آخر کار فیصل آباد سے کراچی کا طویل سفر طے کرنے کے بعد اب وہ کراچی چھاؤنی اسٹیشن پر موجود تھے ۔۔۔
ویسے ایک بات ہے جاتے ہوئے نہیں تھکے تھے لیکن واپسی کا سفر بہت طویل ہو گیا تھا۔۔۔
اسٹیشن سے گھر جاتے ہوئے رمشا سفر کے متعلق باتیں کر رہی تھی۔۔
ہاں یار واقعی شاید ہمیں جانے کی ایکسائٹمنٹ زیادہ تھی اس لیے سفر کا نہیں پتا چلا تھا لیکن واپسی پر ایک ایک اسٹاپ لمبا لگا تھا۔۔ عشاء نے بھی اپنی رائے دی ۔۔
ویسے سچ بات تو یہ تھی کہ عشاء صاحبہ کو ان کی ہینڈ فری دے دی گئی تھی وہ پورے راستے موویز دیکھتی ہوئی آئی جبکہ دعا اور رمشا آپس میں فیصل آباد کی شادیاں اور گھومنے پھر نے کو ڈسکس کرتے رہے اور خیروعافیت سے سفر ہو گیا۔۔۔
فارس ناشتہ تو کرتا جاتا یار۔
راستے میں ہی فارس نے اپنے گھر کے پاس گاڑی رکوالی تھی جس پر سمیر ناراض ہو رہا تھا۔۔
نہیں یار نہا دھو کر جوائننگ دوں گا پولیس والا بندہ ہوں ایک ایک چھٹی کا حساب ہوگا ۔۔۔
چل جیسے تجھے ٹھیک لگے پھر رات کو آرام سے ملتے ہیں ۔۔۔
فارس اتر چکا تھا سمیر اور باقیوں نے اسے اللہ حافظ کیا اور گاڑی ان کے گھر کی طرف چل دی۔۔
* * *
اسلام علیکم کیسی ہیں امی؟؟؟
سمیر نے گھر میں داخل ہوتے ہی ثمرین سے سلام اور حال احوال لینا شروع کیا..
سب مل ملا کر اپنے اپنے روم میں فریش ہونے چلے گئے تھے ۔۔
بچوں چلو کھانا لگ گیا ہے۔۔۔
سیما نے سب کو آواز لگا کر بلایا ۔۔
ایک ہفتے بعد وہ لوگ واپس اپنے گھر میں موجود تھے ویسے جہاں بھی رہو اپنا گھر اپنا گھر ہی ہوتا ہے جو سکون اور آرام اپنے بستر پر لیٹ کر ملتا ہے وہ کسی اور عالیشان جگہ پر بھی نہیں ملتا ۔۔وہ سب ایک ایک کر کے پہلے دادا جان کے روم میں تشریف لے گئے جو مزے سے ٹی وی دیکھنے میں مگن تھے۔۔۔
دادا جان آپ کی تو شدید طبیعت خراب تھی؟؟ عارفین ان کو آرام سے بیٹھے ٹی وی دیکھتے ہوئے پا کر حیران ہوا...
ہاں بیٹا وہ تو کل بس چھینکیں تھوڑی زیادہ آ رہی تھیں اور بخار بھی چڑھ گیا تھا۔۔۔
سوچا اپنے بچے بلا لو وہ مجھے یاد کر رہے ہونگے۔۔
دادا کی یہ بات وہاں موجود ہر ایک کے سر کے اوپر سے گزر گئی تھی اگر وہ بہانہ مارنے کی کوشش کر رہے تھے تو یہ ایک ناکام کوشش کی۔۔۔ عشاء 11 کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی کہ اگر میری بات مان لیںتے تو ٹرپ کا بیڑا غرق نہ ہوتا۔۔۔
ویسے دادا جان آپ کو میں اسپیشل بہانوں کی کلاس دوں گی یہ والا بالکل اچھا نہیں تھا۔۔۔ پتا ہے ہم لوگ کیسے الٹے پاؤں آئے ہیں لیکن نہیں آپ کو تو اپنی بات منوانی تھی۔ جائیں میں آپ سے نہیں بولتی۔۔
عشاء اب ناراض ہو کر روم سے جا چکی تھی۔
ویسے دادا جان یہ بات صحیح نہیں ہے اگر آپ چاہتے تھے ہم واپس آ جائیں تو ہم ایسے ہی واپس آ جاتے آپ کی کوئی بات ہم نے ٹالی ہے کیا کبھی۔۔۔
عارفین کو بھی دل سے کافی برا لگا تھا لیکن اب دادا کے کچھ بولا بھی نہیں جا سکتا تھا تو لہٰذا سب نے چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی تھی۔۔۔
بچوں مجھے پتہ ہے میں نے جھوٹ بول کر تم لوگوں کو بلایا لیکن سچ تو یہ ہے کہ میں بہت اداس ہو گیا تھا تم لوگ یاد آرہے تھےاگر میں سچ مچ مر جاتا تو مجھے کاندھا دینے والا میرا کوئی پوتا نہ موجود ہوتا۔۔۔
