دنیا کے حالات سوچتے ہوئے میری آنکھیں نم ہونے لگی۔۔ مجھے اپنے ماں باپ یاد آنے لگے منال کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔۔ میرے بچے۔ میری گڑیا۔۔ سب مجھے یاد آنے لگے۔۔
پتہ نہیں کیسے ہونگے سب۔۔ پتہ نہیں میرے بچے کس راہ پر چل نکلے ہونگے۔۔ پتہ نہیں میرے امی ابو کس حال میں ہونگے۔۔ میری گڑیا کتنی بڑی هو گئی هو گی۔۔
ان سب کا خیال آتے ہی میری بھوک مر گئی۔۔ اور میں اداس ہو گیا۔۔
کیا ہوا قاسم علی صالح نے پوچھا۔۔کیوں اداس ہو
مجھے اپنے گھر والوں کی یاد آ رہی ہے۔ تم نے بتایا کہ مجھے مرے 3 سال ھو گئے ہیں۔ سوچ رہا ہوں پتہ نہیں ان 3 سالوں میں وہاں کیا کچھ بدل چکا هو گا۔۔جبکہ مجھے تو ابھی بھی ایسا لگ رہا ہے میں کل مرا ہوں۔۔ کیونکہ موت کی تکلیف مجھے ابھی بھی ویسی ہی محسوس ہو رہی ہے۔۔
تم نے بلکل ٹھیک کہا قاسم علی موت کی تکلیف واقعی اتنی سخت ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد کوئی بھی شخص کبھی نہیں چاہے گا اسے زندہ کرکے دوبارہ موت سے گزارا جائے۔۔۔
اور رہی تمہارے مرنے کی مدت تو تمہیں پہلے بھی بتایا گیا ہے قاسم علی کے دنیا کا وقت بہت تیز-رفتاری سے گزرتا ہے جبکہ یہاں وقت تھم گیا ہے یہاں کے 2 پل دنیاوی زندگی کے کئی سال ہوتے ہیں۔۔
اب میں تجھے نہیں بتاؤں گا تجھے مرے کتنا عرصہ ہو گیا ہے۔۔
صالح نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
اچھا نہ بتا۔۔ مگر کیا میں اپنے گھر والوں کا حال معلوم کر سکتا ہوں۔۔ میں نے التجا کی۔
بلکل کر سکتے هو قاسم علی کہا تھا نا یہاں ناممکن لفظ کی جگہ نہیں جہاں ہر چیز ممکن ہے۔۔ صالح نے کہا۔
پھر میرے سامنے ایک سکرین چلائی گئی۔۔ جس میں سب سے پہلے میں نے منال کو دیکھا۔۔ ارے یہ کیا اسے کیا ہوا اس کی جوانی کہاں گئی۔۔ ارے میری منال تو تو بوڑھی ہو گئی۔۔
منال کے چہرے پر ان 10 سالوں نے بڑھاپا اوڑھ دیا تھا۔۔
چہرے کی ملائمت کی جگہ پختگی اور سنجیدگی نے لے لی تھی۔۔ احمد ماشاء الله کاروبار اچھے طریقے سے چلا رہا تھا بلکہ قاسم علی سے بھی زیادہ ماہر اور امیر هو گیا تھا
چھوٹے بھی کافی بڑے داڑھی مونچھ والے مرد لگ رہے تھے۔۔ اور میری گڑیا تو جوان ہو کر اور بھی زیادہ خوبصورت هو گئی ہے۔۔ میں سب کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔ ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف تھا۔ وہاں میری بلکل بھی کمی نہیں لگ رہی تھی۔۔ سوائے منال کے چہرے پر۔۔
صالح۔ میرے ماں باپ نظر نہیں آئے۔۔ میں نے تڑپ کر فرشتے سے پوچھا۔۔
وہ اس لیے قاسم علی کے تمہارے بعد 2 سال بعد تمہاری والدہ اور اس کے ایک سال بعد والد بھی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔۔؛
کیا دونوں نہیں رہے۔۔ سن کر میری آنکھیں نم ھونے لگی۔۔
کیا ہوا قاسم علی۔۔ کیا تجھے یقین نہیں کے تیرے والدین جنتی ہے۔۔
نہیں مجھے پورا یقین ہے وہ ضرور جنتی ہیں۔۔
تو پھر غم نہ کرو۔۔ ان کے ساتھ بھی معاملہ اچھا هو گا۔۔
میں مطمئن ہو گیا۔۔
سکرین غائب ہو چکی تھی اور مجھے اندازہ هو گیا تھا کہ مجھے مرےکافی عرصہ گزر چکا ہے۔۔
