مجھے یہاں چلتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا پھر سوچا مر تو چکا ہوں اور کیا مروں گا ڈرنا بند کر قاسم علی۔۔ قاسم علی نے سنجیدگی سے کہا۔
ہاہاہاہا جانتا ہوں تبھی تو کہا بہت مزاح کرتے هو۔۔ صالح کہنے لگا۔۔ بلکل موت کا ذائقہ ایک بار ہی چکھنا ھوتا هے اب موت نہیں اب زندگی ہی زندگی هے۔۔
بلکل جانتا ہوں۔میں نے کہا۔
ہم تھوڑا اور آگے گئے۔ یہاں بہت سے لوگ موجود تھے بلکہ ایسا لگ رہا تھا۔ ساری خلقت جہاں ہی جمع ہو گئی ہیں۔۔ مجھے صالح اور سورت ملک نے دونوں طرف سے پکڑ کر اٹھایا تو میں تھوڑا اونچا هو گیا۔ اب جتنے لوگ تھے نیچے رہ گئے۔۔ میں جہاں تک دیکھ سکتا تھا مجھے خلقت ہی خلقت دکھائی دے رہی تھی۔۔ مگر کوئی کسی سے بات یا کسی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا ہر ایک کے چہرے پر عجیب سا کرب اور خوف نظر آ رہا تھا۔ مجھے انہیں دیکھ کر حیرت ہوئی۔ اور سوچا کہ یہاں تو ایک دوسرے کے ساتھ سلوک سے رہو۔۔ مگر میں خاموش رہا۔۔ صالح نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور سورت ملک میرے پیچھے سے میرے ساتھ چپک گیا۔۔
یہ تم دونوں کیا کر رہے هو۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔
یہاں آ کر دو کام ھوتے ہیں قاسم علی۔ صالح فرشتہ کہنے لگا۔ ایک یہ کہ جو گناہ گار ھوتا هے اسے جنت کی کھڑکی کھول کر دیکھائی جاتی ہے جیسے دیکھ کر وہ بہت خوش ھوتا هے اور کوشش کرتا ہے وہاں جانے کی۔
مگر فرشتے اسے کہتے ہیں کہ یہ جگہ تم نے اپنے اعمال سے کھو دی ہے یہ وہ جگہ تھی جس کا تیرے رب نے وعدہ کیا تھا کہ نیکیوں کے بدلے ملے گی مگر تم نے گنوا دی۔۔ پھر جہنم کی ایک کھڑکی ان کے لیے کھول دی جاتی ہے
جو قیامت تک کھلی رہتی ہے وہاں سے تھوڑا تھوڑا عذاب نکلتا رہتا ہے اور ان کو ملتا رہتا ہے۔۔
اچھا۔ مگر مجھے تو نظر نہیں آ رہا کے ان کو عذاب مل رہا ہے۔ بس ان کے چہروں سے لگ رہا ہے کہ وہ کرب میں مبتلا ہیں۔۔ میں نے کہا۔۔
قاسم علی الله تبارک تعالیٰ بہت مہربان ہے وہ کسی کے گناہ اور عذاب دوسرے پر عیاں نہیں ھونے دیتا تاکہ اس کا گناہ گار بندہ بھی کسی کے سامنے شرمندہ هو۔۔ یہ اللّٰهُ اور بندے کے معاملے ہیں۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے اس وقت ان پہ کیا گزر رہی ہے صالح کہنے لگا
اچھا تو تم دونوں میرے اتنے قریب کیوں ہوے هو۔ میں نے پوچھا
کیونکہ اب تجھے جہنم کی ایک جھلک دیکھائی جائے گی۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ تم اس کی ہولناکی اور دہشت دیکھ کر ڈر جاؤ۔ اور سورت ملک تجھے اس کی گرمی اور شدت سے بچانے کے لیے ساتھ لگا هے۔۔
