انہوں نے کوئی گہرا صدمہ لیا ہے اور کل سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے شاید۔
بخار بھی 104 تک پہنچ گیا ہے اسی وجہ سے بے ہوش ہو گئی ہے۔۔ میں نے دوائی لکھ دی ہے فورن منگوا کر کھلائیں۔۔ اور ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کریں ان کا بخار ہلکا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔
فلحال میں نے کچھ انجیکشن ڈال کر ڈرپ لگا دی ہے ۔۔ پھر بھی دوائی جلدی منگوا کر دیں۔۔
اور ایک بات اگر دوائی سے بخار کم نہ ہو تو انہیں فورن ھوسپیٹل لے جائیں۔۔ ڈاکٹر فرواہ کو ڈرپ لگاتے ہوئے نعمان کی ماں جمیلہ سے کہہ رہا تھا۔۔
جی ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ آپ کو اس وقت زحمت دی۔۔
زحمت کی کیا بات ہے یہ تو میرا فرض ہے۔۔ ڈاکٹر نے کہا۔
اب میں چلتا ہوں انہیں ہوش آ جائے تو مجھے اطلاع کیجیے گا میں دن میں دوبارہ چکر لگاؤں گا۔۔
جی ڈاکٹر صاحب۔۔
لو جی نئی مصیبت پلے پڑ گئی ہے۔۔ صدا کی بیمار کو اپنے ماتھے مَڑ لیا ہے۔۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد جمیلہ فرواہ کو نفرت سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔
میں تو پہلے ہی کہتا تھا اماں مجھے نہیں کرنی اس بدتمیز سے شادی مگر تجھے ہی بھانجی کی محبت یاد آ رہی تھی اب بھگتو نعمان بھی پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔۔
سچ کہہ رہے ہو تم بیٹا۔۔ میرا ہی ماتھا خراب تھا۔۔
سارے مہمانوں میں چیمگوئیاں شروع ہو گئی۔۔ ہر کوئی طرح طرح کی باتیں کرنے لگا۔۔
اللّٰهُ الله کرکے دن چڑھتے ہی فرواہ کو ہوش آ گیا ڈرپ بھی اتار دی گئی۔۔ نعمان کی بہن سیب کا ملک شیک بنا کر لے آئی۔ اور تھوڑا سا اسے زبردستی پلایا۔۔
10 بجے کے قریب منال اور قاسم علی بھی ناشتہ لےکر آ گئے۔۔ انہیں آتے ہی فرواہ کی طبیعت خراب کا پتہ چلا۔۔ قاسم علی تو پریشان ہو گیا۔۔
دونوں بھاگتے ہوئے فرواہ کے پاس پہنچے۔۔
کیا ہوا میری جان مجھے پتہ چلا تیری طبیعت خراب ہے۔ قاسم علی نے بہن کو ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
فرواہ نے خود کو چھڑا لیا۔۔ بڑی جلدی پتہ چل گیا آپ کو بھائی۔ اور غصے میں کہنے لگی۔
گڑیا یہاں پہنچا تبھی پتہ چلا۔۔ تم ایسے کیوں کہہ رہی هو۔ قاسم علی نے اس کا غصہ محسوس کرتے ہوئے کہا۔۔
کیونکہ مجھے پچھلے 3 دن سے بخار تھا۔۔ فرواہ نے منال کی طرف دیکھ کر کہا۔۔
قاسم علی کو واقعی دکھ ہوا کہ اسے بہن کی بیماری کا پتہ نہیں چلا۔۔
کیسی ہے بھابھی آپ۔ فرواہ نے قاسم علی کو نظر انداز کرتے ہوئے منال سے پوچھا۔
میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ اب طبیعت کیسی ہے منال اس کے پاس بیٹھتی ہوئی بولی اس نے جیسے ہی اس کے گال پر پیار سے ہاتھ رکھنے کی کوشش کی اسے تھپٹر کے نشان فرواہ کے گال پر نظر آئے۔۔۔
فرواہ کیا ہوا ہے مجھے سچ بتاؤ یہ نشان کیسے ہیں۔۔ منال یک دم سنجیدہ ھوتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔ قاسم علی نے بھی نوٹ کیا۔
کچھ نہیں بھابھی فرواہ نے گال پر ہاتھ رکھ لیا۔۔
ارے کچھ نہیں بھابھی یہ بے ہوش ہو گئی تھی میں اسے اٹھا رہا تھا تو میری انگلیوں کے نشان پڑ گئے پتہ تو هے کتنی نازک ہے یہ۔۔
اچانک کمرے میں نعمان آتے ہوئے بولا۔۔ کیونکہ اس نے منال کی بات سن لی تھی
اتنی زور سے اٹھاتے ہیں کہ تھپڑ کے نشان پڑ جائیں۔۔ منال غصے میں بولی۔۔
اس وقت پتہ نہیں چلا بھابھی میں تو اس کی حالت دیکھ کر ڈر گیا تھا تبھی سخت ہاتھ لگ گیا۔۔ نعمان نے بات بنائی۔۔۔