میں نے سیر هو کر پھل کھائے۔۔ میرے سامنے عالی قسم کے مشروبات حاضر هو چکے تھے۔
میں جو دل کیا پیا۔۔ صالح اور سورت ملک میری دل جوئی کے لیے میرے ساتھ تھے۔۔ مجھے اب کوئی فکر کوئی ٹینشن نہیں رہی تھی جب دل کرتا کچھ کھانے کو تو وہ چیز میرے سامنے عمدہ ترین پہلے سے موجود ھوتی۔۔ آرام کرنے کو عالی شان تخت تھا سیر کرنے کو برزخ کا وسیع میدان تھا اور کام جنت کو دیکھنے سے فرصت ملے تو کوئی کام کا سوچوں۔۔
جنت لمحہ بہ لمحہ بدل بدل کر میرے سامنے آ رہی تھی مطلب دروازے کے سامنے۔۔ اور ہر منظر پہلے سے زیادہ دلکش اور حسین تھا۔۔ یہ جگہ واقعی انسان کے تصور سے کہیں زیادہ خوبصورت اور آسائشوں سے مزین تھی۔۔
آج یہاں کا ماحول پہلے سے زیادہ دلکش لگ رہا ہے میں نے اگلی صبح صالح سے پوچھا۔۔
ابھی کہاں ابھی تو فرشتے سجا رہے ہیں۔۔ ابھی دیکھنا ستارے کیا کیا رنگ دیکھاتے ہیں۔۔ صالح سامنے دیکھتے ہوئے مسرت سے سرشار بولا۔۔
کیوں آج کوئی خاص بات ہے۔ میں نے پوچھا۔۔
قاسم علی تیری سب سے بڑی خواہش کیا ہے اور کیا تھی۔۔ صالح نے میری طرف دیکھتے ہوئے الٹا مجھی سے سوال کر دیا
میری ہمیشہ سے ایک ہی خواہش رہی ہے میں اپنے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کا دیدار کر سکوں۔۔ مجھے موت سے محبت بھی اسی لیے تھی کہ قبر میں آقا کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم دیدار فرمائیں گے۔۔ مگر میری ابھی تک یہ خواہش ادھوری ہے۔۔ میں نے افسردگی سے کہا۔۔
بس پھر سمجھ لو خواہش پوری ھونے کا وقت آ گیا۔۔ یہ تیاریاں یہ سجاوٹ آقائے دو جہاں سرور کائنات محبوب خدا صلی الله علیه وآلہ وسلم کی آمد کے لیے ہیں۔۔
آج یہاں جتنے بھی عاشق رسول اللّه صلی الله علیه وآلہ وسلم موجود ہیں سبھی کو دیدار نصیب هو گا۔۔ صالح خوش ھوتے ہوئے کہنے لگا۔۔
میرے دل کی دھڑکن تیز ھو گئی میرا سانس اکٹھرنے لگا آنکھیں آنسو بہا بہا کر وضو کرنے لگی محبت کی شدت اور تڑپنے لگی۔۔ میری زبان میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔ میں بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر مارے مسرت کے زبان کنگ هو گئی۔۔ میں بے چینی سے ادھر سے اودھر ٹہلنے لگا۔۔
صالح اور سورۃ ملک میری بے چینی میری تڑپ دیکھ کر مسکرانے لگے۔۔
میں میں کیسا لگ رہا ہوں۔۔ میرے کپڑے میرے کپڑے تو صاف ہیں نا۔۔ میں نے پھل کھایا تھا کہیں میرے چہرے پر نشان تو نہیں پڑے ہوئے۔۔
میں دیوانگی کی کیفیت سے پوچھنے لگا۔۔
حوصلہ رکھو قاسم علی تم بلکل ٹھیک لگ رہے ہو اور پیارے بھی۔۔
پتہ ہے قاسم علی امت مسلمہ امت محمد سب امتوں میں افضل کیوں هے۔ صالح پوچھنے لگا۔۔
کیوں۔۔
کیونکہ امت محمدی اپنے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم سے بنا دیکھے بنا ملے بنا تصور کیے محبت کرتی ہے بلکہ عشق کرتی ہے۔۔ اپنے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کے کہنے پر اور سننے پر اپنے ماں باپ بہن بھائی اولاد مال دولت غرض اپنی جان سے بھی زیادہ عشق کرتے ہیں۔۔ اور یہ ہی چیز اللہ کے نزدیک اسے افضل بناتی ہے۔۔