مجھے جہنم کیوں مجھے جنت کیوں نہیں۔ میں سہم سا گیا۔۔
میری بات کا جواب دونوں نے نہیں دیا۔۔
پھر میرے سامنے ایک کھڑکی کھولی کھڑکی اتنی هو گی جتنی ایک کمرے میں سب سے چھوٹا روشن دان یا کسی غسل خانے میں ایگزاسٹ کے لیے چھوٹا سا ہول ھو۔
مطلب جتنی کھڑکی میں نے سوچا تھا کہ بہت بڑی هو گی نہیں تھی۔
کھڑی کا کھلنا ہی تھا کہ مجھے لگا میرے کپڑوں جوتوں اور میرے آس پاس آگ لگا دی گئی هو مجھے پیچھے سے سورت ملک نے نہ چمٹایا ھوتا تو میں تپش اور گرمی کی شدت سے چیخیں مارنے لگتا۔۔
میں نے کبھی آگ کی اتنی تپش نہیں دیکھی تھی سچ کہتے ہیں دنیا میں بھیجی گئی آگ 70 پانیوں سے دھو کر اور ٹھنڈی کرکے بھیجی گئی ہے۔۔ مگر جہنم کی آگ ہر روز دھکائی اور اس کی شدت بڑھائی جاتی ہے۔۔
میرے سامنے جہنم کی ہولناکیاں موجود تھی۔ جہاں کے سانپ اتنے بڑے اور ڈراؤنے تھے کہ اگر وہ ایک پھونک زمین پر مار دیں تو قیامت تک زمین بنجر هو جائے اور ہر چیز جل کر بھسم هو جائے۔ جہاں کے بچھوؤں اتنے بڑے کے پورا پورا ہاتھی نگل جائیں۔۔
آگ کی لپٹیں کھڑکی سے کود کود کر باہر آ رہی تھی مجھے صالح اور سورت ملک نے نہ پکڑا ھوتا تو میں کب کا جل بھن گیا ھوتا۔۔ ان دونوں کے پکڑنے کے باوجود میرے پاؤں جھلس گئے تھے۔۔ کھڑکی بند ہو گئی وہ صرف ایک لمحے کے لیے کھولی گئی تھی۔۔ ایک لمحے میں میرا یہ حال ہو گیا تھا کہ میری سانسیں تیز ریل گاڑی کی طرح بھاگ رہی تھیں میرا جسم پسینہ پسینہ ھو رہا تھا اور جسم مارے خوف اور دہشت کے کانپ تھا۔۔
یہ وہ جہنم ہے قاسم علی جس سے تو نے نجات پائی ہے اور خود کو اس سے بچا لیا ہے۔۔
سورت ملک مجھ سے جدا ہوا تو میں روتے ہوئے پھر سجدے میں گر گیا۔۔ اور رو رو کر اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا۔۔ جب تک میں نارمل نہیں ہوا ہم وہیں ٹھہرے رہے۔۔ پھر
۔۔ ہم تھوڑا اور اوپر گئے۔ یہاں بھی ویسا ہی حال تھا
لوگ ہی لوگ خلقت ہی خلقت مگر نیچے کی نسبت کم تھی۔۔
یہاں بھی سب اپنے آپ میں گم تھے مگر ان کے چہرے اور لباس سے وہ خوش اور مطمئن لگ رہے تھے۔۔
مجھے لگتا ہے یہ سب جنتی ہیں اور جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تبھی ان کے لباس شاندار اور چہرے پرسکون ہیں میں نے کہا
بلکل درست کہا تم نے قاسم علی صالح فرشتے نے کہا۔
اس کا مطلب میرا بھی یہی ٹھکانا هے۔ میں نے پوچھا۔
نہیں تمہارا ٹھکانا اس سے اوپر والا ہے۔۔ صالح نے کہا۔
اوپر والا میں حیرت سے پوچھا۔
جس طرح جنت اور دوزخ میں درجے ہوتے ہیں اسی طرح برزخ میں بھی درجے ہیں قاسم علی صالح کہنے لگا۔
