علاوہ کوئی نہیں۔۔
اے اللہ مجھے مہلت دے۔۔
صاحب ویسے میت کے چہرے پر نور بہت هے جوانی میں چلا گیا۔۔ کسی نے مجھے اٹھا کر کہیں رکھتے ہوئے کہا۔۔
ہاں نوازے نور واقعی بہت ہے اور دیکھ نا گاڑی چکنا چور هو گئی ہے یہ بری طرح دھنس گیا تھا بیچ میں مگر ایسا لگتا ہے سو رہا ہے باقی جسم پہ چوٹیں آئی هے مگر چہرے پر خراش بھی نہیں آئی۔۔ کتنا سکون هے چہرے پر۔۔ دوسرا شخص بولا۔۔
مجھے لگتا ہے صاحب جی اچانک ایکسیڈنٹ سے اس کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے ورنہ چوٹ تو کوئی بھی اتنی گہری نہیں لگتی۔۔ پہلے والا پھر بولا۔۔
کچھ بھی ہوا هو نوازے۔ کسی کے گھر کا چراغ تو بجھ گیا۔
ہاں صاحب جی ٹھیک کہہ رہے ہو آپ۔۔
کیا گزرے گی اس کے گھر والوں پر جب اسے مردہ حالت میں دیکھیں گے۔۔گاڑی میں سے ملے سامان سے لگتا ہے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اس کے گڑیا کپڑے وغیرہ ملے ہیں۔۔ پہلے نے کہا۔۔
اللّٰهُ صبر دے اس کے بچوں کو۔۔ دوسرے نے دعا دی۔۔
اب دونوں خاموش ہو گئے۔۔ اور جس گاڑی میں مجھے لے جایا جا رہا تھا وہ سائرن بجاتی ہوئی بھاگ رہی تھی۔۔
اپنے اردگرد خاموشی پاکر۔۔میں پھر اپنے اللّٰهُ سے باتیں کرنے لگا۔۔
میری آنکھوں کے سامنے ابو۔ امی کے چہرے آ گئے جنہیں کل ہنستا ہوا چھوڑ کر آیا تھا۔۔کیا گزرے گی ان کے بوڑھے دل پر۔ جن کی قل کائنات میں تھا۔۔۔ میرے اللّٰهُ میرے ماں باپ کو صبر جمیل عطا فرما۔ وہ بہت نیک ہیں انہیں کبھی اکیلا نہ چھوڑنا
میری منال وہ تو میرے بغیر کبھی رہی نہیں وہ تو مر جائے گی۔۔ اے الله اسے صبر دینا۔ اسے ہمت دینا میرے بغیر جینے کی۔۔ اسے میری یاد نہ آئے کچھ ایسا کر دیجیے گا۔۔
میرا حماد 19 سال کا ہے مگر دماغ بچوں والا ہے میرے اللّٰهُ اسے ہمت دینا وہ سب کو سمبھال لے۔۔اس کے دل میں سب کے لئے محبت بھر دے تاکہ وہ سب کو ساتھ ساتھ لے کر چلے۔
احمد بہت ضدی هے۔ اپنے بھائی کی تو بلکل نہیں سنتا۔۔ میرے الله اسے سمجھداری عطا کر۔۔
بلال تو میرا درویش صفت انسان هے جو ملے بسم اللہ کرکے لے لیتا ہے۔۔ میرے اللہ اسے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔۔کوئی بھی میرے بچے کے ساتھ دھوکہ نہ کر جائے کوئی دل نہ دکھا دے اس کا۔
نور میری بچی اس کی تو جان بستی ہے مجھ میں وہ کیسے رہ پائے گی۔۔ اللّٰهُ تبارک تعالیٰ میری بچی کو ہمیشہ خوش رکھنا۔۔
پتہ نہیں اس وقت میری دعائیں قبول بھی ہونگی کے نہیں۔۔ میں نے پڑھا اور سنا ہے
مرنے کے بعد دنیا کے تمام عمل دعائیں توبہ سب ختم ہو جاتا ہے روک دیا جاتا ہے۔۔
پتہ نہیں اب قبول بھی ھو کے نا۔۔ اے میرے پروردگار مجھے اتنی مہلت دے۔۔ میں توبہ کر لوں۔۔ میں اپنے بچوں کے لئے اور کچھ نہیں تو دعا ہی کر لوں۔۔ تب مجھے یقین تو ھوگا کہ قبول ہونگی۔۔مجھے مہلت دے میرے پروردگار۔۔
یہ کیا ہے میں رونا چاہتا ہوں مگر میری آنکھیں میرا ساتھ نہیں دے رہی۔۔ ہائے۔۔ یہ کیسی مجبوری ہے۔
