ہاں بھائی پتا چل گیا مجھے سب کہ تم آخر کار گفٹ دینے میں کامیاب رہے ہو۔۔۔
سمیر، فارس اور شانزے ایک ریسٹورینٹ پر ملنے گئے تھے اور اب شانزے، سمیر کا خوب مذاق اڑا رہی تھی۔۔۔
ہاں جب بھی تم دونوں مل جاتے ہو میری ٹانگ کھینچتے ہو۔۔
سمیر بار بار ایک ہی بات پر مذاق سے چڑھ گیا تھا۔۔
اہم اہم ویسے تو یہ میسنا دل ہی دل میں کنزہ کے بارے میں بات کرنے سے خوش ہوتا ہے لیکن ہمارے سامنے ایسا بنتا ہے جیسا کہ کنزہ کے بارے میں بات کرنا اس کو کوئی خاص پسند نہیں ۔۔۔۔
فارس بھی کہاں کسی کو سانس لینے دیتا تھا جب کوئی بات اس کے ہتھے لگ جائے اس کو لے کر ہی بیٹھ جایا کرتا تھا۔۔۔۔
تم دونوں کا اگر ہو گیا ہو تو میری شوپنگ میں ہیلپ کرا دو۔۔۔ جمعہ کو رمشا کا نکاح ہے اور میرے پاس پہننے کو کوئی نیا سوٹ نہیں ہے۔۔۔
سمیر اب اپنے رونے رو رہا تھا جسے فارس اور شانزے چپس کھاتے ہوئے ہوا میں اڑا رہے تھے۔۔۔
ارے بھائی چل دیں گے ابھی کچھ کھانے تو دے مجھے۔۔۔ فارس اب برگر سے انصاف کرنے میں مگن تھا اور شانزے تھی کے کھانے کے سامنے کوئی بات بھی سننے سے انکاری تھی۔
مجھے لگ رہا ہے میں اپنے آپ سے ہی بات کر رہا ہوں تم دونوں کو تو ٹھوسنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔۔۔
سمیر چڑھ کر بولا تھا۔۔۔
بھائی میں ہسپتال سے کام کر کے آئی ہوں اور خیر سے میرا یہ کوجہ بھی ڈیوٹی دے کر آیا ہے ہم تمہاری طرح گھر بیٹھ کر فری لانسنگ نہیں کرتے۔
شانزے پیشے سے ڈاکٹر تھی اور اس وقت تھک ہار کر گھر جانا چاہتی تھی لیکن سمیر اور فارس نے اسے ہسپتال سے پک کر لیا تھا۔۔
ہاں ہاں دے لو طعنے مجھے تم لوگ ایک تو دونوں اللہ ملائی جوڑی ہو اللہ جانے شادی کے بعد ایک ساتھ کیسے رہو گے۔۔۔۔
سمیر اب ان کا مذاق اڑا رہا تھا ۔۔شانزے اور فارس ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھنے والے تھے۔۔
میں تو خود سوچ رہا تھا کہ ایک دو بار پھر سوچ لو اس بندری سے شادی کرنے سے پہلے۔۔
فارس ہمیشہ کی طرح شانزے کو تپا گیا تھا۔۔۔
بیٹا آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک سے ایک حسین ڈاکٹر مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن میں تم پر ترس کھا کر تم سے شادی کر رہی ہو کہ تمہیں اس شکل میں کوئی نہیں ملنے والی۔۔۔
شانزے نے بھی خوب اچھا بدلہ لیا تھا ۔فارس تھا کہ اس کا منہ ہی اتر گیا تھا۔۔۔
میں تنگ آگیا ہوں تم دونوں کے چوبیس گھنٹے کے لڑنے سے ۔۔جب ملنے کے لئے آؤ تم دونوں اپنا پھڈا شروع کر دیتے ہو اور میری بات بیچ میں ادھوری رہ جاتی ہے۔۔۔
سمیرا مسکین سی شکل بنائے ان دونوں کے جھگڑے ختم ہونے کا ویٹ کر رہا تھا۔۔