پہلا درجہ گناہ گاروں کا ہے۔۔ اس میں بھی درجے ہیں مشرکوں کا الگ زنیوں کاالگ اور عام گناہ گار کا الگ تم نے عام گناہ گار کا دیکھا ہے۔
پھر نیکوکار کا درجہ جس میں سب عام نیکوکار موجود ہیں۔ اس کے اوپر شہیدوں کا اس کے اوپر اولیاء کرام ولی اللہ صحابہ کرام۔ اور اس کے اوپر انبیاء کرام علیہم اجمعین کا درجہ هے۔
تو پھر میرا ٹھکانہ اوپر کیسے میں کون سا شہید ہوں۔ یا اولیاء ولی اللہ۔۔ میں نے کہا۔
تم واقعی ایک شہید کی موت مرے ھو قاسم علی۔۔ اس لیے تمہارا ٹھکانہ شہدا کے ساتھ ہے۔
شہید کی موت میں نے حیرت سے دیکھا۔
ہاں مسلمانوں پر اللّٰهُ تبارک تعالیٰ کا یہ بھی ایک احسان ہے قاسم علی کے وہ ایکسیڈنٹ۔ جلنے اور ڈوب کر مرنے والوں کا درجہ بلند کرکے شہداء کے برابر کر دیتا ہے
میں نے دل میں اللّٰه کا ایک بار پھر شکر ادا کیا۔۔۔
ہم اوپر گئے یہ جگہ نیچے والے درجوں کی نسبت زیادہ خوبصورت اور دلکش تھی۔۔ ہر طرف بادل' روئی کی طرح اڑ رہے تھے
ہر بادل میں اس کی اپنی ہی دھنک موجود تھی جس میں سے ہر رنگ کی کرنیں نکل کر چاروں سمت پھیل رہی تھی۔۔ میں نے کبھی بچپن میں بارش کے بعد دھنک دیکھی هو گئی یا کتابوں میں پڑھا تھا۔۔
آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔
ہر رنک کی اپنی روشنی تھی اور ہر رنگ الگ الگ لگ رہا تھا۔۔ جتنے بادل اور دھنکیں موجود تھی یہاں تو انہیں گڈمڈ هو جانا چاہیے تھا۔ مگر نہیں ہر ایک اپنی دلکشی کے ساتھ موجود تھی اور نمایاں تھی
ہلکی ہلکی پھوآر پڑ رہی تھی جیسے آسمان سے شبنم کے قطرے گر رہے هو۔۔ اور ہر قطرے میں الگ عطر کی خوشبو گر رہی هو۔۔ اس خوشبو سے میرا لباس بھیگ سا گیا مگر گیلا نہیں ہوا۔
یہاں بھی بہت لوگ موجود تھے بے شمار۔۔ لوگ۔
ہر کوئی ایک خوبصورت تخت پر بیٹھا کچھ کھانے اور کچھ پینے میں مصروف تھے تو کوئی تکیہ لگائے لیٹا ہوا تھا۔
جب میں محبت اور خوش دلی کے ساتھ سامنے کا منظر دیکھ رہا تھا
میرے پاس سے صالح غائب ہو گیا تھا۔۔ تھوڑی دیر بعد پھر آ گیا تو اس کے ساتھ ایک نہایت ہی عمدہ اور خوبصورت تخت موجود تھا جس کے تاج پر میرا نام چمک رہا تھا۔۔
بیٹھو قاسم علی۔ تمہارا ہی ہے۔ صالح نے کہا۔
میں خاموشی سے اس کے پاس گیا حسرت اور محبت سے اس پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔
وہ جو مجھے سونے چاندی کا سخت ترین تخت لگ رہا تھا میرے ہاتھ لگانے سے ریشم ویلوٹ کی طرح نرم نازک لگنے لگا۔
میں جیسے ہاتھ پھیرتا جا رہا تھا میرے اندر سکون اترتا جا رہا تھا۔
میں نے ایک نظر دونوں کو دیکھا جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے تخت پر بیٹھ گیا۔
