عشاء گھر آگئی تھی گھر میں سب ہی اس سے باتیں کرکے اس کا من بہلا رہے تھے۔ گھر کے بڑوں نے فضا کو فون کرکے افسوس بھی کیا تھا اور کیا بھی کچھ نہیں جا سکتا تھا۔۔سمیر آج پورا دن گھر سے باہر رہا وہ حقیقت قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کا دل کہیں نہ کہیں خود کو مجرم ماننے لگا تھا۔۔۔ وہ محبت کی انتہا پر پہنچ گئی تھی محبت کو کسی ایک کے نام کر گئی تھی اس کے لئے محبت کی پاکیزگی اہم تھی وہ نہ کچھ کہہ کر بھی بہت کچھ باور کرا گئی تھی۔ سمیر بھی غم میں تھا لیکن جس تکلیف میں وہ کب سے جل رہی تھی سمیر اب اسے بھی محسوس کر سکتا تھا۔۔
فارس کہاں ہے ؟؟؟
سمیر جانتا تھا وہ فارس کے بجائے کسی کے سینے سے لگا کر نہیں وہ سکتا۔
گھر جا رہا ہوں ۔۔ خیریت ہے؟؟؟ فارس نے اس کی آواز سے پریشانی کو بھانپ لیا تھا.
ہاں گھر آ کر بتاتا ہوں۔۔
سمیر نے یہ کہتے ساتھ ہی کال کٹ کر دی اور اس کے گھر کی طرف کار کا رخ موڑ لیا۔
* * *
ناشتہ آج سب کے ساتھ کرلیں آپ ۔۔
رمشا عارفین کو بلانے روم میں آئی تھی۔
نہیں مجھے یہاں تمہارے ساتھ ہی کرنا ہے ۔۔
عارفین نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
لیکن میں نے سب کے ساتھ کرنا ہے آنا ہے تو آ جائیں ورنہ اس روم میں بیٹھ کر اکیلے ناشتے سے لطف اٹھائیں میں تو چلی ۔
رمشا نے کندھے اچکائے
بڑی کوئی بے رحم ہو اور نافرمان بھی
عارفین نے منہ بنایا۔
مسٹر دادا نے بلایا ہے کہ تھوڑا چلے پھریں گے تو ہی صحیح ہوں گے ورنہ بستر سے لگے لگے کوئی ٹھیک ہو پایا ہے بھلا۔
رمشا نے بیڈ کے پاس آکر عارفین کے اوپر سے چادر کھینچ لی تھی۔
ہاں تو ایسے پیار سے بولو گی تو سمجھوں گا نہ آتے ہی بول دیتی دادا کا حکم ہے نہیں بھائی بیگم کہاں پتے کی بات پہلے کرتی ہیں۔۔
عارفین دادا کا نام سنتے ہی ڈر گیا تھا۔
رمشا نے پاس آکر عارفین کو اٹھانے کی کوشش کی۔
اوہو ! رہنے دو میں خود اٹھ جاؤں گا تمہاری یہ حالت نہیں کہ اتنے بھاری بھرکم آدمی کو اٹھا سکو۔۔ عارفین نے ہنس کر اس کا مذاق اڑایا اور ہمت کر کے کے خود اٹھ گیا وہ رمشا کی کئیر ی وجہ سے کافی جلدی ریکور ہو رہا تھا جبھی آہستہ آہستہ چلنے پھرنے بھی لگا تھا۔۔
سنو بیگم تمہیں ڈاکٹر کے پاس بھی جانا تھا۔۔ عارفین کو ایک دم ہی یاد آیا۔
مجھے نہیں جانا۔۔۔ وہ بھی آئے دن بلا لیتی ہیں میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا بالکل بھی پسند نہیں ہے۔
رمشا نے رونے والی شکل بنا لی تھی۔
سدھر جاؤ لڑکی جانا تو تمہیں پڑے گا ہی میں نہیں لے جا سکتا ورنہ اٹھا کر لے جاتا پھر تمہارے اچھے بھی جاتے۔۔۔۔ عارفین نے مصنوعی غصے سے ڈانٹا۔
ہاں تو میرے اچھوں کو ہی لے جائے گا آپ۔۔ میں گھر ہی آرام کر لوں گی۔۔
رمشا نے بیڈ کی چادر درست کر دی تھی۔
چلو ٹھیک ہے نہ بہت دادا دادا کرتی ہو ابھی انہی کو بتا دیتا ہوں کہ ان کی پوتی کتنی نافرمان ہے بس ان کے سامنے اچھی بننے کا ناٹک کرتی ہے۔
عارفین نے باہر کے لیے قدم بڑھا دیے تھے۔۔
اچھا نہ ابھی فیضان کے ساتھ چلی جاؤنگی میں تو مذاق کر رہی تھی۔
رمشا نے عارفین کی بات سچ سمجھ لی تھی۔۔
ایسے مذاق آپ کم ہی کرا کریں ورنہ میری مذاق پھر آپ سے ہضم نہیں ہوں گے
عارفین ہنس کر باہر نکل چکا تھا رمشا بھی پیچھے پیچھے چلی آئی کہ کہیں وہ سچ میں ہی دادا سے شکایت نہ لگا دیں۔
* * *
ہاں بتا کیا ہوا؟؟
سمیر عارفین کے گھر پہنچ چکا تھا فارس جانتا تھا کہ سمیر کو کوئی خاص پروبلم ہوئی ہے لیکن سمیر اب تک کچھ نہ بولا تھا۔
میں جاؤں باہر؟؟
شانزے کو لگا وہ شاید اس کی وجہ سے خاموش ہے دونوں دوست آپس میں کھل کر بات کر لیں گے۔
نہیں شانزے ایسی بات نہیں ہے تم کون سی غیر ہو ہر بات تو جانتی ہی ہو، بیٹھی رہو۔۔
سمیر نے شانزے کو جانے سے روک لیا تھا۔
کنزہ مر گئی!!
