مطلب آپ تھوڑی جلدی نہیں آ سکتے تھے میں کب سے تیار بیٹھی تھی انتظار میں لیکن نہیں تمہیں کہاں کسی کا احساس ہے بس جب بھی ڈیوٹی پر ہوتے ہو کون میں کون تم۔۔۔
شانزے رمشا کی بھی اچھی دوستی تھی اور اب اپنی دوست کے نکاح پر لیٹ نہیں ہونا چاہتی تھی لیکن انسپیکٹر فارس نے آج بھی اسے لیٹ کرانے میں کوئی خاص کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔
آپا میں کام کر رہا تھا یا کوئی کرکٹ کھیلنے لگ گیا تھا اگر تمہیں اتنی جلدی تھی تو خود چلی جاتی کون سا حیدرآباد جانا تھا نہیں آپ کیوں اکیلے جاتی ایک نوکر جو پھنسا لیا ہے۔۔۔
روکو ابھی !! میں خود چلی جاتی ہو
شانزے بھی جیسے بپھر گئی تھی
ہاں تاکہ میری اماں کو شکایت لگانے کے لیے تمہارے ہاتھ ایک بات لگ جائے نہ۔۔۔ فارس تحمل سے گاڑی چلاتا رہا۔۔۔۔
میں تو سوچ رہی ہوں ابھی ہی بھاگ لوں ورنہ تین بول میں پھنس گئی تو نکل نہیں پاؤگی ۔۔
شانزے فارس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ گئی تھی ۔۔
ادھر دیکھو لڑکی کسی کے بارے میں بھی سوچا نہ تو یہ فارس اسے تو جان سے مارے گا ہی ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی۔۔۔۔
فارس ہنسی مذاق کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا اور ذمہ دار منگیتر بھی تھا۔۔وہ شانزے کے بغیر زندگی کو بیکار سمجھتا تھا اس کے لیے شاید وہی تھی جو معنی رکھتی تھی فارس نے اپنی محبت کو فوراً نکاح میں بدلنے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔ دونوں کے گھر میں بھی بات چل چکی تھی اور دونوں کے گھر والے ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب تھے۔۔۔
اچھا بابا مذاق کر رہی تھی آئندہ نہیں کروں گی اور میرا فارس مذاق کرتے ہوئے ہی اچھا لگتا ہے جہاں سیریس ہوتے ہو مجھے پولیس والے لگنے لگتے ہو۔۔
شانزے فارس کے بال بگاڑ گئی تھی ۔۔۔۔
بالوں کا مذاق نہ کیا کرو۔۔ آدھا گھنٹہ لگا کر جیل سے بال سیٹ کیے تھے میں نے۔۔۔۔
فارس نے چڑھتے ہوئے بال کو دوبارہ سیٹ کرنا شروع کیا۔۔۔
تم دو گھنٹے لگا لیتے لگنا تم نے پھر بھی کوجا ہی تھا۔
ایسے ہی ہنسی مذاق کرتے ہوئے وہ لوگ ھاشم ہاوس کے سامنے پہنچ چکے تھے.
* * *
عارفین گھر آگیا تھا ۔۔۔۔ نکاح میں سے صرف آدھا گھنٹہ تھا اور وہ نہا دھو کر اب چپ کر کے سب کے ساتھ بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔
رمشا اور عارفین کو آمنے سامنے بٹھا کر قاضی نے نکاح شروع کیا۔۔۔ بیچ میں ایک نہایت خوبصورت جالی کا پردہ لگایا گیا تھا۔۔۔ پہلے رمشا سے نکاح شروع کیا گیا وہ اس ٹائم کافی ڈری ہوئی تھی لیکن اپنے ڈر کو پس پردہ ڈال کر قبول ہے بول دیا۔۔۔ عارفین ابھی بھی اس آس میں تھا کہ شاید رمشا اس پر ترس کھا لے گی لیکن تیسری بار بھی جب رمشا نے قبول ہے بول دیا ۔۔۔۔ وہ سب کچھ ہار گیا۔۔۔ عارفین کی باری پر اس کے پاس کچھ نہیں بچا تھا۔۔ عارفین کے ہاں کے بعد باقاعدہ وہ دونوں نکاح کے پاک بندھن میں بندھ چکے تھے۔۔۔
وہ باریک جالی کا پردہ ہٹا دیا گیا تھا رمشا کی ہمت نہ تھی کہ وہ عارفین کو دیکھ سکے لیکن عارفین بغور اس کی خوشیوں کی قاتلا کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
