عارفین آپ کتنے دنوں کے لیے جا رہے ہیں؟؟ عنیزہ کال پر رو دینے والی آواز میں گویا ہوئی.۔۔
میں نے تمہیں پہلے ہی بتایا تھا کہ جانا ضروری ہے اور ہفتہ، 15 دن بھی لگ سکتے ہیں تو اب کیوں اتنی اداس ہو رہی ہو تم۔۔ عارفین اب عنیزہ کے رونے سے پریشان ہو رہا تھا..
عارفین آپ سمجھ نہیں رہے میں اتنا انتظار نہیں کر سکتی ہوں آپ کو بھی پتا ہے ماما کتنا فورس کر رہی ہیں رشتے کے لئے اور کل تو رشتے والے دیکھنے بھی آرہے ہیں میں کب تک آپ کے لیے منع کرتی رہوں گی؟ آپ ہیں کہ سیریس ہی نہیں ہو رہے۔۔
ارے عنیزہ اچھا آخری بار تو منع کر دو میں فیصل آباد سے آتے ہی دادا ابو اور امی ابو سے بات کروں گا اب تم میرے لئے اتنا تو کر سکتی ہو نا۔۔۔
ٹھیک ہے لیکن یہ آخری بار ورنہ میں ماما پاپا کی مرضی سے اب شادی کر لو گی پتہ نہیں یہ دھمکی تھی یا سچ لیکن عنیزہ کی یہ بات عارفین کو تڑپا گئی تھی اور اس نے غصے میں فون بند کر دیا۔۔۔
* * *
عارفین اور عنیزہ یونیورسٹی میں ساتھ پڑھا کرتے تھے عارفین کی شخصیت ہمیشہ سے پرکشش اور اپنی طرف مائل کرنے والی رہی ہے۔۔ یونیورسٹی میں بھی عارفین سب کے ساتھ شغل کیا کرتا تھا اور پڑھائی میں اچھا ہونے کی وجہ سے سب ٹیچرز کا بھی چہیتا تھا۔۔ عارفین کی بات چیت عنیزہ سے تھرڈ سمسٹر میں شروع ہوئی جب عنیزہ کے گھر پر فائنانشیل کرائسس کی وجہ سے وہ فیس نہیں دے پا رہی تھی۔۔ کسی دوست کے کہنے پر عنیزہ نے عارفین سے فیس کی بات کی کیونکہ اگر وہ فیس نہ دے سکی تو اس کا انرولمنٹ کینسل کردیا جائے گا۔۔ عارفین کے یونیورسٹی میں اچھے خاص تعلقات ہونے کی وجہ سے اس نے اپنے ابو سے بات کرکے عنیزہ کی فیس معاف کرادی جس سے عنیزہ کے دل میں عارفین کے لیے جگہ بن گئی .. عارفین کو بھی عنیزہ کی عادات اور شخصیت نے اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ دونوں اچھے دوست بن گئے۔۔۔ عارفین اپنے دوستوں کے لئے بہت سخی تھا ۔۔ ہر کسی کی مدد کرنا اس کا اولین فرض ہوتا تھا عنیزہ کو بھی آئے دن وہ کچھ نہ کچھ ضرورت کی چیزیں گفٹ کر دیا کرتا تھا عنیزہ کو عارفین کی عادت سی ہو نے لگی تھی اور وہ اس کے نت نئے گفٹ کے منتظر رہنے لگی۔۔۔ عارفین نے لاسٹ ایئر ر عنیزہ سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کردیا جس کا جواب عنیزہ نے ہاں کی صورت میں دیا ۔۔ یونیورسٹی کے ختم ہوتے ہی عارفین ہی کے ریفرنس سے عنیزہ اور عارفین اچھی کمپنی میں انٹرنشپ کرنے لگے اور کمپیوٹر سائنس میں اچھی جی پی اے اور انٹرنشپ ایکسپیرینس ہونے کی وجہ سے عارفین کو جاب بھی مل گئی لیکن بدقسمتی سے عنیزہ سلیکٹ نہ ہو سکی۔۔ دونوں ایک دوسرے سے تچ میں رہنے لگے اور عارفین ہر برتھ ڈے پر عنیزہ کو مہنگے مہنگے گفٹ دینے لگا اور جلد ہی دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا.....