چھوڑیں بھابھی کچھ نہیں ہے آپ بتائیں کیسی ہے اور واپس گئی تھی اپنے گھر کے ابھی جانا ہے۔۔ فرواہ نے منال کے بولنے سے پہلے بات بدل کر کہا۔۔
نہیں ابھی تمہیں لے کر گھر چھوڑ کر پھر جاؤں گی۔۔ زونیرہ بھابھی اور بھائی آئے ہیں مجھے بھی لینے۔۔ منال نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بات کا جواب دیا۔۔
سب ہنسی خوشی باتیں کرنے لگے۔۔ مگر قاسم علی مسلسل نوٹ کر رہا تھا کہ فرواہ اسے نظر انداز کر رہی ہے۔۔ وہ بہت کوشش کر رہا تھا بات کرنے کی وجہ جاننے کی مگر بے سود۔۔
یہ سلسلہ یہاں ہی ختم نہیں ہوا۔
فرواہ کی زندگی پہلے دن کی طرح روز بروز بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی اور وہ برداشت کر رہی تھی یہ سوچ کر کہ شاید کبھی نعمان بدل جائے۔۔ مگر نہیں۔۔ پہلے پہل خالا نے ساتھ دیا مگر جب دیکھا کہ بیٹا ہی پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے تو وہ کیوں سر پر بیٹھائے۔۔ اس نے بھی گھر کے سارے کام بیٹیوں سے چھڑا کر اسے سونپ دئے اور خود بھی ایک پلنگ پہ بیٹھ کر حکومت شروع کر دی۔۔
فرواہ نے میکے جانا چھوڑ دیا۔۔ سال بعد قاسم علی فیملی کے ساتھ سعودی شفٹ هو گیا۔۔ اور فرواہ بھری دنیا میں اکیلی راہ گئی۔۔
____--------__-------_--------_-------_----
2016 میں سعودی حکومت شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان
نے ملک میں بہت بڑی تبدیلی کا اعلان کیا۔۔
اعلان کے مطابق اب ملک میں بڑے بڑے عہدے پر اور سرکاری ملازمین میں زیادہ تر سعودی کے شہری کام کریں گے۔۔ کیونکہ اس سے پہلے وہاں کے شہری صرف حکومت کرنا جانتے تھے کام نہیں۔۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے عربی صرف عیاشی کرتے تھے۔۔ سعودی ریال پر۔۔
اس اعلان کے بعد بہت ساری کمپنیوں نے غیر ملکی ملازمین کو نوکری سے فارغ کرکے ان کے ملک روانہ کر دیا۔۔
اور بہت سے آزاد ویزہ والے جو 13 سے 15 یا اس سے زیادہ عرصہ سے وہاں راہ رہے تھے انہیں بھی ان کے ملک واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔۔
انہی میں قاسم علی بھی تھا جیسے نوٹس مل گیا تھا نوٹس کے مطابق اسے 4 ماہ بعد ملک چھوڑنا تھا۔۔
منال حامد۔۔ احمد اور بلال کے بعد 9سال بعد ماں بننے والی تھی۔
قاسم علی اور گھر کے سبھی لوگ روز آنہ روزہ رسول اللہ صلی الله علیه وآلہ وسلم پہ جاکر دعا کر رہے تھے کہ اللّٰهُ تبارک تعالیٰ انہیں بیٹی کی رحمت سے نوازے۔۔
ابھی حمل 7 ماہ کا تھا جب َانہیں نوٹس ملا تھا۔۔ قاسم علی کے ساتھ ساتھ منال کی نیندیں بھی آنکھوں سے غائب ہو چکی تھی وہ ہر وقت اللّٰهُ سے رو رو کر دعا کر رہے تھے کہ انہیں یہاں سے نہ نکالا جائے۔۔
منال کی دلی خواہش تھی کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں کی طرح یہ بچہ بھی آقائے دو جہان سرور کائنات حضرت مُحَمَّد ﷺ کی نگری میں پیدا کرے۔۔
اور اللّٰهُ نے یہ دعا سن لی تھی کیونکہ جانا 4 ماہ بعد تھا اور
ڈلیوری 3 ماہ بعد۔۔
دونوں میاں بیوی کی عبادتوں میں تیزی آ گئی تھی۔ وہ تو جیسے پاگل ہو گئے تھے۔۔ کوئی نفل کوئی سنت کوئی فرض نہیں چھوڑ رہے تھے وظائف پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگ رہے تھے کہ اللّٰهُ ہمیں ہمارے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم سے دور نہ کرے۔۔
24 گھنٹے زبان پر ایک ہی بات ہی اور ایک ہی دعا۔۔۔
قاسم علی پنجگانہ نماز کوشش کرتا تھا مسجد نبوی میں ادا کرے۔۔ پہلے جہاں نماز پڑھ کر کام پہ یا گھر آ جاتا تھا اب کوشش کرتا زیادہ سے زیادہ وقت حضور اکرم صلی الله علیه وآلہ وسلم کے پاس گزارا جائے۔