سمیر نے ایک دھماکا کیا تھا۔
کیا؟؟؟؟
فارس اور شانزے دونوں ہی حیرت ذدہ رہ گئے تھے۔
ہاں کل رات!
سمیر توڑ توڑ کر بات کر رہا تھا اس کی زبان اس کا ساتھ دینے سے انکاری تھی۔
لیکن کیسے اور کب اس کو تو کوئی بیماری بھی نہیں تھی۔۔
شانزے نے حیرانگی سے پوچھا۔
میری محبت کھا گئی اسے شانزے۔ میری بے پرواہی کھا گئی اسے ۔۔میں نے اس پر حکم جاری کر کے چھوڑ دیا پوچھا بھی نہیں کہ کیسی ہے کیا کر رہی ہے۔۔ کیا تکلیف ہے اس کو ؟؟ میں یہاں اپنے مسئلوں میں الجھ گیا پہلے عارفین پھر عشاء ان دونوں میں میں کنزہ کو بالکل فراموش کر گیا تھا لیکن وہ صرف مجھے سوچ رہی تھی میرے انتظار میں تھی وہ چاہتی تھی میں اسے لے جاؤں لیکن میں آواز نہیں اٹھا پایا نہیں لے کر آ پایا اسے۔ اس نے آخری میسج بھی مجھے ہی کیا ۔۔۔ فارس! وہ جانتی تھی وہ مرنے والی ہے ۔۔اسکی محبت میں وہ سچائی تھی جو آج کل کم ملتی ہے۔۔۔ وہ ہمیشہ کہتی تھی سمیر تم نہیں تو کوئی اور نہیں لیکن میں سمجھتا رہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جائے گی وقت مرہم لگا ہی دیتا ہے لیکن نہیں میں غلط تھا سو فیصد غلط۔۔ اس کے زخم ہر نئے دن کے ساتھ اور تازہ ہوتے گئے ۔۔ فارس! مجھے میسج کرتے ساتھ ہی اس کو ہارٹ اٹیک آگیا اور پانچ منٹ کے اندر اندر وہ مجھے چھوڑ گئی. شانزے! اس نے مجھے معاف کر دیا تھا یہ ایک اور احسان وہ مجھ پر کر گئی کہ میں زندگی بھر پچھتاتا نہ رہوں وہ مجھے آزاد کر گئی تھی کے سمیر جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا اور یہ ایک رسی نہ ہوتے ہوئے بھی تمہارے گلے میں لٹکی رہتی ہے یہ بھی ختم. نا کنزہ ہوگی نہ تم کسی فیصلے سے ڈرو گے۔ فارس! مجھے چین نہیں آرہا میں ہر گزرتے پل کے ساتھ کسی جلتی آگ میں سلگ رہا ہوں وہ جیت گئی مجھے ہرا گئی کہ سمیر تم بزدل تھے دیکھو میں کتنی بہادر تھی کسی سے نہ ڈری اور آخر کار اپنی محبت کو امر کر گئی۔۔ فارس !شاید اس کی زندگی میں اور تکلیفیں آنی تھیں لیکن اللہ کو اس پر ترس آگیا اور اس نے اس کو اپنے پاس بلا لیا۔
سمیر بول رہا تھا اور اس کے آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ شانزے کی آنکھیں بھی بھیگنے لگیں۔۔ فارس کا بھی دل اپنے دوست کو اس حالت میں دیکھ کر بھر رہا تھا لیکن فارس کو سمیر کو سنبھالنا تھا اس لئے سمیر کو زور سے گلے لگا لیا کہ وہ آج ہی سارے آنسو بہا لے۔۔۔ شانزے باہر چلی گئی اس سے یہ منظر دیکھا نہیں جا رہا تھا ہر کوئی مجبور تھا یہ غم بڑا تھا سب صرف تسلی ہی دے سکتے تھے اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سمیر دیکھ ہم جانتے ہیں تمہاری محبت سچی تھی اسی وجہ سے وہ آخری بات تم سے ہی کرکے گئی وہ جہاں ہے اس وقت خوش ہوگی یہ دنیا والے تو نہ سمجھ سکے لیکن اللہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے لوگ تو حرام موت چن لیتے ہیں۔۔ وہ بزدل ہوتے ہیں زمانے سے ہار جاتے ہیں۔ وہ تو پھر جیت کر گئی ہے اس نے حرام موت نہیں چنی اس کو اللہ نے محبت سے اپنے پاس بلا لیا ۔۔ اب تمہیں بھی خود کو سنبھالنا ہوگا۔۔ اپنی سچی محبت کا ثبوت دو اور اس کی آگے کی منزلوں کے لئے دعا کرو کہ وہ آگے بھی اللہ کے سامنے کامیاب ہوجائے۔۔