دادا نے جذبات میں آ کر یہ بات بولی تھی یا یہ بھی اسی ڈرامے کا حصہ تھا وہ تو عشاء ہی بتا سکتی تھی جو اس وقت موجود نہیں تھی لیکن باقی سب کے دل دہل گئے تھے ۔ رمشا کے تو باقاعدہ موٹے موٹے آنسو ہی نکل آئے تھے ۔۔۔
دادا جان ایسی باتیں تو نہ کریں میرا وعدہ ہے اب ہم سب ایک ساتھ کہیں نہیں جائیں گے اوکے۔۔۔ اب آپ مسکرائے اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں ۔۔
سمیر بھی دادا کی بات سے اداس ہوا تھا لیکن سب کو ہی منہ لٹکایا ہوا دیکھ کر سب کو کھانا کھانے کے لئے لے آیا۔۔۔۔
سب نے مل کر کھانا کھایا وجدان سب سے مل کر گھر جا چکا تھا اب ان کے گھر کے لوگ ہی اس وقت موجود تھے۔۔۔
* * *
خیر بچوں جو اہم بات میں تم سے کرنے والا ہوں اب وہ بڑے غور سے سن لو میرے اور گھر کے سب بڑوں کے فیصلے کے تحت اس جمعہ کو رمشا اور عارفین کا نکاح رکھا گیا ہے۔,
سب کے ری ایکشن بہت الگ تھے کوئی انتہائی خوش تھا کوئی حیران اور کوئی شدید غصے میں۔۔
سمیر اپنی بہن کے لئے بہت خوش تھا وہ اس کی اکلوتی بہن تھی اور اب اسی گھر میں رہنے والی تھی۔۔
دعا ،عشاء اور فیضان حیران اور خوش دونوں تھے کیونکہ یہ فیصلہ ایک اچھا فیصلہ تھا رمشا ہر لحاظ سے ایک اچھی بھابھی بننے پر کھڑی اترتی تھی۔۔۔
رمشا کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا وہ عارفین کو دل ہی دل میں پسند کرتی تھی لیکن یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ اللہ نے بنا مانگے ہی اسے وہ شخص عطا کردیا جس کی محبت بچپن سے اس کے دل میں پروان چڑھ رہی تھی۔۔۔
لیکن وہ بڑوں کے ہر فیصلے پر نظریں جھکا کرعمل کرنے والی لڑکی تھی خواہ وہ عارفین نہ بھی ہوتا جس سے بھی بڑے شادی کرنے کا بول دیتے وہ اس پر عمل کرنے کے لئے تیار تھی۔۔۔
عارفین کو شدید غصہ آیا تھا لیکن اس وقت دادا کے سامنے وہ کوئی غلط ردعمل نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے خاموشی سے سب کی مبارک باد قبول کرتا رہا۔۔
پورے گھر میں خوشیاں بکھر گئی تھیں جمعہ میں صرف دو دن باقی تھے۔۔ دادا جان، فراز اور خالد نے بچوں میں کام تقسیم کر دیے تھے جسے خوشی خوشی سب نے اپنے اپنے ذمے لے لیا تھا
* * *
یہ سب کیا ہے امی؟؟ میرے تو سمجھ سے باہر ہے اتنا بڑا فیصلہ آپ لوگوں نے مجھ سے پوچھے بغیر کر بھی کیسے لیا ؟؟
عارفین سب کے بیچ سے اٹھ کر جا چکا تھا اور رات کے وقت سیما کو اکیلا پا کر ان سے اس عجیب فیصلہ کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہا تھا۔۔۔۔
بیٹا یہ تو بڑوں کا فیصلہ تھا اور تم نے کبھی اپنی پسند کی لڑکی کے بارے میں بتایا بھی نہیں۔۔ مجھے تو یہی لگتا تھا کہ تم رمشا کو پسند کرتے ہو بچپن سے ہی تمہارا اس کو چھیڑنا، اس کا خیال رکھنا تمہاری پسندیدگی کی ضمانت دیتا تھا۔۔۔
سیما عارفین کا اتنا بدلہ ہوا روپ آج پہلی بار دیکھ رہی تھیں ۔ وہ بہت غصے میں کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔۔۔