۔_-__________________________::::____
سائرن کی آواز سن کر ناظم علی اور بچے بھاگ کر باہر آئے۔۔
اللّٰهُ خیر یہ کس کے گھر آئیں ہیں۔۔ ناظم علی نے زیرِ لب کہا۔۔
بابا جی یہاں قاسم علی والد ناظم علی کا گھر کون سا ہے۔۔
ایک پولیس اہلکار نے پوچھا۔
میں ناظم علی ہوں ۔ ناظم علی نے دیوار کا سہارا لیتے ہوئے کہا۔۔ کیونکہ اسے کسی انہونی کا احساس هو گیا تھا۔۔
پولیس اہلکار خاموشی سے ایمبولینس سے لاش نکالنے لگا۔۔
اور پاس لا کر دھیرے سے بولا۔۔
بابا جی ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔۔
ناظم علی لڑکھڑا کر وہیں ڈھیر هو گیا۔۔ ایک اہلکار نے اور حماد نے اسے سہارا دیا۔۔
قاسم علی کی لاش کو صحن میں رکھا گیا۔۔ پورے گھر میں کہرام مچ گیا منال تو دیکھ کر بے ہوش ہو گئی
محلے کی عورتیں منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر اسے ہوش میں لائیں ۔
ماں جوان بیٹے کی لاش سے لپٹ لپٹ کر رونے لگی بچے رونے لگے۔۔
ناظم علی دیوار کے ساتھ بت بنا سب کو دیکھ رہا تھا محلے کے مرد اسے دلاسا دینے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔۔
مگر حادثہ اتنا بڑا تھا کسی کی سمجھ میں نہیں ا رہا تھا کیا کہے۔۔
جو جو آواز سن رہا تھا گھر میں جمع ہو رہا تھا ہر آنکھ اشک بار تھی۔۔ ہر کوئی دل سے دکھی تھا کیونکہ قاسم علی کی اچھائی سے ہر کوئی متاثر تھا وہ ہر طرح سے کسی نا کسی کی مدد کرتا رہتا تھا۔۔
کوئی اس کی بہنوں کو بھی خبر کرو کوئی تو بتاؤ ان کا بھائی چھوڑ گیا ہمیں۔ خدیجہ بی بی نے بین کرتے ہوئے کہا۔۔
تو پاس کھڑے لوگوں کو ہوش آیا۔۔ وہ حماد اور احمد سے پوچھ پوچھ کر سب رشتے داروں کو فون کرنے لگے۔۔
جو بھی سنتا وہی رونا شروع کر دیتا۔۔
گھنٹے دو گھنٹے کے اندر اندر بہنیں بھی پہنچ گئی۔۔
ہر ایک پہ یہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی۔۔بہنوں کا تو برا حال ہو رہا تھا کبھی بے ہوش ھو رہی تھی تو کبھی نندل پڑ رہی تھی۔۔ بہنوں کے لیے اس کے بھائی کیا ہوتے ہیں یہ ایک بہن ہی سمجھ سکتی ہے۔۔ قاسم علی تو چاروں بہنوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔۔ وہ تو جیتی اسے دیکھ دیکھ کر تھیں بہنیں کتنی بھی ناراض کیوں نہ ہو کبھی بھی بھائی کے حق میں دعا کرنا نہیں بھولتی۔۔ اس کی اپنی ہزاروں اولاد هو جائے مگر جو محبت اپنے بھائی سے کرتی ہے وہ کبھی نہیں بدل سکتی۔۔۔ ماں باپ ہوں بھی پھر بھی میکہ بھائیوں سے سجتا هے۔
یہاں میاں محمد بخش کا کلام یاد آ رہا ہے۔۔
اچیاں لمیاں ٹالیاں، گھنیاں جنہاں دیاں چھانواں
ہر اک چیز بازاروں لبھدی_____نئیں لبھدیاں اے مانواں
باپ مرے سر ننگا ہووے، ویر مرن کنڈ خالی
مانواں باہج محمد بخشا_____کون کرے رکھوالی
تو بیلی تے سب جگ بیلی، ان بیلی وی بیلی
سجناں باج محمد بخشا____اج سنجھی پئی اے حویلی
ٹر گئے نے دلدار دلاں دے، وطنوں چک مہاراں
اجڑی بستی نظریں آوے____کنڈ دتی جد یاراں