فارس کو پتا تھا کہ کیسے سمیر کو ہینڈل کرنا ہے۔۔ سمیر کافی حد تک سنبھل چکا تھا۔ یہ آنسو بہہ جائیں تو کافی مسئلے ایسے ہی حل ہو جاتے ہیں ورنہ یہ آنسو زندگی بھر آنکھوں میں چبھتے رہتے ہیں۔۔۔
سمیر پانی؟؟
شانزے اندر آ گئی تھی اور سمیر کو خاموش دیکھ کر پانی کا گلاس اس کے آگے کر دیا۔۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو فارس بے شک اللہ بہت کریم ہے اللہ اس کی آگے کی منزلیں آسان کرے۔۔میں ہر پل اس کے لیئے دعا گو رہوں گا۔
سمیر خاموش بیٹھا رہا۔۔
سمیر میں نے تمہیں یہ بتانا تھا کہ ان کے گروہ کے تین لوگ قبضہ میں آگئے ہیں لیکن اکبر اور ایک اور لڑکا ابھی بھی فرار ہیں ان تین لڑکوں کی مار کٹائی ابھی جاری ہے جلد ہی اگل دیں گے۔۔
فارس نے سمیر کا دھیان کنزا سے ہٹا دیا تھا۔۔
چلو شکر ہے! شکریہ یار تونے کافی مدد کی میری ہر موڑ پر۔
سمیر نے ایک بار پھر فارس کو گلے لگا لیا۔۔
چل بس اب زیادہ بن مت شکریہ کا پّتر۔ میرا فرض تھا یہ سب ۔۔تجھے جس موڑ پر میری ضرورت ہوگی مجھے ساتھ پائے گا۔
اہم آپ دونوں کی گفتگو اگر اختتام پذیر ہوگئی ہے تو کھانا لگا دیا ہے نوش فرمائیں مجھے بھوک لگی ہے۔۔
شانزے بیچ میں بات کاٹ گئی باتیں کچھ زیادہ ہی غمگین ہو چکی تھیں ۔
ہاں چلو کھاتے ہیں تو بھی چکھ لے آج ہماری ڈاکٹر کتنا بد ذائقہ کھانا بناتی ہیں ۔۔ لیکن میں ہر حال میں شکر کرنے والا بندہ ہوں۔۔۔
فارس نے سمیر کو آنکھ مار کر کہا۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں یہ تو ہمیشہ سے فائیو اسٹار ہوٹل سے ہی کھانا کھاتے ہیں اللہ دیکھ رہا ہے کیسے ناشکرے لوگ ہوتے ہیں گھر میں سب کو پسند کرتا ہے اور ایک یہ ہیں ۔۔۔
شانزے روم سے چلی گئی تھی۔۔۔
یار تو کیوں تنگ کرتا ہے بیچاری کو؟؟؟
سمیر بھی ہنس پڑا۔۔۔
کیا کروں مجھے کک ملتی ہے۔
فارس قہقہ مار کر کھلکھلا اٹھا۔
* * *
دو مہینے ایسے ہی بیت گئے۔ عشاء نے گھر سے نکلنا بالکل بند کر دیا تھا وہ ابھی بھی ویسے ہی خاموش تھی۔ کھانا بھی زبردستی کھلایا جاتا تو کھا لیتی تھی ورنہ کھانے کا پوچھتی تک نہیں تھی ۔ ہر کوئی عشاء کو لے کر پریشان تھا ۔اسے ڈراونے خواب آتے تھے جس کی وجہ سے وہ راتوں میں جاگنے لگی تھی۔۔
جائے
سیما وہ کالج بھی نہیں جانا چاہتی تو ایسا کرو اس کا کہیں اچھا رشتہ دیکھ لو۔
دادا عشاء کی حالت کو سمجھنے سے قاصر تھے اور جانتے تھے اب یہی حل ہے کہ وہ سنبھل جائے ۔