* * *
یار دعا تم نے میری ہینڈ فری اٹھا لی تھی نا؟؟؟
عشاء بیگ میں ہینڈ فری ٹٹول ٹٹول کر تھک گئی تھی۔۔۔
میں کیوں اٹھاؤں گی اور نہ مجھے کوئی شوق ہے ٹرین اسٹارٹ ہوتے ہی ٹونٹیاں کان میں گھسیڑنے کا ۔۔۔
دعا اب عشاء کو نظرانداز کرتی ہوئی واپس ناول میں غرق ہو چکی تھی۔۔۔
ہاں تم تو اس ناول میں گھسی رہو۔۔ کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا ،اب ٹرین کی اس آواز میں میں مووی کیسے دیکھوں گی یار۔ عشاء اب پریشانی کی وجہ سے رمشا کے بیگ بھی چیک کرنے لگی تھی۔۔
ارے بہن یہ تو میرا بیگ ہے اور اس میں یقیناً تمہیں تمہاری مطلب کی کوئی بھی چیز نہیں ملے گی ۔۔۔ رمشا اپنی ڈائری سے نظر ہٹا کر اپنے بیگ کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس کی سیٹنگ تقریباً ستیاناس ہو چکی تھی۔۔۔۔
ہاں ویسے کہا تو صحیح ہے تم نے۔۔ غلط چیز کی توقع غلط بندی سے کرلی میں نے۔۔
کتابی کیڑا!!!
عشاء یہ کہتی ہے اب واپس اپنے بیگ چیک کرنے لگی تھی۔۔
اچھا اب زیادہ بنو مت ورنہ یہ ڈائری ہی کھا لوں گی۔۔
رمشا یہ کہتی بیگ سے چپس نکالنے لگی تھی سنو عشاء ایسا کرو یہ چپس وغیرہ تم بھائی اور باقیوں کو دے آو اور عارفین سے ہینڈ فری کا بھی پوچھ لینا اگر ان کے پاس نہ بھی ہوئی تو باقیوں کے پاس تو ضرور ہوگی۔۔۔
ہاں یہ صحیح ہے !!
عشاء پردہ ہٹا کر برابر والے ڈبے میں دیکھتی ہی رہ گئی وہ پانچوں لیپ ٹاپ میں سر گھسائے کچھ دیکھنے میں مگن تھے اور عارفین کان میں عشاء کی ہینڈ فری لگائے خوب مووی کا لطف اٹھا رہا تھا۔۔
بھائی!!!!!!!!!
کیا ہے؟؟ میں بھرا نہیں ہوں ۔۔۔کیوں چلا رہی ہو ایک کان کھلا ہوا ہے میرا۔۔۔
عارفین عشاء کے ایک دم چلانے سے حواس باختہ ھو گیا تھا۔ ۔۔
یہ میری ہینڈ فری ہے اور آپ کیوں لائے ہو یہ۔۔ عشاء اب اپنی ہینڈ فری کو دیکھ کر لال پیلی ہو گئی تھی۔۔
اس پر کہیں نام لکھا ہے تمہارا اور دوسری بات میں نے ہی لا کر دی تھی تو اس پر میرا بھی برابر کا حق ہے۔۔۔
بھائی میں یہ سب پاپا کو بتاؤں گی دیکھنا بس آپ۔۔۔ عشاء یہ کہتی غصے سے مڑ گئی تھی۔۔
ارے عشاء چپس تو دیتی جاؤ۔۔
وجدان نے عشاء کے پیچھے چھپے ہوئے چپس کو دیکھ لیا تھا جو اس نے عارفین کے پاس ہینڈ فری دیکھتے ہی چھپا لئے تھے۔۔
ہاں یہ لو کھا لو۔۔۔ سب لے لو۔۔۔ ہمیں تو ویسے ہی ہاف ٹکٹ پر آئے ہیں آپ لوگ اصل مزے تو آپ لوگوں کے ہیں۔۔۔ عشاء اب آنکھوں میں آنسو لئے واپس سیٹ پر آگئی تھی۔۔۔
اب تمہیں کیا ہوا ہے رو کیوں رہی ہو؟؟
عشاء کے ایک دم غصے سے بیٹھنے پر رمشا پوری ہل گئی تھی اور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ محترمہ رو رہی ہیں۔۔۔
ہینڈ فری عارفین بھائی چرا کے لائے ہیں اور مزے سے لیپ ٹاپ میں کوئی مووی دیکھ رہے ہیں۔۔۔
ارے اٹھا لی ہوگی انہوں نے دے دیں گے واپس اس میں رونے والی بات کونسی بات ہے
رمشا اب اس کو ساتھ لگایا تسلیاں دے رہی تھی۔۔
ہاں تم تو بھائی کی سائیڈ لوگی ۔ کبھی ان کو برا کہتی ہی نہیں ہو ۔۔ہاں نہیں تو ۔۔
لو جی میں نے کون سی سائیڈ لے لی ۔ چلو اچھا وہ برے ہیں میں سمیر سے بولونگی ان کو ڈانٹے۔ صحیح ہے ؟؟؟ رمشا ہلکا سا مسکرا نے لگی تھی۔۔
یہ لو گڑیا میں چھین کر لے آیا اب خوش ؟؟ سمیر ہاتھ میں ہینڈ فری لئے عشاء کے کندھے کو ہلا رہا تھا۔۔۔
تھینک یو!!!