ہاں ہاں ہو گیا ہمارا ویسے بھی ہم کونسا باز آنے والے ہیں تم یہ بتاؤ کہ کس طرح کام کُرتا لوگے ۔۔ ابھی جا کر لے لیتے ہیں۔۔ میں آج ہی فری ہوں اور پھر یہ بھوتنی بھی ساتھ ہے اچھا مشورہ دے دیگی ۔۔
اوئے تم زیادہ بول رہے ہو میں آنٹی کو بتاؤں گی کہ اس کو لگام لگائیں۔۔ پولیس والے کیا بن گئے سب ان کو اپنی طرح ہی لگتے ہیں۔۔
شانزے کھانا کھا چکی تھی اور ساتھ چلنے کے لئے تیار تھی۔۔۔
ہاں بول دینا ایک تو وہ اپنا چاند سا ہونہار بیٹا تمہیں دے رہی ہیں تمہارے تو نخرے ہی نہیں مکتے۔
فارس برا سا منہ بنا کر اپنا آخری بائیٹ لے رہا تھا ۔۔۔
ایسے ہی لڑائی جھگڑا کرتے ہوئے وہ مال پہنچے اور سمیر کو اچھا سا کُرتا اور واسکوٹ دلوادی ۔۔۔سمیر نے رمشا کے لیے بھی دو چار سوٹ لیے اور ایک اچھا سا نیکلس لیا جو وہ اسے نکاح پر گفٹ کر سکے۔۔۔۔
* * *
گھر میں کام زور و شور سے چل رہے تھے ہر کوئی اپنی اپنی آسانی کے حساب سے کام میں مگن تھا ۔۔۔
ثمرین اور سیما نے ہر قریبی جاننے والے کو مدحو کر لیا تھا ۔۔۔سمیر اور فیضان باہر کے لان کی صفائی کروا رہے تھے۔۔۔ لڑکیاں اپنے کپڑے اور مہندیاں لگوانے میں لگی ہوئی تھیں ۔۔۔
فراز صاحب؟؟؟؟؟
سیما کچن سے جیسے ہی فارغ ہو کر کمرے میں گئیں فراز کو زمین پر گرا پا کر گھبرا گئیں۔۔۔
جلدی جلدی سمیر اور فیضان ان کو ہسپتال لے گئے تھے۔۔عارفین کو مسلسل کالز کرنے کے بعد بھی اس کا نمبر بند آ رہا تھا ۔۔
سیما تھیں کہ ان کا رو رو کر برا حال تھا۔۔۔۔ فراز کو دل کا دورہ پڑا تھا جس سے ان کے دل پر بہت برا اثر ہوا تھا ۔۔۔ڈاکٹرز نے ان کو under observation رکھا ہوا تھا.. عشاء اور دعا بھی اپنے پاپا کو اس حالت میں نہیں دیکھ پا رہی تھیں ۔۔۔ رمشا ان کو سنبھال کر اب خود بھی نڈھال ہو چکی تھی۔۔۔ دادا جان بھی گھر پر نماز پڑھ کر دعا میں جٹے ہوئے تھے۔۔ آخر کار چار گھنٹے کے بعد فراز کو ہوش آ گیا تھا ۔۔۔۔ عارفین بھی آ چکا تھا مسلسل کالز کے بعد اس نے کال پک کی تھی اور فراز کا سنتے ہی بھاگا آیا تھا ۔۔۔ فراز کی طبیعت کچھ بہتر معلوم ہو رہی تھی سب ایک ایک کرکے فراز سے ملنے آئی سی یو میں جانے لگے تھے ۔۔
السلام علیکم پاپا!!!!
عارفین بہت ڈرتا ڈرتا اندر گیا تھا وہ جانتا تھا ان کی طبیعت کا ذمہ دار وہ اکیلا ہے اس کی ہی بد تمیزی کی وجہ سے وہ اس حالت میں تھے ۔۔۔
فراز بغیر جواب دیے دوسری طرف دیکھنے لگے۔
پاپا میں آپ کے سب باتیں ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن آپ ایسے طبیعت نہ خراب کریں آپ جانتے ہیں ہم سب آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔۔
عارفین کا بس یہ کہنا تھا اور فراز اب خود کو ہر درجہ بہتر محسوس کر رہے تھے وہ بوجھ جو دل پر تھا اب وہ ہلکا ہو گیا تھا اب وہ مطمئن تھے کہ ان کو باپ کے آگے پشیمان نہیں ہونا پڑے گا اور وہ بھی اپنے وعدے پر کھڑے اتریں گے ..