اباجان پورے خاندان میں بات پھیل چکی ہے کوئی بھی رشتہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سب ہی اس کی عزت پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہم ایسی لڑکی سے کیسے شادی کر سکتے ہیں۔۔
سیما کے آنسو بہنے لگے تھے۔
پھر ایک حل ہے تم وجدان کے لیے بات کرو۔ دادا نے ایک رائے دی۔۔
ابا جان میں نہیں کر سکتی ۔ مجھ میں اب ہمت نہیں رہی کہ میں کسی سے بات کروں۔۔
سیما تھکے ہارے انداز میں بولنے لگیں ۔۔
صحیح میں بلاتا ہوں کل ریحانہ کو بات کرلیں تو بہتر ہے ۔۔
دادا نے ایک ارادہ کر لیا تھا ۔
* *
اٹھ جاؤ رمشا کل سے سو رہی ہو۔ دو دفعہ اٹھا کر جا چکا ہوں مجال ہے محترمہ نے آنکھ کھولی ہو ۔
عارفین آفس جانے کے لیے مکمل تیار ہو چکا تھا پر جانے سے پہلے رمشا سے ملنا چاہ رہا تھا ۔۔
ہاں جی؟؟
رمشا نے تھوڑی سی آنکھ کھول کر جمائی لیتے ہوئے کہا۔
نشہ کر لیا تھا کیا محترمہ آپ نے؟
عارفین ٹائی کی ناٹ باندھ رہا تھا.
نہیں جی نشہ نہیں وہ مجھے رات میں پراپر نیند نہیں آئی صبح جا کر آنکھ لگی۔
رمشا اٹھ کر بیٹھ چکی تھی۔
حد کرتی ہو تم! میں بول چکا ہوں اتنی بار کہ فوراً اٹھا دیا کرو لیکن تم اکیلے جاگتی رہتی ہو میں نہیں بول رہا تم سے اب میں جا رہا ہوں۔۔ اللہ حافظ!
عارفین ناراضگی سے اٹھ کر جانے لگا۔
اچھا بات سنیں بیٹھیں ادھر۔
کیا ہے؟؟
عارفین غصے سے بیٹھ گیا تھا.
ادھر دیکھیں میری طرف ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے میں بالکل ٹھیک ہوں ۔
رمشا نے عارفین کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں نرمی سے دبا لیے تھے۔
پھر بھی اٹھا لیتی تو رات میں کچھ رومینٹک باتیں کر کے دل بھلا دیتا تمہارا۔
عارفین ہنس کر اسے چھیڑنے لگا تھا۔
ایسا کریں آپ آفس ہی جائیں۔
رمشا شرم سے منہ پھیر گئی تھی۔
ایک تو میں اپنی ہی بیوی سے محبت کی باتیں نہیں کر سکتا کس کو بتاؤں غم میں اپنے۔
عارفین اداس سی شکل بنانے لگا۔
کر سکتے ہیں۔ اچھا میرے لیے آیسکریم لے کر آئے گا
رمشا نے فرمائش ظاہر کی ۔۔
اور کچھ ؟؟؟
عارفین کو رمشا کی فرمائشیں اچھی لگتی تھیں ۔ اس نے رمشا کو خود سے قریب کر لیا رمشا کا دل تیز تیز دھرکنے لگا تھا وہ نظریں جھکا چکی تھی۔۔ عارفین نے دھیرے سے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھ دیئے اور پھر اسے زور سے گلے لگا لیا۔۔ وہ رمشا کی تھکان اور پریشانی جذب کر گیا تھا۔۔ تھوڑی دیر ہو ایسے ہی ایک دوسرے کو محسوس کرتے رہے۔
چلو میں آفس جاتا ہوں دیر ہو رہی ہے باقی کا پیار ادھار رہا اور سنو آئس کریم منگوانی ہو تو مجھے کال کر کے یاد کرادینا۔
عارفین رمشا سے الگ ہو گیا ۔ رمشا نے نظریں نہیں اٹھائیں تھیں اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔ وہ روم سے نکل گیا لیکن رمشا محبت کے احساس کو محسوس کرتی رہی۔
* * *