بیشک ہم اپنے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کے لیے سب کچھ قربان کر سکتے ہیں ان صلی الله علیه وآلہ وسلم سے پہلے ہمارے لیے کچھ نہیں۔۔
جانتا ہوں قاسم علی۔۔
ہم یہ باتیں کر رہے تھے تو دوسری طرف لگتا تھا ہر ستارہ ہر سیارہ آج نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا ہے۔۔ بادل بھی آج نئے ہی رنگ میں تھے دھنک بھی آج رنگوں کی بجائے پھول برسا رہی تھی۔۔
ہر شہدا کا تخت آج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔۔
میرا دل کر رہا تھا ہر چیز کو چھو چھو کر دیکھوں اور اس کے سامنے جا کر اس کی خوبصورتی کی تعریفیں کروں۔۔
اج تو خوبصورتی کو بھی مزید خوبصورت بنایا گیا تھا۔۔
میں نے پھر فکر سے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں ٹھیک تو لگ رہا ہوں۔۔ مگر یہ کیا۔
میرے جسم پہ جنتی پوشاک موجود تھی جو اپنی مثال آپ تھی۔۔
میں نے محبت سے اس پہ ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر صالح کو دیکھا۔۔
بھئی تمہیں ہی ڈر تھا کہ تمہارے کپڑے درست نہیں تو کپڑے درست هو گئے۔۔ صالح نے چھیڑتے ہوئے کہا۔۔
میں بھی مسکرا دیا۔۔
اچانک تمام فرشتے ادب سے قطار بنا کر کھڑے ہو گئے۔۔ تمام شہدا بھی تعظیم کے لیے سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔۔ جن میں ہم بھی شامل تھے۔۔
میرا بس نہیں چل رہا تھا سر جھکانے کی بجائے سجدے میں گر جاؤں۔
صالح نے میرا بازو پکڑ کر کہا۔۔ تیرے نبی کریم صلی الله علیه وآلہ وسلم کا حکم ہے سجدہ صرف اللّٰهُ کو اور کسی کو نہیں۔۔
جانتا ہوں وہ سارے رولز زمین والوں کے لیے ہیں یہاں تو میں وہی کروں گا جو میرا دل کہے گا۔۔ میں مصنوعی خفگی سے کہا۔۔
ہاہاہاہا جی جی بلکل مطلب یہاں کے رولز سمجھ آ گئے ہیں۔۔ یعنی یہاں کے رولز ہیں کہ کوئی رولز نہیں۔۔
بلکل۔ میں نے منہ بنایا۔۔
اتنے میں آسمان کا دروازہ کھلا ہم سب اوپر کو دیکھنے لگے۔۔
میرا دل اور تیزی سے دھڑکنے لگا۔۔
12 براق جن کی لگامیں 12 فرشتوں نے پکڑ رکھی تھیں ان کے پیچھے عالیشان بگی جو موتیوں سے بنی ہوئی تھی جس میں یاقوت مرجان جڑے ہوئے تھے جس میں سونے چاندی کی کشیدہ کاری بیل بوٹے بنے ہوئے تھے جو سورج سے زیادہ چمک رہی تھی اس میں
میں قربان میں نثار میرے ماں باپ نثار یا رسول اللّه صلی الله علیه وآلہ وسلم۔۔
اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيۡكَ يَاسَيِّدِۡي ياَرَسُوۡلَ الله ﷺ
اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيۡكَ يَاسَيِّدِۡي ياَحَبِيۡبَ الله ﷺ
فِدَاكَ اَبِی وَاُمِّی وَرُوحِی وَقَلبِی یَاسَیِّدِی یَارَسُول اللہﷺ
جلوہ افروز تھے۔ کالی زلفیں کندھے پر لہرا رہی تھیں۔۔ پیشانی پر چاند چمک رہا تھا ہونٹوں پر تبسم مہک رہی تھی آنکھیں ایسی مخمور کے ہر کسی کو اپنے سحر میں گرفتار کر رہی تھیں۔۔ گال ایسے کے دودھ ملائی بھی شرم سے جھک جائے
ایک نظر دیکھ کر نظر پلٹنا بھول گئی تھی۔۔ میں سوچ کر بیٹھا تھا ہاتھ چوموں کا سجدے میں گر کر قدموں کو بوسہ دونگا۔۔
سجدے سے سر اٹھا کر نعت سناؤں گا درود شریف پڑھ کر نزانہ پیش کروں گا۔۔