* * *
سمیر کے کہنے پر عارفین نے بھی نیا سوٹ خرید لیا تھا.. فراز صاحب بھی اب خیر خیریت سے گھر آگئے تھے۔۔۔ سب کزنز نے گھر میں ڈیرہ ڈال لیا تھا ۔۔۔گھر میں ایک شور شرابا مچا ہوا تھا ۔۔۔ دادا کے کہنے پر پھپھوئیں بھی آ گئی تھی۔۔۔رمشا کو سب نے ابٹن لگایا تھا۔۔ دعا اور عشاء عارفین کو بھی پکڑ لائیں تھیں ۔۔ سب نے مل کر خوب ڈانس کیا بڑوں نے بھی گانے گائے ۔۔۔سب اس فیصلے سے بہت خوش تھے دونوں بھائیوں کا رشتہ اور مضبوط ہونے والا تھا۔۔۔ ویسے لوگ بھی کتنے انجان ہوتے ہیں نا وہ دو دلوں کے بغیر جانے اور ان کو بغیر سننے ان کی زندگی کے فیصلے کر دیتے ہیں۔۔۔ رمشاء کو اب یہ خوشیاں برقرار رکھنی تھیں ۔۔سمجھوتہ کرنا تھا ۔۔ بہت کچھ جھیلنا تھا ۔۔ وہ خود کو ان سب چیزوں کے لیے تیار کر رہی تھی ۔۔عارفین بظاہر تو نارمل تھا لیکن اس کے اندر کی آگ رمشا کی ہر مسکراہٹ کے ساتھ بھڑک رہی تھی۔۔۔۔
* * *
میں رمشاہ سے شادی کر رہا ہوں۔۔
عارفین کال پر عنیزہ سے بات کر رہا تھا
مطلب؟؟؟ اب کیا ہوگا؟؟؟
عنیزہ یہ سب سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔۔۔
میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا عنیزہ پاپا میرے سامنے آئی سی یو میں بہت بری حالت میں لیٹے تھے مجھے ان کی بات آخر ماننی ہی پڑی ۔۔۔
تم نے کہا تھا تم میرا انتظار کرو گی تو اب بس میرا انتظار کرنا میں رمشا کو چھوڑ دوں گا ۔۔
عارفین بڑے آرام سے یہ سب باتیں بول رہا تھا مگر کچھ سوچے سمجھے۔۔
عارفین جن کے ڈر سے نکاح کر رہے ہو وہ تمہارے رمشا کو چھوڑنے پر کوئی ردعمل نہیں دیں گے کیا۔۔۔۔
عنیزہ نے سچی اور کھڑی بات کی تھی عارفین کو بھی آپ کوئی جواب نہیں سوجھا تھا ۔۔۔
تھوڑی دیر دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی اس خاموشی میں عنیزہ نے بڑا فیصلہ لے لیا تھا وہ سمجھ چکی تھی کہ اب انتظار میں کچھ نہیں رکھا اس کو کوئی قدم اٹھانا ہی ہوگا۔۔۔ عارفین بہت دیر تک عنیزہ کو اپنی محبت کی سچائی بتاتا رہا لیکن عنیزہ کی خاموشی ہنوز برقرار رہی۔۔۔جیسے اب اسکے کچھ بولنے سے اس کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا وہ آگے کا لائحہ عمل تیار کر رہی تھی۔۔
* * *
ہاں جی میڈم کیسی ہو تم نے تو کوئی میسج ہی نہیں کیا میرے جانے کے بعد۔۔۔
سمیر گھر کے کاموں سے فری ہو کر کنزہ کی خیر خیریت لیتا ہے۔۔
جی وہ ولیمہ کے بعد کافی تھک گئے تھے پھر ایسا آرام کیا کہ کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہا۔۔
اچھا رمشا کا پتہ چلا؟؟
جی بہت بہت مبارک ہو آپ کو صبح ہی ماما نے بتایا سن کر بہت زیادہ خوشی ہوئی ۔۔۔ اللہ ان دونوں کی جوڑی کو ہمیشہ سلامت رکھے دونوں ساتھ میں بہت ہی اچھے لگیں گے۔۔