وہ گھنٹوں مقامِ ریاض الجنتہ۔۔(۔ یہ وہ مقام ہے جو نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کے روزہ مبارک اور منبرِ مصطفیٰ صلی الله علیه وآلہ وسلم کے درمیان ہے۔۔اور جسے میرے آقا صلی الله علیه وآلہ وسلم نے خود کہا کہ یہ جگہ جنت کے باغیوں میں سے ایک باغ ہے۔۔ ) میں بیٹھ کر آنسو بہاتا رہتا۔۔
۔ اسی کیفیت میں 3 ماہ کیسے گزر گئے پتہ نہیں چلا۔۔
آخر وہ دن آ ہی گیا جس دن سب کی دعائیں رنگ لائی۔
اور منال نے ایک بہت خوبصورت بچی کو پیدا کیا۔۔ قاسم علی اور اس کے والدین خوشی سے جھومنے لگے اس نے ھوسپیٹل کے سارے سٹاف کو مٹھائی کھلائی۔۔ شکرانے کے نفل ادا کیے۔۔
بچی ماشاء اللہ بہت خوب صورت تھی اور بقول ڈاکٹرز کے جب وہ پیدا ہوئی اس کے چہرے پر ایک نور سا تھا۔۔ جو بہت چمک رہا تھا۔۔
قاسم علی نے اس کا نام ہی نور فاطمہ رکھ دیا۔۔ نور واقعی ایک نور ہی تھی سرخ و سفید دودھیا رنگ تیکھے تیکھے نقوش چہرے پر بلا کی معصومیت۔۔ بھائیوں کی جان تھی۔۔ تینوں ہر وقت اسی سے چمٹے رہتے۔۔
نور کے آنے سے مدینہ منورہ چھوڑنے کا غم کچھ دن کے لئے کم هو گیا۔۔ مگر زیادہ نہیں 15 دن پہلے ہی سارا سامان کارگو کروا دیا اس کے 3 4 دن بعد والدین اور بیوی بچوں کی ٹکٹ کروا دی۔۔ مطلب 15 دن بعد سارے پاکستان پہنچ گئے سوائے قاسم علی کے۔۔۔ اسے کام تو کوئی نہیں تھا بس وہ چاہتا تھا کچھ دن کچھ پل اور اس شہر میں گزارے اور یہاں کی یادیں سمیٹ لے اس نے ہر اس جگہ جانے کا فیصلہ کیا یہاں یہاں میرے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کے قدم مبارک پڑے تھے۔۔
پہلے 5 دن مکہ مکرمہ میں گزارے عمرہ کے ساتھ ساتھ۔۔۔ وہ ہر تاریخی مقامات پر گیا۔ (((((((
#نوٹ
آئیں قاسم علی کے ساتھ ساتھ ہم بھی اللّٰهُ کے گھر کی زیارت کرتے ہیں اور تاریخی معلومات حاصل کرتے ہیں۔۔ یہ ناول کا حصہ نہیں مگر رمضان المبارک ہے تو سوچا میری طرف آپ سب کے لیے تحفہ پیش کروں۔۔ ہم اور آپ کبھی ان شاء الله اپنی آنکھوں سے وہ مقامات دیکھیں گے۔۔ ابھی کے لیے ساری جگوں کی جہاں جہاں حج اور عمرہ کے دوران خوش نصیب حاجی جاتے ہیں آئیں ان مقامات کا تفصیلی تعارف آپ کے سامنے پیش کرتی ہوں۔۔ غلطی کوتاہی هو جائے تو معاف کیجئے گا۔۔ ))))))))))
#بیت_اللہ:
بیت اللہ شریف اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کا حج اور طواف کیا جاتا ہے۔ اس کو کعبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کیلئے زمین پر بنایا جیسا کہ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
"اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کیلئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے جو تمام دنیا کیلئے برکت وہدایت والا ہے۔"
بیت اللہ مسجد حرام کے قلب میں واقع ہے اور قیامت تک یہی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔24 گھنٹوں میں صرف فرض نمازوں کے وقت خانہ کعبہ کا طواف رکتا ہے باقی دن رات میں ایک گھڑی کیلئے بھی بیت اللہ کا طواف بند نہیں ہوتا ۔ بیت اللہ کی اونچائی14میٹر ہے جبکہ چوڑائی ہر طرف سے کم وبیش 12 میٹر ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی 120رحمتیں روزانہ اس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے 60 طواف کرنے والوں پر، 40وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور 20خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر ۔