عشاء کے آنکھیں ایک دم چمک اٹھیں تھیں ۔۔
کوئی بات نہیں اور فورا رونے نہ بیٹھ جایا کرو ہمیں ہماری شرارتی عشاء ہی پسند ہے کیوں صحیح کہا نا؟؟؟
جی بھائی بالکل صحیح!
رمشا، عشاء کے سر پر چپت لگانے سے نہ رکی اور پھر ہنس کر اس کو اپنے ساتھ لگا لیا۔۔
چلو تینوں مل کر کچھ دیکھو اور اچھا ٹائم گزارو۔۔ کوئی چیز چاہیے ہو یا کوئی پرابلم ہو تو ہم برابر میں ہی ہیں آواز لگا دینا۔۔۔
* * *
ویسے فارس تم کم کم آرہے ہو گھر کیا بات ہے ؟؟؟ عارفین چپس کا پیکٹ کھول کر آپ فارس کو بھی آفر کر رہا تھا۔۔۔
یار عارفین پولیس والوں کا تو یہی ہے کبھی ادھر ٹرانسفر تو کبھی ادھر۔۔ ہم تم جیسے لوگوں کو پکڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔۔۔
اوئے تم لوگوں کو آخری میں میری بجانی لازمی ہوتی ہے کیا۔۔ عارفین نے منہ بسورتے ہوئے چپس کا پیکٹ اپنی طرف واپس کھینچ لیا تھا۔۔۔
سمیر تم کہاں کھو گئے ہو؟؟؟
عارفین کی نظر جب سمیر پر پڑی تو وہ کافی گہری سوچ میں بیٹھا انگلیاں چٹخا رہا تھا۔۔
ارے نہیں نہیں میں تم لوگوں کو ہی سن رہا ہوں عارفین کے ایک دم ہلانے سے سمیر کا خیال ٹوٹ گیا۔۔۔
سمیر اب تک اس کشمکش سے نکل نہیں پا رہا تھا کہ وہ وہاں کنزہ سے کیسے بات کرے گا اور اگر کر بھی لیتا ہے تو نظریں کیسے ملائے گا۔۔سمیر ہمیشہ شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا شائے تھا وہ لڑکیوں سے بات کرتے ہوئے ہربڑا جایا کرتا تھا اور جب سامنے لڑکی بھی کنزہ ہو تو اچھے اچھے کے پسینے چھوٹ جائے کرتے تھے اور وجہ کنزہ کا حد درجہ confident ہونا تھا وہ اپنی شخصیت سے لوگوں کو امپریس کر دیا کرتی تھی...
سمیر دماغ میں پورا خیال تخلیق کرنے لگا تھا کہ وہ کون سے کپڑے پہنے گا اور کس طریقے سے کنزہ کو رنگ اور لاکٹ دے گا۔۔۔
* * *
ہائے شانزے!!!
ہائے! کہاں تک پہنچے؟؟؟
بس نیکسٹ سٹاپ فیصل آباد کا ہے۔۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں شانزے میں اس سے بات کیسے کروں گا؟؟؟
یا اللہ تم اب تک یہی سوچے جا رہے ہو؟؟؟ دیکھنا جب تک تم سوچو گے نہ وہ تمہیں دے بھی چکی ہوگی جو تمہارے لئے لائی ہو گی۔۔۔
اگر تمہارا ہو گیا ہے؟؟ تو مشورہ دوگی؟؟
سمیر نے اتنا برا منہ بنا کر یہ میسج لکھا تھا کہ شانزے اسکرین سے بھی اس کے تاثرات جان سکتی تھی۔۔
تم بتاؤ تم نے کیا سوچا ہے؟؟؟
شانزے نے خیر مدعے پر انا ہی بہتر سمجھا۔۔
دیکھو میں نے سوچا ہے اسے الگ روم میں بلاؤں گا اور گھٹنوں پر بیٹھ کر پرپوز کروں گا۔۔۔ اب بتاؤ کیسا لگا میرا آئیڈیا۔۔۔
سمیر نے ایسے پرجوش انداز میں بتایا۔۔۔ کہاں پتا تھا ایک سیکنڈ میں اس کے آئیڈیے پر پانی پھر جائے گا۔۔۔
کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
شانزے تھی کہ بس ہنسنے والے emoji ہی بھیجے جا رہی تھی.......