کنزہ کی خوشی اس کے ایک ایک میسج سے صاف ظاہر ہو رہی تھی ۔۔۔خیر خوش تو پورہ گھر ہی تھا اس رشتے ۔۔۔جو خوش نہیں تھا وہ بس عارفین تھا۔۔۔
دونوں تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے پھر سمیر کام کا بول کر چلا گیا
* * *
عارفین آج بھی گھر نہیں آیا ۔۔وہ پورا ٹائم عنیزہ کی باتوں میں الجھا ہوا تھا اس کو اب بھی اس کے ری ایکشن پر شک تھا اس نے کوئی بھی برا ردعمل نہیں دیا تھا اور نہ ہی رونا دھونا کیا تھا جو اکثر عارفین کے دور جانے پر کیا کرتی تھی۔۔ جب عارفین واپس آیا تھا اس نے عنیزہ میں نمایاں تبدیلیاں محسوس کی تھیں وہ زیادہ دیر عارفین کے ساتھ نہیں بیٹھتی تھی نہ ہی کوئی سوال کا جواب دیتی تھی۔۔ رمشا سے شادی کی بات سے پہلے ہی وہ بدلی بدلی سی لگ رہی تھی جیسے کوئی چیز تھی جو وہ بخوبی چھپھانے میں کامیاب رہی تھی لیکن یہ راز ابھی راز ہی تھا۔۔۔ عارفین نے وقتی وہم سمجھ کر خود کو سمجھا دیا تھا۔۔۔
عنیزہ اس کی محبت تھی اور وہ رمشا کی وجہ سے اس کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔ لیکن کچھ چیزیں ہم سے بہتر ہمارا الله جانتا ہے۔۔۔ ہم کچھ لوگوں کو اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں لیکن اللہ تو ہمارے لئے بہترین تیار کیے بیٹھا ہوتا ہے جس سے ہم نظر انداز آئے کر کے بہتر کی طرف بھاگ رہے ہوتے ہیں۔۔
* * *
لان کو بہت ہی مہارت اور خوبصورتی سے سفید گلابوں سے سجایا گیا تھا عصر کے بعد نکاح کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔۔ سمیر دوپہر میں رمشا کو پارلر چھوڑ آیا تھا۔۔ عشاء اور دعا بھی ضد کر کے رمشا کے ساتھ گئی تھیں ۔۔سمیہ ، ثمرین اور سیما کے ساتھ گھر کے کام کاج میں مدد کروا رہی تھی۔۔ وجدان اور فیضان دادا کے دیئے ہوئے احکامات پر عمل کر رہے تھے ہر ایک اپنے اپنے کاموں باخوبی سرانجام دے رہا تھا۔۔۔ خالد اور فراز کھانے کے آرڈر چیک کرنے گئے تھے۔۔ عارفین صبح سے گھر سے غائب تھا ۔۔۔۔ سیما بہت پریشان تھیں لیکن عارفین نے کال کرکے بتا دیا تھا کہ وہ نکاح کے وقت واپس آ جائے گا اسے کوئی ضروری کام یاد آ گیا ہے۔۔۔
وہ اپنے دوست کے فلیٹ میں غصہ اور نفرت کی بھٹی میں جل رہا تھا اور رمشا سے چن چن کر بدلے لینے کا پروگرام بنا رہا تھا۔۔۔ وہ چاہتی تو اسے ان سب سے نکال سکتی تھی لیکن وہ صاف انکار کر گئی تھی۔۔عارفین کو کبھی رمشا سے کوئی پرابلم نہیں رہی تھی وہ ہمیشہ سے اس کا بھی خیال رکھتا ہوا ہی آیا تھا لیکن اب وہ اس کے پیار کے بیچ میں آئی تھی۔۔۔وہ اس کی ہر اچھائی بھلا چکا تھا اس کو صرف اس سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