اگر بیت اللہ کا قریب سے طواف کیا جائے تو7 چکر میں تقریباً30 منٹ لگتے ہیں، لیکن دور سے کرنے پر تقریباً ایک سے2 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ طواف زیارت (حج کا طواف) کرنے میں کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ بیت اللہ پر پہلی نظر پڑنے پر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ حضور اکرم کی سنت کے مطابق بیت اللہ شریف کو ہر سال غسل بھی دیا جاتا ہے۔
#حطیم:
یہ دراصل بیت اللہ ہی کا حصہ ہے، لیکن قریش مکہ کے پاس حلال مال میسر نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے تعمیر کعبہ کے وقت یہ حصہ چھوڑکر بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہوکر نمازپڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اللہ میرا ہاتھ پکڑکر حطیم میں لے گئے اور فرمایا:
جب تم بیت اللہ (کعبہ) کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں) کھڑے ہوکر نماز پڑھ لو۔ یہ بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم نے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کے وقت (حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ) اسے (چھت کے بغیر) تھوڑا سا تعمیر کرادیا تھا۔ بیت اللہ کی چھت سے حطیم کی طرف بارش کے پانی کے گرنے کی جگہ (پرنالہ) میزاب رحمت کہی جاتی ہے۔
#حجر_اسود:
حجر اسود قیمتی پتھروں میں سے ایک پتھر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کردی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔
حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔ حجر اسود کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوںگی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ حجر اسود کے استلام سے ہی طواف شروع کیا جاتا ہے اور اسی پر ختم کیا جاتا ہے۔ حجر اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف دونوں یا داہنے ہاتھ سے اشارہ کرنا استلام کہلاتا ہے۔
#مُلتزم:
ملتزم کے معنیٰ ہے چمٹنے کی جگہ۔حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان ڈھائی گز کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے۔حضور اکرم نے اس جگہ چمٹ کر دعائیں مانگی تھیں، یہ دعاؤں کے قبول ہونے کی خاص جگہ ہے۔
#رکن_یمانی:
بیت اللہ کے تیسرے کونہ کو رکن یمانی کہتے ہیں۔ رکن یمانی کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ رکن یمانی پر 70 فرشتے مقرر ہیں۔ جو شخص وہاں جاکر یہ دعا پڑھے: رَبّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِـرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النّارِ ، تو وہ سب فرشتے آمین کہتے ہیں ، یعنی یا اللہ! اس شخص کی دعا قبول فرما۔
#مقام_ابراہیم:
یہ ایک پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو تعمیر کیا تھا۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔ یہ کعبہ کے سامنے ایک جالی دار شیشے کے چھوٹے سے قبہ میں محفوظ ہے جس کے اطراف میں پیتل کی خوشنما جالی نصب ہے۔حجر اسود کی طرح یہ پتھر بھی جنت سے لایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کردی ہے۔اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔ طواف سے فراغت کے بعد طواف کی 2رکعت اگر سہولت سے مقامِ ابراہیم کے پیچھے جگہ مل جائے تو مقام ابراہیم کے پیچھے ہی پڑھنا بہتر ہے ۔
#مسجد_حرام:
مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد (مسجد حرام) مقدس شہر مکہ مکرمہ کے وسط میں واقع ہے۔ مسجد حرام کے درمیان میں بیت اللہ ہے جس کی طرف رخ کرکے دنیا بھر کے مسلمان ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلی مسجد مسجد حرام ہے جیساکہ حدیث میں ہے ۔حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: مسجد حرام۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سی؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ دونوں کے درمیان کتنے وقت کا فرق ہے؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: 40 سال کا۔
حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
3"مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا سفر اختیار نہ کیا جائے: مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔"
حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
"میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سوا ئے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہے۔"
#صفا_ومروہ:
صفا ومروہ 2پہاڑیاں ہیں۔صفا کو شیشوں کے حصار میں لے لیا گیا ہے جبکہ مروہ کی پہاڑی کاتھوڑا حصہ نظر آتا ہے۔صفا ومروہ اور اس کے درمیان کا مکمل حصہ ایئرکنڈیشنڈ ہے۔ صفا ومروہ کے درمیان حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کیلئے پانی کی تلاش میں7 چکر لگائے تھے اور جہاں مرد حضرات تھوڑا تیز چلتے ہیں یہ اُس زمانہ میں صفا مروہ پہاڑیوں کے درمیان ایک وادی تھی جہاں سے ان کا بیٹا نظر نہیں آتا تھا، لہذا
سیدہ ہاجرہ ؑ اس وادی میں تھوڑا تیز دوڑی تھیں۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی اس عظیم قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرماکر قیامت تک آنے والے تمام مرد حاجیوں کواس جگہ تھوڑا تیز چلنے کی تعلیم دی ۔ شریعت اسلامیہ نے صنف نازک کے جسم کی نزاکت کے مدنظر اس کو صرف مردوں کیلئے سنت قرار دیا ہے۔ سعی کا ہر چکر تقریباً395میٹر لمبا ہے،
یعنی 7 چکر کی کُل مسافت تقریباً پونے3 کیلومیٹر بنتی ہے۔ نیچے کی منزل کے مقابلہ میں اوپر والی منزل پر ازدحام کچھ کم رہتا ہے۔ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس پہاڑی سے ایک ایسا جانور نکلے گا جو انسانی زبان میں بات کرے گا۔
#منیٰ:
منیٰ مکہ مکرمہ سے 5,4کیلومیٹرکے فاصلہ پر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے۔ حجاج کرام 8 ذی الحجہ کو اور اسی طرح11، 12 اور 13 ذی الحجہ کومنیٰ میں قیام فرماتے ہیں۔ منیٰ میں ایک مسجد ہے جسے مسجد خیف کہا جاتا ہے۔ اسی مسجد کے قریب جمرات ہیں جہاں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں۔منیٰ ہی میں قربان گاہ ہے جہاں حجاج کرام کی قربانیاں کی جاتی ہیں۔
#عرفات:
عرفات منیٰ سے تقریباً10,8 کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ میدان عرفات کے شروع میں مسجد نمرہ نامی ایک بہت بڑی مسجد ہے جس میں زوال کے فوراً بعد خطبہ ہوتا ہے پھر ایک اذان اور دو اقامت سے ظہر اور عصر کی نمازیں جماعت سے ادا ہوتی ہیں۔اسی جگہ پر حضور اکرم نے خطبہ دیا تھا جو" خطبہ حجۃ الوداع" کے نام سے معروف ہے۔ مسجد نمرہ کا اگلا حصہ عرفات کی حدود سے باہر ہے ۔ منیٰ ومزدلفہ حدود حرم کے اندر، جبکہ عرفات حدود حدود حرم سے باہر ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں حج کا سب سے اہم رکن ادا ہوتا ہے، جس کے متعلق حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ وقوف عرفہ ہی حج ہے۔
#مزدلفہ:
9 ذی الحجہ کو غروب آفتاب کے بعد حجاج کرام عرفات سے مزدلفہ آکر عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ یہاں رات کو قیام فرماتے ہیں اور نماز فجر کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہوکر دعائیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوااللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (البقرۃ198)
"جب تم عرفات سے واپس ہوکر مزدلفہ آؤ تو یہاں مشعر حرام کے پاس اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"
اس جگہ ایک مسجد بنی ہوئی ہے جس کو مسجد مشعر حرام کہتے ہیں۔ مزدلفہ منی سے4,3 کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔
#وادی_محسر:
منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان میں ایک وادی ہے جس کو وادی محسر کہتے ہیں۔یہاں سے حضور اکرم کی تعلیمات کے مطابق گزرتے وقت تھوڑا تیز چل کر گزرا جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ بادشاہ کے لشکر کو ہلاک وتباہ کیا تھا جو بیت اللہ کو ڈھانے کے ارادہ سے آرہا تھا۔
#جمرات:
یہ منیٰ میں 3 مشہور مقام ہیں جہاں اب دیوار کی شکل میں بڑے بڑے ستون بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم، نبی اکرم کے طریقہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ان جگہوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ ان میں سے جو مسجد خیف کے قریب ہے، اسے جمرہ اولیٰ، اس کے بعد بیچ والے جمرہ کو جمرہ وسطیٰ اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف آخری جمرہ کو جمرہ عقبہ یا جمرہ کبریٰ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیطان نے ان 3 مقامات پر بہکانے کی کوشش کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان 3 مقامات پر شیطان کو کنکریاں ماری تھیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو قیامت تک آنے والے حاجیوں کیلئے لازم قرار دیدیا۔
حجاج کرام بظاہر جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں لیکن درحقیقت شیطان کو اس عمل کے ذریعہ دھتکارا جاتا ہے ۔رمی یعنی جمرات پر کنکریاں مارنا حج کے واجبات میں سے ہے۔
دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو رمی کرنا (یعنی49کنکریاں مارنا) ہر حاجی کیلئے ضروری ہے۔ تیرہویں ذی الحجہ کی رمی (یعنی21کنکریاں مارنا) اختیاری ہے۔
#مولد_النبی :
مروہ کے قریب حضور اکرم کی پیدائش کی جگہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں9 یا 12 ربیع الاول کو نبی اکرم رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے تھے۔ اس جگہ پر اِن دنوں مکتبہ (لائبریری) قائم ہے۔
#غار_ثور:
یہ غار جبل ثور کی چوٹی کے پاس ہے۔ یہ پہاڑ مسجد حرام سے تقریباً10کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور غار ایک میل کی چڑھائی پر واقع ہے۔ حضور اکرم نے مکہ مکرمہ ہجرت کے وقت اسی غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ3 دن قیام فرمایا تھا۔
#غار_حِرا:
یہاں قران کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ سورہ اقراء کی ابتدائی چند آیات اسی غار میں نازل ہوئی تھیں۔یہ غار جبل نور (پہاڑ) پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ مکہ مکرمہ سے منیٰ جانے والے اہم راستہ پر مسجد حرام سے تقریباً4کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً 2 ہزار فٹ ہے۔
#جنت_المعلّٰی:
یہ مکہ مکرمہ کا قبرستان ہے۔ یہاں پر ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، صحابۂ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