میرے بیٹھتے ہی میرے سامنے ایک دروازہ کھلنے لگا۔۔ ساتھ ہی صالح کہنے لگا۔۔ یہ وہ جنت ہے قاسم علی جس کا وعدہ تیرے رب نے کیا تھا۔۔ یاد رکھ یہ صرف ایک جھلک جتنی جگہ ہے۔ اس کی نعمتیں اور برکتیں بے شمار اور لامحدود ہیں۔
جیسے جیسے دروازہ کھل رہا تھا اندر سے تازگی خوشبو اور ٹھنڈک آتی جا رہی تھی۔۔
دروازہ کھل گیا میرے سامنے دور تک دودھیا روشنی چمک رہی تھی۔۔
دروازے کے پار ایسا لگ رہا تھا دنیا ہی الگ ہے۔۔ وہاں زمین سونے کی گاس چاندی کی اور پہاڑ دودھ اور شہد کے نظر آ رہے تھے میں اٹھ کر دروازے کی طرف گیا۔۔ مگر دروازے کے نگہبان فرشتوں نے مجھے اندر نہیں جانے دیا۔۔
بولے ابھی اندر جانے کا حکم نہیں۔۔
میں مایوس ہو کر پلٹ آیا۔۔
مایوس نہ ہو قاسم علی یہ تیری جنت کا ادنا سا حصہ ہے اسے تجھ سے کوئی چھین سکتا۔۔۔
بس قیامت کے دن تک انتظار کرو۔۔ پھر جہاں مرضی جانا۔
میں خاموش رہا
پھر تخت پر بیٹھ کر اندر جھانکنے لگا۔۔ کیونکہ اندر کا منظر مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا دل کہہ رہا تھا کاش یہ سارے نگہبان اندھے ہو جائیں اور میں بھاگ کر اندر چلا جاؤں۔۔ پھر تو جو ایک بار جنت میں چلا جائے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔مگر میری سوچ تو محدود تھی مگر میرے رب کی شان لامحدود۔۔ ھونا وہی تھا جو مقرر تھا۔
ابھی تک میری نظر کے سامنے صرف خوبصورت زمین رنگ برنگی گاس اور پہاڑ تھے۔
میں نے سوچا کہ میں نے سنا تھا وہاں بہت بڑے بڑے درخت ہیں جن میں سے ہر درخت پر ہر قسم کا پھل لگتا ہے۔ ابھی میرا یہ سوچنا ہی تھا کہ میرے سامنے منظر بدل دیا گیا سامنے درختوں کے باغات موجود تھے اور ہر درخت پر ہر قسم کا پھل لٹک رہا تھا۔
اور درخت پھل سے ایسے لدھے ہوئے تھے کہ درختوں کی شاخیں زمین سے لگ رہی تھی۔ درختوں کی شاخیں سونے چاندی کی تھی ہر ٹہنی ایسے چمک رہی تھی مانو وہی سورج هو۔۔۔ سیب دور سے اتنے بڑے بڑے لگ رہے تھے جیسے تربوز ہوں۔
اور انگوروں کا گوشہ جیسے سیبوں کا گوشہ هو۔۔
دور سے اتنے پیارے چمکتے ہوئے پھل دیکھ کر مجھے بھوک کا احساس ہوا۔ میں نے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔
کیا ہوا قاسم علی۔ صالح نے پوچھا۔
مجھے بھوک لگی ہے۔۔ میں پھل کھاؤں گا۔۔ میرا یہ کہنا تھا کہ میرے سامنے پھلوں کا ڈھیر لگ گیا۔ ڈھیر بھی اتنی۔ نفاست سے کے ہر پھل الگ الگ سونے چاندی کے تھالوں میں موجود تھا۔
کھاؤ قاسم علی۔ یہ سب تمہارا ہی تو ہے۔ صالح نے کہا۔
آپ دونوں بھی آئیں میں اکیلا اتنا سب تھوڑی کھا سکتا ہوں۔۔
میں فرشتہ ہوں قاسم علی جنت میں رہتا ہوں یہ سب میرے سامنے ہوتا ہے مگر میری خوراک یہ نہیں بلکہ کسی بھی فرشتے کی خوراک یہ نہیں ہے۔ یہ سب تم جن و انس کے لیے ہیں۔