دونوں کو ساتھ بٹھا دیا گیا ایک ایک کر کے سب اپنے لائے ہوئے گفٹس دونوں کو دے رہے تھے سمیر کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں یہ اس کی اکلوتی اور سب سے پیاری بہن تھی جو اب پرائ ہوگئی تھی ۔۔۔ رمشا بھی بھائی سے گلے لگ کر کافی دیر روتی رہی تھی۔۔۔۔ ثمرین اور خالد بہت خوش تھے عارفین ہر طرح سے ایک ذمہ دار داماد تھا ۔۔۔۔۔ شانزے بھی رمشا سے بہت پیار و محبت سے ملی... اسی دوران کھانے کا دور شروع ہوگیا سب مہمان کھانا کھانے لگے... دادا کیلئے یہ ایک نہایت ہی حسین لمحہ تھا جان سے عزیز پوتا اور پوتی کو انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک ایک نوالہ کھلایا۔ ۔۔۔
دادا جان آپ سے ایک بات کرنی ہے۔۔
عارفین اور باقی گھر والے الگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں مصروف تھے جب عارفین نے دادا کو مخاطب کرکے ان سے بات شروع کری۔۔
ہاں بیٹا بولو جو بولنا ہے۔۔۔
دادا آج ہر بات ماننے کے موڈ میں تھے
دادا میں آج ہی رخصتی کرانا چاہتا ہوں۔۔۔۔
عارفین کی بات پر رمشا کا تو جیسے خون ہی خشک ہو چکا تھا اور فراز' سیما کا بھی کچھ ایسا ہی ری ایکشن تھا رخصتی اور ولیمہ کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا ابھی تک تیاریاں باقی تھی اس لیے دو مہینے بعد رخصتی دینے کی بات ہوئی تھی لیکن عارفین آج ہی رخصتی چاہتا تھا
بیٹا ابھی تو کوئی انتظامات بھی نہیں ہوئے ہیں آج کیسے؟؟؟
دادا انتظامات کی کیا ضرورت ہے کون سا مجھے جہیز چاہیے بس ابھی ہی چاچو چچی کی خوشی سے رمشا کی رخصتی لینا چاہتا ہوں۔۔
دادا نے ثمرین خالد سے مشورہ لے کر عارفین کو اجازت دے دی۔۔
ہر کزن عارفین کو چھیڑ رہا تھا لیکن اس کے دماغ میں کیا تھا ابھی کسی کو خبر تک نہ تھی۔۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد سب مہمانوں کے سامنے رمشا کو رخصت کیا گیا وہ بہت رو رہی تھی وہ جانتی تھی یہ آنسوں اب اس کی زندگی کا حصہ بننے والے ہیں اس نے خود ان کو اپنی زندگی کے لیے منتخب کیا تھا ۔۔۔ سب بڑوں نے دونوں میاں بیوی کو خوب تحفے تحائف سے نوازا اور آگے کی خوشگوار زندگی کیلئے رمشا اور عارفین کو لاتعداد دعائیں دیں۔۔
* * *
رمشا کو عارفین کے کمرے میں بٹھا دیا گیا تھا وہ روم کو بڑی غور سے دیکھ رہی تھی وہ ہزار بار اس روم میں آ چکی تھی لیکن آج اسے اس روم سے وحشت محسوس ہو رہی تھی دلہن کا کمرہ جیسے سجا ہوا ہوتا ہے یہ ایسا بالکل نہیں تھا۔۔۔ یہ عارفین کی ضد کا نتیجہ تھا کہ جلد بازی میں کچھ بھی نہ ہو سکا تھا ۔۔۔ رمشا گھونگھٹ میں بیٹھی عجیب سی الجھنوں میں گری ہوئی تھی کہ ایسی بھی کیا قیامت آرہی تھی کہ کے عارفین آج رخصتی کے لیے بضد تھا۔۔۔۔
رمشا ان ہی سوچوں میں ہی تھی جب ہلکے سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور وہ اپنے آپ میں تھوڑا اور سمٹ گئی۔۔۔
* * *
ویسے یار عشا، رمشاہ ہماری بھابھی بن گئی اور کتنی پیاری لگ رہی تھی نہ وہ تو ہم اب رمشا کو بھابھی بولیں گے اوکے۔۔۔۔
دعا اپنی جیولری اتارتے ہوئے عشاء سے محو گفتگو تھی ۔۔۔
ہیں کیا کہا میرے تو منہ پر ہی نہیں چڑھے گا لیکن خیر میں ضرور کوشش کروں گی۔۔۔۔ عشاء موبائل یوز کرنے میں مگن تھی وہ اچھی اچھی پکس کو الگ فولڈر میں ٹرانسفر کر رہی تھی۔۔۔
ویسے دعا سوچو تمہارے لیے بھی دادا جان نے کوئی ایسا ہی دولہا ڈھونڈ کر رکھا ہوا ہو تو ۔۔۔