امی میں یہ نکاح ہرگز نہیں کروں گا۔۔۔ میں کوئی قدم اٹھاوں اس سے پہلے آپ ہی خود سب کو منع کر دیں۔۔
عارفین اپنا حتمی فیصلہ بتا رہا تھا جس کو سننے کے بعد سیما کے پیروں تلے زمیں نہیں رہی تھی۔۔۔
عارفین یہ نہیں ہوسکتا ہم خالد اور ثمرین کو زبان دے چکے ہیں وہ کیا سوچیں گے اور اباجان کی نظروں میں تمہارے ابو کی کیا عزت باقی رہ جائے گی تم نے سوچا بھی ہے۔۔۔
سیما عارفین کے آگے رونے لگی تھیں ان کا بیٹا بغاوت کرنے پر اتر آیا تھا۔۔۔
کیا بات ہے سیما تم رو کیوں رہی ہو؟؟
فراز جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے سیما کو روتا پا کر کھٹک گئے ۔۔۔
پاپا آپ نے کیسے مجھ سے پوچھے بنا اتنا بڑا فیصلہ کیا۔۔۔ میں رمشا سے ہرگز بھی نکاح نہیں کروں گا آپ سب لوگ ہوتے کون ہے میری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اکیلے کرنے والے ۔۔۔
عارفین غصے میں اپنے حدیں بھول گیا تھا وہ بھول گیا تھا کس کے سامنے کھڑا تھا کیا بول رہا تھا ۔۔
نکل جاو میری نظروں کے سامنے سے اسی وقت اگر تمہیں یہ فیصلہ منظور نہیں ہے تو آئندہ کبھی اپنی شکل مجھے نہیں دکھانا کبھی مجھے اپنا باپ نہ کہنا ۔۔۔جو مان جو غرور ہمیشہ سے میں تم پر کرتا تھا آج تم نے اسے چکنا چور کر دیا ہے۔۔۔
فراز کے لیے اپنے بیٹے کی بغاوت جھیلنا مشکل تھا وہ پہلے ہی دل کے مریض تھے اور اب اس عمر میں اپنے باپ کے آگے شرمندہ ہونے کی ہمت نہیں رہی تھی۔۔۔
عارفین بغیر کوئی جواب دیئے کمرے سے جا چکا تھا فراز اور سیما پر یہ وقت قیامت جیسا تھا۔۔فراز اپنے بیٹے کی نافرمانی دیکھ کر بیڈ پر بیٹھ چکے تھے اور دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ لیٹ گئے ۔۔
* * *
بار بار فون سوئچ آف آنے کے بعد عارفین عنیزہ کے آفس پہنچ چکا تھا لیکن پارکنگ میں ہی عنیزہ اور اس کے باس کو ساتھ گاڑی میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر رک گیا ۔۔ جس طرح بے تکلفی سے وہ باس سے باتوں میں مگن تھی ایسا کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ صرف آفس کولیگ ہیں ۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ گاڑی عارفین کے نظروں سے اوجھل ہوگئی اور وہ وہیں کھڑا گاڑی دور تک جاتا دیکھتا رہا۔
* * *
عارفین آج رات گھر نہیں آیا تھا اور کسی نے خاص توجہ بھی نہیں دی ہر کوئی کاموں میں مصروف تھا لیکن رمشا نے گھر میں اس کی کمی محسوس کی تھی۔۔ وہ خوش تھی اس کی بن مانگی دعا قبول ہوئی تھی وہ سب کے ساتھ مارکیٹ گئی اور خود اپنی پسند سے نکاح کا جوڑا لے کر آئی تھی ۔۔۔
دعا اور عشاء نے بھی دھوم دھام سے شاپنگ کی تھی یہ ان کے گھر کی پہلی شادی تھی وہ ہر طرح کے شوق پورا کرنا چاہتی تھیں ۔۔
دیکھو میں نا وائٹ اور ریڈ کلر کا ڈریس پہنوں گی دعا تم بھی ایسا ہی ملتا جلتا لے لو تا کہ ہم ایک جیسی بہنیں لگیں ۔۔
عشاء خوش خوش اپنے سوٹ کے ڈیزائن دعا کو دکھا رہی تھی اور دعا کو بھی مشورہ دے رہی تھی کہ وہ بھی کوئی اچھا سا سوٹ لے لے تاکہ دونوں اپنے بھائی کی شادی پر سب سے اچھی اور نمایاں نظر آئیں۔۔۔
* * *
ہم دونوں کورٹ میرج کر لیتے ہیں!!