لے او یار حوالے رب دے، میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہوسی___جس دن فیر ملاں گے
کپڑا پھٹے تے لگے تروپا، دل پھٹے کس سینا
سجناں باج محمد بخشا___کی مرنا کی جینا
رات پوے تے بے درداں نوں، نیندر پیاری آوے
درد منداں نوں یاد سجن دی____ستیاں آن جگاوے
سپنے وچ مینوں ماہی ملیا، میں گل وچ پا لییاں بانواں
ڈر دی ماری اکھ نہ کھولاں____کدے فیر وچھڑ نہ جانواں
ہجر تیرا جے پانی منگے، میں کھوہ نیناں دے گیڑاں
دل کردہ تینوں سامنے بٹھا کے____میں درد پرانے چھیڑاں
یار جنہاں دے وچھڑ جاون، او کیوں روون تھوڑا
ہر اک شے نالوں ظالم یارو____جس دا نام وچھوڑا
~میاں محمد بخش
رات کے 11 بج گئے۔۔ کیونکہ شام5:30 بجے تو پولیس لاش کے کر پہنچے تھی پھر کس کو ہوش رہی وقت کی بہنوں کے پہنچتے پہنچتے رات کے 10 بج گئے۔۔
محلے والوں نے رشتے داروں کے کھانے پینے کا خیال رکھا۔۔
طے یہ پایا کہ ابھی رات کافی هو گئی ہے صبح فجر کے بعد دن چڑھے جنازہ پڑھایا جائے۔۔۔۔ ساری رات محلے دار اور رشتے دار میت کے پاس بیٹھ کر پڑھتے رہے تو کوئی اپنی گپے لگاتے رہے۔۔ سب رو رو کر تھک چکے تھے نیند تو کسی کی آنکھوں میں نہیں تھی اب تو لگ رہا تھا آنسو بھی خشک ہو گئے ہیں۔۔
وقفے وقفے سے کسی نا کسی کے سسکنے کی آواز آ رہی تھی۔۔
رات تھی کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔
فجر کی اذان سے کچھ وقت پہلے ساتھ والی خالا ارشاد سب کے لیے چائے لے آئی۔
رشتے داروں نے تو کچھ نہ کچھ کھا لیا تھا مگر قاسم علی کی ماں بہنیں منال اور بچے ویسے ہی بھوکے تھے۔۔
سب نے زبردستی انہیں چائے پلائی۔۔
ننھی نور تو ایک سیکنڈ کے لیے بھی قاسم علی کی چارپائی سے دور نہیں هو رہی تھی وہ بار بار باپ کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی اور پھر نیچے بیٹھ جاتی پھر اٹھتی ہاتھ پھیرتی سکون محسوس کرتی پھر بیٹھ جاتی۔۔
سب نے باری باری کوشش کی اسے سائیڈ پہ کرنے کی مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
چائے پیتے ہوئے زونیرہ نے کہا۔۔ لاڈو اب سو جاؤ اٹھ جاؤ وہاں سے۔۔
نہیں پھوپھو میں نے نہیں سونا۔۔
کیوں میری جان۔ زونیرہ نے روتے ہوئے پوچھا۔۔
بابا کل اللّٰهُ تعالٰی کے پاس چلے جائیں گے پھر کبھی نہیں آئیں گے تو میں جی بھر کر اپنے بابا کے پاس رہنا چاہتی ہوں انہیں پیار کرنا چاہتی ہوں۔۔
بچی کی اتنی سمجھداری والی بات نے سب کو رولا دیا۔۔ ہر کوئی رونے لگا دادی نے بچی کو پیار سے سینے سے لگا لیا اور رونے لگی ۔۔ وہ بھی رونے لگی۔۔
اتنے میں فجر کی اذان هو گئی سب نے نماز پڑھی اور پاس آ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے۔۔
نماز سے فارغ ہو کر غسل دیا گیا۔۔ اور جنازے کا علان هو گیا۔۔
گھر سے جنازہ اٹھایا پھر سے کہرام مچ گیا۔۔ بہنیں منال بے ہوش ہو هو جائیں۔۔ ماں تو آدھ مری هو گئی اسے تو ہوش ہی نہیں رہا۔۔
کلمہ شہادت۔۔۔۔ جنازہ لے جایا گیا۔۔