ہماری خوراک تو اللّٰهُ رب العزت کی حمد و ثناء ہے ذکر و اذکار ہیں ہماری بھوک پیاس اسی سے بھجتی هے۔۔ صالح نے کہا۔
میں خاموش رہ گیا۔۔
سوچنے لگا کہ اللّٰهُ تبارک تعالیٰ کو ہم انسانوں سے کیا چاہے۔۔ اگر عبادت چاہیے ہوتی تو اس کے لیے یہ فرشتے ہی کافی ہیں جن کی تعداد اتنی هے کہ جو فرشتہ ایک بار عصر کے وقت آدمی کے پاس آتا ہے اس کی دوبارہ ڈیوٹی کی باری 70 ہزار سال بعد آتی ہے جب تک آدمی کی کئی نسلیں تباہ ہو چکی ہوتی ہے۔۔
اور اگر ذکر و اذکار چاہیے ھوتا تو بھی یہ فرشتے کافی ہیں جن کی بھوک پیاس ہی اللّٰهُ تبارک تعالیٰ کا ذکر اذکار ہے۔
اللّٰهُ تبارک تعالیٰ کو انسان سے کچھ نہیں چاہیے بلکہ سب کچھ انسان اپنے لیے کرتا ہے پھر بھی نخرے کرتا ہے۔۔
عبادت کرے گا تو اللّٰهُ تبارک تعالیٰ خوش هو کر اسی کی بے شمار خواہشات پوری کرے گا۔
نیک اعمال کرے گا تو دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو جائے گا اور جہنم سے محفوظ رہے گا جنت ملے گی۔
یہ جنت بنائی ہی انسان کے لیے ہے تاکہ اس کی بے شمار نعمتوں سے انسان لطف اندوز ہو سکے۔۔ اس میں انسانی خواہشات کا ہر سامان موجود ہے۔۔ جن چیزوں کو دنیا میں حرام قرار دیا۔۔ وہ بھی یہاں رکھ دی تاکہ انسان دنیا میں اس کے لیے ترسا ہے اور اپنے رب کی رضا کے لیے رکا رہا ہے اب چکھ لے کے اس کا ذائقہ کیسا تھا بلکہ جنت میں ذائقہ بھی ہر ذائقے سے لاکھ گنا زیادہ تر کر دیا۔۔ تاکہ میرا بندہ کسی قسم کی شکایت نہ کر سکے۔۔
اللّٰهُ تبارک تعالیٰ نے دنیاوی زندگی جو 4 دن کی هے اس میں حرام کی گئی چیز۔۔ جنت کی زندگی جو نہ ختم ہونے والی ہے میں رکھ چھوڑی۔۔
مگر انسان پھر بھی اسی طرف جاتا ہے جس طرف سے اللّٰهُ نے منع فرمایا۔۔
زنا سے منع فرمایا کہ زنا نہ کرنا۔۔ اس کے لیے جنت میں بےشمار حوریں موجود ہیں جو اتنی خوبصورت ہیں کہ تمہارا تصور بھی نہیں جن کو نہ تیرے سے پہلے کسی مرد نے چھوا ہے نہ جن نے وہ کنواری ہیں۔۔
مگر انسان باز نہیں آتا۔۔ آج کل تو چھوٹی چھوٹی بچیاں اور بچے محفوظ نہیں۔۔ موبائل فون میں گندی ویڈیو دیکھتے ہیں
ایک دوسرے سے گندے میسج اور باتیں کرتے ہیں۔۔
یعنی ہر طرح کا زنا هو رہا ہے۔
جسمانی زنا۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کا زنا۔۔۔۔۔۔۔ باتوں کا زنا۔۔۔۔
ہاتھوں کا زنا۔۔۔
مرد مرد سے زنا۔۔
عورت۔ عورت سے زنا۔
شراب سے منع فرمایا۔ نشے سے منع فرمایا۔
آج کل تو رواج بن گیا ہے اپرکلاس سوسائٹی میں شراب نوشی نہ ہو تو ان کی محفل محفل نہیں ہوتی اور غریب روڈوں پلوں کے نیچے شراب اور نشے سے مدہوش ملتے ہیں۔
استغفراللہ۔