عشاء کی بات پر جیسے دعا کے طوطے ہی اڑھ گئے تھے۔۔۔
تم پر ہی کسی نے کہا ہے منہ اچھا نہ ہو تو بات اچھی کر لینی چاہیے بندے کو اور ویسے بھی میرے ساتھ کا کوئی بھی نہیں اس خاندان میں تو مجھے کیا ڈر۔۔
دعا اب قدرے پرسکون ہو کر بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھ رہی تھی۔۔
کیا ہوگیا بیٹا ایک تو اس گھر میں ہی رہتے ہیں اور دوسرا بھی آئے دن یہیں پڑا رہتا ہے۔۔ عشاء کا اشارہ سمیر اور وجدان کی طرف تھا۔۔
جی جی ضرور سمیر بھائی مجھ سے کافی بڑے ہیں اور وجدان اس کی تو انشاءاللہ تم سے کرائیں گے۔۔
دعا نے بیڈ پر لیٹے ہوئے عشاء کی سٹی گم کر دی تھی۔۔
آئے ہائے تمہارے منہ میں خاک میں مر کر بھی کبھی اس کاکروچ سے شادی نہ کرو۔۔ نہ شکل نہ صورت۔۔ اوپر سے ایک نمبر کا نکما۔۔
عشاء کا انداز مذاق اڑانے والا تھا۔۔۔
عشاء اتنا بھی غرور نہیں کرتے اپنی خوبصورتی پر ورنہ پان والے شکور سے شادی ہو جائے گی بچو۔۔۔
دعا جانتی تھی عشاء ابھی تک بچپنے میں ہی تھی اس کو بس غصہ کرنا اور رونا ہی آتا تھا اس کے دماغ میں شادی جیسے کوئی بات بھی نہیں تھی۔۔۔
ارے غرور کہاں کر رہی ہو میں تو بس بتا رہی ہوں چلو سو جاؤ صبح کالج بھی ہے۔۔
عشاء کو جیسے ایک دم یاد آگیا تھا۔۔
ارے ہاں یار ہفتے کو بھی تو جانا ہوتا ہے وہ تو جیسے کالج بھول ہی گئی تھی کیا ابھی ہم فیصل آباد میں موج کر رہے ہوتے ایک ہفتے کی چھٹیاں مارتے۔۔۔ دعا تو جیسے وہاں پہنچ گئی تھی ۔۔
میڈم لے لیے چٹخارے تو سو جاو ویسے بھی تمہارے تو بی ایس سی کے پیپر ہونے والے ہیں تیاریاں شروع کرو بس ۔۔
عشاء اس ٹائم دعا کی اماں لگ رہی تھی۔۔۔
ایکسکیوزمی آپ کے لئے عرض ہے کہ اپنے کام سے کام رکھیں ورنہ میٹرک کی طرح انٹر میں بھی سپلی آئے گی۔۔
دعا نے جیسے یاد دلانا چاہا کہ تم جیسی نالائق کو اس سے زیادہ پرھائی کی پروہ کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔
ہاں کہ تو تم بھی درست رہی ہو ۔۔ویسے بھی میں نے رٹّے ہی مارنے ہیں۔ ۔ میں نے آرٹس رٹّے مارنے کے لئے ہی لی ہے ۔۔۔ وہ اب میں آخری دنوں میں لگاؤں گی۔۔
تو پھر تمہیں کالج جانے کی جلدی کیوں ہے؟؟؟
وہ تو پکس دکھاؤں گی نہ دوستوں کو۔۔ کہ میں کتنی حسین لگ رہی تھی اپنے بھائی کے نکاح پر۔۔ آئے ہائے جل کر بھن جائیں گی۔۔
ویسے عشاء نکل آو ان سب سے تم۔۔۔
دعا یہ کہتے ہی چادر منہ پر لے کر سو چکی تھی۔۔۔
* * *
تمہیں کیا لگتا ہے عارفین نے یہ قدم کیوں اٹھایا ہے ؟؟؟
فراز نکاح اور رخصتی کے بعد سے تھوڑے پریشان تھے انہوں نے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں غصہ کی تپش نمایاں دیکھی تھی۔۔
یہ بات تو مجھے خود سمجھ نہیں آرہی آخر ایسا بھی کیا تھا جو اس نے ہم سے بھی رائے لینا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔ اللہ رحم کرے فراز صاحب ہم نے زبردستی کر کے کچھ غلط تو نہیں کیا نا؟؟؟؟
سیما رمشا کے لئے پریشان ہو رہی تھیں کہ رمشا عارفین کے غصے کی نظر نہ ہو ۔۔۔
نہیں سیما شاید ہم ایسے ہی گھبرا رہے ہیں ابّا بہت دور اندیش ہیں۔۔ وہ ایسے ہی کوئی فیصلہ نہیں کرتے اس رشتے میں ہم دونوں فیملیز کے لئے کوئی نہ کوئی بہتری ضرور چھپی ہوگی۔۔۔
انشاء اللہ اللہ کرے ایسا ہی ہو!!!