میں ہی گدھا اور الو کا پٹھا ہوں جو تم اور فارس سے مشورہ لیتا ہوں سمیر کا دل اداس ہو گیا تھا اور وہ اداسی سے موبائل کی سکرین کو گھور رہاتھا۔۔۔۔۔
دیکھ بھائی سن یہ کوئی مووی کا سین تو چل نہیں رہا ہے..۔۔ بات تم سے کی نہیں جاتی گھٹنوں پر بیٹھ کر خاک کرو گے۔۔ بس خاموشی اور اور پیار سے اس کے ہاتھ میں دے دینا اور مجھے یقین ہے وہ اسی میں خوش ہوجائے گی۔۔ پتا ہے سمیر لڑکی کو ان ڈراموں سے زیادہ دل سے کیا گیا عمل پسند آتا ہے۔۔۔ تم بس دل سے کرنا جو بھی کرنا اور انشاءاللہ کنزہ کو ضرور پسند آئے گا اور اگر کوئی مسئلہ درپیش آ جائے تو شانزے ابھی زندہ ہے۔ فوراً میسج کر دینا میں بتا دوں گی آگے کیا کرنا ہے اور خدارا ہمت سے کام لو تھوڑا۔۔۔ اتنا بڑا آدمی ساتھ لے کر جا رہے ہو پھر بھی ڈر رہے ہو۔۔ شانزے کا اشارہ فارس کی طرف تھا۔۔۔۔۔
* * *
سمیر فارس اور شانزے اسکول کے کلاس فیلو تھے تینوں کی آپس میں بہت بنتی تھی اسکول ختم ہونے کے سات سال بعد بھی وہ تینوں ایک دوسرے کے پریشانی میں پیش پیش رہتے تھے ۔۔۔ سمیر کی لوسٹوری کو اتنے آگے تک لانے میں انہی دونوں کا ہاتھ تھا وہ سمیر کو ہمت دلاتے کہ اگر تم پسند کرتے ہو تو پھر گھر بات کرو اور اپنے فیوچر پر فوکس کرو لیکن سمیر کنزا سے مل کر پھر گھر بات کرنے والا تھا اور فارس نے اس کا بھرپور ساتھ دیا اور اب وہ منزل قریب تھی جس کا انتظار سالوں سے سمیر کو سونے نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔۔
* * *
فراز اب تو بچے بڑے ہو چکے ہیں اور ماشااللہ برسر روزگار بھی ہیں تو جو فیصلہ تم دونوں بھائیوں نے سالوں پہلے کیا تھا اب وقت آ چکا ہے اس پر عمل کرنے کا۔۔۔
ہاشم صاحب (دادا ابو) نے بڑے بیٹے فراز سے مخاطب تھے گھر کے سب بچوں کے جانے کے بعد آج ہاشم صاحب نے سب بڑوں کو اپنے کمرے میں مدعو کیا تھا۔۔۔ آج وہ ایک بڑا فیصلہ کرنا چاہ رہے تھے تاکہ بچوں کے آتے ہی اس پر عمل کیا جا سکے۔۔۔
جی ابو مجھے تو بہو لانی ہے میں تو تیار ہوں۔۔ میں چاہتا ہوں خالد سے پوچھا جائے کہ وہ تیار ہے کہ نہیں ابھی۔۔۔۔ فراز نے اپنی زبان پر برقرار رہتے ہوئے خوشی سے حامی بھر دی تھی۔۔۔
جی بھائی میری بیٹی بھی آپ کی امانت ہے جب چاہیں اسے لے جا سکتے ہیں اور مجھے مسئلہ بھی کیا ہوگا میری بیٹی نے کون سا دور جاناہے۔۔۔۔ خالد نے جیسے بات ہی ختم کر دی تھی۔۔
سیما سب کے لیے مٹھائی لےآؤ۔۔۔۔
ہاشم صاحب نے خوشی سے کہا۔۔
بہت سالوں بعد ہاشم ولا میں خوشیاں آ رہی تھیں یہ دونوں بھائیوں کی پہلی خوشی تھی جس میں وہ کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے لیکن بڑوں کے فیصلے بچوں پر کیسا بم گرائیں گے ابھی اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔۔۔۔۔
* * *