__________________________________
میرے چہرے سے کپڑا منال نے ہٹایا تھا شاید۔۔ تبھی اس کی چیخ کے ساتھ گرنے کی آواز آئی۔۔
سب لوگ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے۔۔
کتنا بے بس ہوں میں آج ایک تسلی کا بول نہیں بول سکتا۔۔
امی امی جان پلیز مت روئیں دیکھیں آپ کی شوگر بڑھ جائے گی۔۔ پلیز پلیز امی چپ ہو جائیں۔۔
ارے کوئی تو میری ماں کو سمبھالو ۔۔
امی جان پلیز مجھے ایک بار اپنی گود میں لے لیں۔۔ آج بہت دل کر رہا ہے یہ آخری نیند آپ کی گود میں سوؤں۔۔
اج تکّ کبھی اتنی شدت سے آپ کی گود کی یاد نہیں آئی۔۔
اج بہت یاد آ رہی ہے جیسے بچپن میں آپ کی گود میں سونے سے ہر دکھ ہر تکلیف بھول جاتی تھی ختم ہو جاتی تھی آج بھی ویسی نیند چاہیے۔۔میرا جسم بہت درد کر رہا ہے مجھے بہت تکلیف هو رہی ہے مجھے اپنی گود میں لے لیں۔۔
ارے کوئی تو اس کی بہنوں کو بولاو۔۔ ماں کی آواز آئی۔
نہیں امی جان انہیں مت بتانا وہ ٹوٹ جائیگی۔۔ وہ تو برداشت نہیں کر پائیں گی۔۔
میرا حماد کہاں ہے مجھے اس کی آواز نہیں آ رہی نہ احمد نہ بلال کی ابو کہاں ہے انہیں کچھ هو تو نہیں گیا۔۔ اففف میرے خدایا ایک بار مجھے انہیں دیکھنے دے مجھے تسلی هو جائے گی یہ اتنے لوگ کیوں رو رہے ہیں۔۔
پلیز چپ ہو جائیں مجھے تکلیف هو رہی ہے آپ سب کے رونے سے۔۔
میں کسی کا کچھ نہیں لے کر گیا بلکہ اپنا سب کچھ بھی چھوڑ کر جا رہا ہوں پھر کیوں رو رہے ہو۔۔
لو جی زونیرہ آ گئی یہ اسی کی آواز ہے۔۔ سب آ گئے ہیں مطلب میرے جانے کا وقت قریب آ گیا ہے۔۔
شکر ہے کچھ شور کم ہوا۔۔ لگتا ہے کھانا کھا رہے ہیں۔۔ کھاؤ کھاؤ مرنے والوں کے ساتھ مرا تھوڑی جاتا ہے۔۔
میری لاڈو نے کچھ کھایا۔ کب سے میرے پاس کھڑی ہے میرے چہرے پہ ہاتھ پھیر رہی ہے۔۔۔ مجھے اس کا ہاتھ اتنا بھاری لگ رہا ہے۔۔
گڑیا آپ سو جاؤ زونیرہ نے لاڈو سے کہا۔
نہیں میں بابا کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی کل بابا نے اللّٰهُ تعالٰی کے پاس چلے جانا ہے۔۔
ہائے میں قربان میں صدقے میری بچی۔۔ اتنی سمجھدار ہو گئی ہے۔۔ دل کر رہا ہے منہ چوم لوں اپنی بچی کا۔۔
پھر سب رونے لگے۔۔ ایک تو ان کے رونے سے مجھے تکلیف بہت هو رہی ہے
شکر ہے کوئی تلاوت کرنے لگا هے۔۔
سنو سنو میرے قریب آ کر تلاوت کرو۔ مجھے سکون مل رہا ہے۔۔
یہ یہ مجھے کون اٹھا رہا ہے آرام سے بہت درد کر رہا ہے جسم۔۔ اچھا غسل دیا جا رہا ہے مجھے۔۔ مطلب اب سب کو جلدی هے مجھے بھیجنے کی۔۔
ہم مر گئے تو سب کو دفنانے کی فکر ہوگی
کسی کو قبر کی تو کسی کو لے جانے کی فکر ہوگی
میرا نام پکارا جائے گا مسجد کے مناروں سے
کہیں دیر نہ ہوجائے جنازے کی فکر ہوگی
پہلے روتے تھے میرے مرنے کے افسوس میں
ہم چلے گئے تو انکو کھانے کی فکر ہوگی
جونہی شام ہوگی پریشانی بڑھ جائے گی
کتنے مہمان اگئے انکو سلانے کی فکر ہوگی
پھیکے چاول بنائیں گے سب کڑاہی گوشت بنائیں گے
سب کو خاندان میں عزت بنانے کی فکر ہوگی