عارفین عنیزہ کو ریسٹورنٹ لے آیا تھا اور اب اس سے محبت کا ثبوت مانگ رہا تھا۔۔۔۔
عارفین تمہیں کیا ہو گیا ہے میں ایسا کچھ نہیں کرسکتی ۔۔میرے ماں باپ کبھی مجھے اس عمل کی اجازت نہیں دیں گے۔۔ میں ان کی واحد بیٹی اور واحد سہارا ہوں وہ میری شادی عزت سے کرنا چاہتے ہیں اگر یہ محبت کا ثبوت ہے تو میں ایسا نہیں کروں گی۔۔ میں اس میں ہارنے کو فوقیت دوں گی ۔۔
عنیزہ بھی اپنی بات پر اٹل تھی عارفین کی باتیں اب اس کے سر سے جا رہی تھیں ۔۔۔
ہاں اب تو تمہیں اپنا باس جو بہت اچھے لگ رہے ہیں اب کہاں تم میری باتوں کو سیریس لو گی۔۔۔
عنیزہ کو عارفین کی یہ بات بہت بری لگی وہ عارفین سے اس طرح کی کسی بات کی توقع نہیں رکھتی تھی۔۔
عارفین تم کچھ بھی بول رہے ہو ابھی تم غصے میں ہو جب تمہارا غصہ ٹھنڈا ہوگا تو پھر ہم ضرور بات کریں گے۔۔
مطلب یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟؟
عارفین اب ہر طرف سے ہار رہا تھا۔۔۔
میں تمہارا انتظار کرنے کے لیے تیار ہوں عارفین جتنا تم کہو لیکن ایسے تمہاری کوئی بات نہیں مانوگی۔۔۔
عنیزہ اب یہ کہتی اٹھ چکی تھی اور اللہ حافظ کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔۔
* * *
آہ ہ ہ ہ ہ!!!
کسی نے زور سے کھینچ کر رمشا کو کچن کے اندر کیا تھا۔۔
آپ؟؟؟
رمشا عارفین کو اس طرح دیکھ کر گھبرا گئی تھی یہ رات کا پہر تھا اور سب سو چکے تھے ۔۔۔رمشا نیند میں بوجھل اوپر سے نیچے آئی تھی اور اب اپنے روم میں جانے کی غرض سے کچن کے پاس سے گزر رہی تھی۔۔
بہت خوش ہونا تم تو؟؟
عارفین نے اپنی گرفت رمشا کے ہاتھ پر بہت مضبوط کی ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں میں غصے کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی ۔۔
عارفین ہاتھ چھوڑیں کیا ہوگیا آپ کو؟؟؟
رمشا عارفین کا یہ رویہ سمجھنے سے قاصر تھی زندگی میں کبھی بھی عارفین نے رمشا سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی اور آج اس کی شدت سے وہ گھبرا رہی تھی۔۔۔
تم شادی سے منع کر دو۔۔۔
عارفین کی اس بات سے رمشا کا جیسے خون ہی خشک ہو گیا تھا۔۔۔
میں یہ کیسے کر سکتی ہوں؟؟؟
تم کر سکتی ہو دادا تمہاری ہر بات بہت مانتے ہیں اگر تم کہو گی کہ تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی تو وہ فوراً مان جائیں گے بغیر کچھ پوچھے۔۔۔
عارفین کی یہ بات بالکل سچ تھی رمشا دادا کی لاڈلی تھی اور اس کے کہنے سے کچھ بھی بدلا جا سکتا تھا۔۔۔
میں ایسا نہیں کروں گی اگر آپ کو مجھ سے شادی نہیں کرنی تو آپ منع کر سکتے ہیں لیکن مجھ سے یہ امید نہ رکھیں کہ میں بڑوں کے ساتھ بغاوت کروں گی انہوں نے بڑے مان سے یہ فیصلہ کیا ہے میں ان کا مان نہیں توڑ سکتی۔۔
رمشا بہت ہمت جوڑ کر یہ سب باتیں بول پائی تھی حقیقت میں تو وہ بہت ٹوٹ چکی تھی۔۔۔
رمشا میں تمہاری زندگی جہنم بنا دوں گا۔۔۔
مجھے منظور ہے۔۔۔
رمشا کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اگر آگے کنواں تھا تو پیچھے کھائی تھی وہ یا تو وہ بڑوں کے آگے بغاوت کرے یا شادی کرکے عارفین کی نفرت جھیلے۔۔۔ اس نے نفرت کو چن لیا۔۔ وہ خود غرض ہوگئی تھی اور اپنے دل کا فیصلہ سنا دیا تھا ۔۔
عارفین رکا نہیں چلا گیا اور اس کے ہاتھ پر اپنی نفرت کی پہلی مہر چھوڑ گیا ۔۔۔
رمشا کتنی ہی دیر عارفین کی نفرت کو محسوس کرتی رہی وہ اب اپنے آگے کی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے کھائی میں ڈال چکی تھی۔۔۔
* * *