دونوں نے فی الحال اپنے اپنے دل کو سمجھا دیا تھا اور صبح کا سورج دیکھنے کی امید پر سو گئے تھے
* * *
کیسی ہو دلہن؟؟؟
عارفین نے کمرے میں داخل ہوتے ہی طنز کا پہلا تیر برسایا تھا۔۔
رمشا کوئی جواب نہ دے سکی اور تھوڑا سے کسک کر بیڈ سے جا لگی۔۔
رمشا تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔۔۔ کیا تھا اگر تم اپنی جگہ میرے حق میں فیصلہ سنا دیتی تو۔۔
عارفین ۔ رمشا کے روبرو بیٹھ کر بات کر رہا تھا۔۔
عارفین آپ سمجھ نہیں رہے میں ایسا نہیں کر سکتی تھی میں بھی مجبور تھی۔۔
رمشا دھیمے لہجے میں بولی آنسوؤں کا گولا سا تھا جو کہیں گلے میں اٹک کر رہا تھا۔۔۔
بولو زور سے کیا نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے میں اپنی محبت کو دور جاتا دیکھ رہا ہوں۔۔۔
صرف تمہاری وجہ سے رمشا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔ کبھی بھی نہیں۔
رمشا جانتی تھی کہ کسی لڑکی کی وجہ سے ہی عارفین شادی سے منع کر رہا تھا لیکن اس کے منہ سے اعتراف سن کر اس کے اندر زور سے کچھ ٹوٹا تھا اب اس کے آنسوؤں کا ریلا باہر آ گیا تھا اب دل رونے کو کر رہا تھا۔۔۔
رمشا تم نے صرف عارفین فراز کی محبت دیکھی ہے جو سب سے کرتا ہے لیکن تم اب عارفین فراز کی نفرت جھیلو گی۔۔ میں ایک ایک دن تمہارے لئے عذاب بنا دوں گا کہ تمہیں خود سے نفرت محسوس ہوگی اپنے فیصلے سے نفرت محسوس ہو گی۔۔ تم جینا نہیں چاہو گی ۔۔۔
عارفین زہر اگل رہا تھا یہ سوچے بنا جو لڑکی اس وقت دلہن کے روپ میں اس کے سامنے تھی وہ اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی وہ محبت جس میں پانے کی چاہ نہیں ہوتی جس میں صرف دے دیتے ہیں لینے کی امید نہیں رکھتے۔۔۔ کیا تھا اگر وہ بتا دیتی کہ جتنا پیار اس سے کرتی تھی اس سے کہیں زیادہ وہ دادا جان سے کرتی تھی۔۔ عارفین غصے کی آگ میں دادا جان کی خوشی تک نہ دیکھ پایا تھا کتنے خوش تھے وہ کہ ان کے پوتے اور پوتی نے ان کے فیصلے کی لاج رکھی تھی وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کوئی خوشی دیکھنے کے خواہشمند تھے اور وہ خوشی بھی عارفین چھیننا چاہتا تھا۔۔۔ دادا ابو جی اٹھے تھے ان کے لیے زندگی نئی جیسی ہو گئی تھی۔۔۔ لیکن اگر رمشا نکاح کے لیے منع کر دیتی تع وہ آج ہی مر جاتے اور اس کی پوری ذمہ دار رمشا ہوتی۔ ۔
عارفین رمشا کو خود غرض کہ رہا تھا لیکن کہیں نہ کہیں وہ خود بھی خود غرض تھا کیونکہ وہ رمشا کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتا تھا تاکہ اس پر کوئی نافرمان کا لیبل نہ لگائے ۔۔
یہ رات رمشا کی زندگی کی بد ترین رات تھی عارفین نے نہ صرف اس کو لفظوں سے زخم دیئے بلکہ اس کی روح کو بھی شدید تھیس پہنچائی۔۔
آج وہ اپنی مردانگی اسے دکھا رہا تھا کہ وہ کیسے عورت کو توڑ سکتا ہے اس کی زندگی کو اذیت ناک بنا سکتا ہے رمشا چیختی رہی چلاتی رہی لیکن عارفین نے اس کی ایک نہ سنی ہے وہ اپنے اندر کی آگ سے اس کے جسم پر نشان چھوڑ رہا تھا۔۔
رمشا مر گئی۔۔ ہاں آج رمشا خالد مر گئی تھی۔۔ اس کی ہی محبت کے ہاتھوں۔۔۔ عارفین فراز نے اس کی روح کو بہت بے دردی سے مار دیا تھا ۔۔۔