میں اک نظر دیکھ کر نظر جھکانا بھول گیا۔۔۔ میری آنکھوں کی پیاس بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔
حضور کی سواری ہم سب کے بیچ روکی گئی۔۔ فرشتوں نے آگے بڑھ کر ہاتھ پکڑ کر اترنے میں مدد کی۔۔ سورت ملک میرے پاس سے گزر کر قدم بوسی کو آگے بڑھا۔۔ تو اس کا کندھا مجھے لگا تو میں ہوش میں آیا۔۔
میرے سرکار میرے رسول اللّه صلی الله علیه وآلہ وسلم میرے سامنے تھے۔۔ آپ نے مجھے دیکھا تو تبسم فرمایا۔۔
میں وہیں فدا ہو گیا۔۔ میرے آقا کی مجھ پر نظر ثانی هو گئی۔۔۔
میں وہیں سجدے میں گر گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔ روتے روتے میری ہچکی بندھ گئی۔۔
مجھے نہیں معلوم میں کتنی دیر سجدے میں رہا اور اس دوران آقا دو جہاں سرور کائنات کس کس سے ملے مجھے تو تب ہوش آیا جب آپ صلی الله علیه وآلہ وسلم نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر کہا قاسم علی اٹھو۔۔
میں نے سجدے سے سر اٹھایا تو آپ صلی الله علیه وآلہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔ میری خواہش پوری ہو گئی تھی میں یہ ہی منظر دیکھنا چاہتا تھا کہ میں سجدے سے سر اٹھاؤں اور آپ میرے سامنے هو۔۔
میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔ آپ صلی الله علیه وآلہ وسلم نے مجھے گلے لگایا۔۔ پھر میں نے آپ کو اپنے تخت پر بیٹھا کر خود قدموں میں بیٹھ کر نعت پڑھنے لگا
سرِ لَامَکاں سے طلب ہوئی
سوئے منتہٰی وہ چلے نبی ﷺ
کوئی حد ہے اُن ﷺ کی عُروج کی
بَلَغ الُعٰلا بکَمالهٖ
رُِخ مُصطفٰے ﷺکی یه روشنی
یه تجلیوں کی بماہی
که ہر اک چیز چمک اُٹھی
کَشَفَ الدّجیٰ بجَمَالهٖ وُہ ﷺ سراپا رحمتِ کبریا
که ہر اک په جس کا کرم ﷺ ہوا
یه قُرآن پاک ہے برملِا
حَسنَّتُ جَمِیع و خِصَالهٖ
وہیﷺ حق نگر وہی ﷺحق نما
رُخِ مُصطفٰےﷺ ہے وہ آئینه
که خُدائے پاکﷻ نے خُود کہا
صَلُّو اعَلَیهٖ وَآلهٖ
صَلَّی اللہُ علٰی سیّدنَا وَمُولَانَا مُحَمَّدٍ ﷺ
آپ محبت سے میری طرف دیکھتے رہے تبسم فرماتے رہے پھر آپ کے جانے کا وقت آ گیا۔۔ میں بے چین ہو اٹھا۔۔ میری تڑپ ابھی باقی تھی میری پیاس ابھی باقی تھی۔۔
آپ نے مجھے سینے سے لگایا اور فرمایا۔
فکر نہ کرو قاسم علی کچھ دن بعد حوض کوثر پہ ملاقات هو گی اور اس بار میں تمہارا منتظر رہوں گا۔۔
یہ سننا تھا کہ میں پھر سے رونے لگا مجھ سے جدائی برداشت نہیں هو رہی تھی۔۔
مگر کچھ دن کی ہی تو بات تھی۔۔ میں نے آپ کے قدموں کو بوسہ دیا اپنے ہونٹ میٹھے کیے اور آپ کے ساتھ براق تک آیا۔۔
آپ کے جانے کے بعد دل مسرت اور سکون سے سرشار ہو گیا اور میں کامیاب ہو گیا۔۔
اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيۡكَ يَاسَيِّدِۡي ياَرَسُوۡلَ الله ﷺ
اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيۡكَ يَاسَيِّدِۡي ياَحَبِيۡبَ الله ﷺ اللَّـﮬـُمَّ صـَلِِّ وَسَلِّـمْ وَبَارِكْ ؏َـلَےسَيِّدِنَـامُحَمـَّد وَعَلَى آلِهِ
وَصَحْبِهِ وَسَلِّمْ تَسْلِيمَاً كَثِيرَاً
ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